بچیوں سے زیادتیوں کا تدارک

جنسی زیادتیوں کے سدباب کے لیے ملک میں قانون موثر ہے نہ ملزم گرفت میں آتے ہیں۔


Muhammad Saeed Arain January 23, 2018

ملک بھر خصوصاً پنجاب اور سندھ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعد میں ان کی ہلاکتیں انتہائی تشویشناک ہوچکی ہیں اور اس کا موثر تدارک نہ ہونے کی وجہ سے یہ شرمناک سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا بلکہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور آئے دن ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔

میڈیا پر کچھ روز ایسے واقعات کی خبریں چلتی ہیں اورکسی نئے واقعے تک بعد میں خاموشی چھا جاتی ہے اور پھر کوئی نیا واقعہ میڈیا کو جگا اور خبروں میں آنے کے شوقینوں کو مذمتی بیانات دینے کا موقعہ ضرور دے دیتا ہے اور بعد میں کوئی سیاسی معاملہ جنسی زیادتیوں کے واقعات سے زیادہ اہم ہوکر میڈیا کی توجہ حاصل کرلیتا ہے اور سیاست ان دونوں معاملات پر چمکانا معمول بن جاتا ہے۔

روزنامہ ایکسپریس کے جھنگ میں موجود ایک قاری اسحاق قادری نے جو ایک استاد ہیں راقم پر زور دیا کہ وہ جنسی واقعات کی اہم وجوہات پر حکومت کی توجہ مرکوز کرائیں کہ اس کا سب سے بڑا ذمے دار انٹرنیٹ ہے جس کے بند ہوئے بغیر جنسی زیادتیوں کے واقعات کم نہیں ہوسکتے کیونکہ اسمارٹ فونز اب ہر ایک کی پہنچ میں ہیں جن پر فحش مواد کی بھرمار سے نئی نسل خصوصی طور پر متاثر ہوکر تباہ ہو رہی ہے۔ فحش مواد سے کچے ذہن ہی نہیں بلکہ پکے ذہن بھی جنسی طور پر بے قابو ہوکر جنسی زیادتیاں بڑھا رہے ہیں۔

انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں جسے منفی کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور غیر اخلاقی حرکات کے لیے استعمال کرکے نئی نسل خود کو تباہ کر رہی ہے اور گھر گھر فحش مواد پہنچ رہا ہے مگر حکومت خاموش ہے اور پابندی نہیں لگائی جا رہی اور نہ ہی اسے محدود کرنے یا فحاشی روکنے کے اقدامات ہو رہے ہیں اور غیر مسلموں سے زیادہ ہم خود نسل برباد کر رہے ہیں۔

ملک بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کے علاوہ بھی ایک عرصے سے قوم اخلاق باختگی کا شکار تھی جس میں انٹرنیٹ نے بے انتہا اضافہ کردیا ہے۔ جنسی زیادتیوں کے واقعات پہلے بھی تھے مگر جنسی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ بچوں کو گمراہ کرنا، انھیں کھانے پینے کی اشیا کا لالچ دے کر پہلے اغوا کے واقعات ہی ہوتے تھے مگر جنسی زیادتیاں وہ بھی کمسن بچوں اور خاص کر بچیوں کے ساتھ کبھی اتنے نہیں تھے جتنے اب بڑھ چکے ہیں اور زینب جیسے واقعات روکے نہیں جا رہے۔

جنسی زیادتیوں کے سدباب کے لیے ملک میں قانون موثر ہے نہ ملزم گرفت میں آتے ہیں اور اگرکوئی گرفت میں آ بھی جائے تو اس کا انجام عبرت ناک نہیں ہوتا۔ کراچی آپریشن کے دوران سیاسی بنیاد پر پولیس نے چیرا سسٹم ایجاد کیا تھا اور سیاسی بنیاد پر گرفتار کیے جانے والوں کو رشوت نہ ملنے پر چیرا لگا کر نا مرد کردیا جاتا تھا حالانکہ سیاسی طور پر وہ ایسی سزا کے مستحق کبھی نہیں تھے بلکہ چیرا کی سزا کے مستحق جنسی زیادتیوں میں ملوث ملزمان ہیں جو قانونی سزا تو نہیں پاتے بلکہ دوسرے بھی ان کی تقلید کر رہے ہیں۔

دس پندرہ سال قبل رمضان المبارک میں راقم نے کراچی میں گلشن اقبال تھانے میں چیرا لگانے کا واقعہ پہلی بار دیکھا تھا جب کہ سنا بہت تھا۔ ایک شادی شدہ استاد نے اپنے شاگرد کمسن بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہ ہوا مگر بچے نے اپنے گھر جاکر اپنے والد کو بتا دیا جس پر مشتعل باپ پہنچ گیا اور وہ مذکورہ استاد کو مارنا چاہتا تھا مگر لوگوں نے اسے بچا لیا اور پولیس کے حوالے کردیا۔

تھانے میں بھی مشتعل باپ ملزم کو خود سزا دینا چاہتا تھا مگر پولیس افسر نے انھیں سمجھایا کہ آپ قانون ہاتھ میں نہ لو جس کے جواب میں مشتعل باپ کا کہنا تھا کہ میڈیکل رپورٹ غیر موثر آئے گی۔ اور قانون اسے کوئی سزا نہیں دے سکے گا۔ جواب میں پولیس افسر نے انھیں کہا کہ ہم اسے ایسی سزا دیں گے کہ یہ ہی نہیں دوسرے بھی عبرت حاصل کریں گے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا تصور بھی نہیں کرسکیں گے۔

راقم نے ملزم کو چیرا کی غیر قانونی سزا پر تھانے میں چیخیں مارتے دیکھا کہ پولیس نے ملزم کو کمرے میں زمین پر بٹھا کر اس کے ہاتھ بلند کرکے کھڑکی سے باندھ دیے تھے اور اس کی دونوں ٹانگیں زمین پر پھیلا کر دو سپاہی ملزم کی رانوں پر کھڑے ہوکر طاقت لگاتے رہے اور مسلسل چیخوں کے بعد ملزم اپنے گھر کے قابل بھی نہیں چھوڑا گیا جب کہ قانون تو اسے معمولی قید ہی دے سکتا تھا۔

یہ واقعہ غیر قانونی مگر عبرتناک تھا جس کی تشہیر بھی نہیں ہوئی مگر ملزم اپنے کیے کی سزا پا گیا تھا۔ جنسی زیادتیاں شرمناک پہلے بھی تھیں اور اخبارات میں بے آبرو کیے جانے کی خبریں کبھی کبھی شا یع ہوتی تھیں مگر ایسے افراد کو ملنے والی قانونی سزائیں سننے کو نہیں ملیں کہ دوسرے عبرت حاصل کرتے۔

جنسی زیادتیوں پر ملزموں کو اگر قانونی طور پر سخت اور عبرتناک سزائیں ملتیں تو یہ شرمناک واقعات روکے جاسکتے تھے مگر قانون مجبور اور مفلوج ہے جس سے جنسی دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہوتی اور آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ راقم کو سچل تھانے پر ایک خبر سننے کو ملی تھی جہاں ایک غیر ملکی خاتون نے اپنے شوہر کو بے راہ روی کی سزا دی تھی جس کے بعد وہ کسی قابل ہی نہیں رہا تھا۔

عدلیہ ایسے شرمناک معاملوں میں قانون کو دیکھ کر مجبور ہوجاتی ہے کہ قانون سخت اور عبرتناک سزا دینے کی طاقت نہیں رکھتا جس سے ہوس کے عادی اور جنسی دہشتگردوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ حیوانوں کو بھی مات دے رہے ہیں اور اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے بعد کمسن بچوں کو جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے اور پہچانے جانے کے خوف سے قاتل بن رہے ہیں اور قانون کی گرفت میں بھی نہیں آرہے۔

حکومت تمام فحش سائٹس کو کنٹرول کرے یا بند مگر جنسی دہشت گرد سخت قانون کے بغیر باز نہیں آئیں گے اور ملک بھر میں جنسی زیادتیوں کا تدارک کبھی نہیں ہوسکے گا۔قانون کے آہنی ہاتھوں کو فعال ہونا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں