عوامی معاشی اور فوجی دفاع پانچواں حصہ
عوام و ملک دشمن حکمرانوں نے کبھی حقائق کو اہمیت نہیں دی ہے۔
کالم کے شروع میں پاکستانی مالیاتی غلامی کا ذکر آچکا ہے کہ امریکا آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے نو آزاد ملکوں کو دھوکے میں رکھ کر ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو کاغذی ڈالر کے مقابلے میں کم کرتا ہے جس سے مالیاتی غلام ملکوں کی تجارت، بجٹ اور تمام ملکی معیشت خسارے میں چلی جاتی ہے۔ پھر ان ملکوں کو خساروں سے نکلنے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مہنگے قرضے دے کر معاشی غلامی کی زنجیروں میں جکڑلیتا ہے۔
نو آزاد ملکوں کے حکمران جو کالے انگریز ہیں کاغذی ڈالر کمیشن کھاکر ملکی معیشت کو مسلسل تباہ کررہے ہیں، ملکی اور غیر ملکی قرضے میں عوام کو غرق کرنے والے ہی یہی حکمران ہیں، جو عوام سے ووٹ لے کر، کبھی فوجی انگلیاں پکڑ کر، کبھی جمہوری حکمران بنتے آئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اب تک جتنے قرضے بھی لیے گئے وہ اشرافیہ نے ہی ہڑپ کرلیے اور ادائیگی کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔
سامراجی حکم پر پاکستانی معیشت پر جوں جوں سڈ مڈ لگایا جاتارہا توں توں روپے کی قدر گھٹتی گئی۔ اسی نسبت سے تجارتی خسارہ، بجٹ خسارہ بڑھتاگیا۔ تجارتی خسارے سے نکلنے کے نام پر حکمرانوں کو سامراج کاغذی قرض ڈالر دیتا گیا اور ساتھ ان حکمرانوں نے 1947 سے آج تک غیر ملکی اور ملکی قرضے عوام کے نام پر لیے۔
سرمایہ دارانہ سسٹم اور اشرافیائی طرز کی غلیظ جمہوری حکومتوں نے اپنا اپنا دورانیہ یا حکومتی مدتیں جب بھی پوری کیں تو دو چیزیں واضح طور پر سامنے آئی ہیں۔ حکمرانوں کے پاس افراط زر، جائیدادوں میں اضافہ اور عوام آئے روز قلت زر اور غربت کی دلدل میں دھنستے گئے ہیں۔ جاگیردار، سرمایہ مختلف پارٹیوں کی شکلوں میں باری باری نئی نئی پارٹیوں سے حکومت کرتے آرہے ہیں۔ عوام کو دھوکا در دھوکا دینا ان کی گھٹی میں شامل ہے۔
آئین، قانون سازی سمیت تمام ملکی اداروں پر قابض ہوکر ملکی دفاع، عوامی معاشی دفاع کو کمزور در کمزور کردیاگیا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہر ممبر صوبائی و قومی اسمبلی الیکشن سے قبل عوام کو ملک کو گارنٹی دے سکے کہ وہ جب منتخب ہوجائے گا تو گارنٹی کے طور پر اپنی جان اور تمام جائیداد پیش کرتا ہے۔ اگر وہ ملکی دفاع اور معاشی دفاع کو زیادہ مضبوط اور زیادہ ترقی نہ دے سکا یا ان دونوں کی نفی ہوئی تو اس کی جائیداد اور اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ کیا یہ جرأت تمام سیاست دان کرنے کو تیار ہیں۔
عوام و ملک سے ہر سیاست دان کھیلتا آیا ہے، عوام کو تباہ حالی کی طرف 1947 سے آج تک مسلسل دھکیلا گیا ہے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار ملک اور عوامی خزانے کو تو لوٹ رہے ہیں لیکن ساتھ ہی غیروں یا سامراجیوں کو بھی عوام کی معیشت لوٹنے میں مکمل تعاون کررہے ہیں۔ شروع جنوری 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دھمکیاں دینا اور پھر مسلم لیگ (ن) نے رد عمل کے طور پر بیان داغنے شروع کردیے کہ عوام میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کو عوامی ہمدردی مل جائے گی۔
حکومت مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کی ہو یا تحریک انصاف امیدیں لگائے بیٹھی ہو یا دیگر تمام پارٹیاں ہوں، ان سب نے ملکی معاشی دفاع کو نظر انداز کردیا ہے۔ تمام اسمبلیوں میں موجود پڑھے لکھے جاگیرداروں، سرمایہ داروں میں اتنی سمجھ بالکل نہیں ہے کہ وہ ملکی معاشی دفاع کو کمزور کرنے والے لوگوں کا قلع قمع کرسکیں۔ معیشت کو تباہ کرنے والے طریقوں کی نشاندہی کرکے ان کا خاتمہ کرسکیں۔
تمام نمائندے جن کو عوام نے اپنی خوشحالی کے لیے ووٹ دیے تھے، جاگیردار، سرمایہ دار ووٹوں کے بدلے عوام کو بے روزگاری، معاشی بدحالیوں کا شکار کررہے ہیں۔ امریکا کو دوست یا ہمنوا کہہ کر افغانستان میں امریکی جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر جہاد کیا گیا۔ 2001 کے بعد پھر جن لوگوں کو ہم نے امریکا سے مل کر جہادی قرار دیا تھا بعد میں امریکی مفاد کے لیے حکمرانوں نے ان کو دہشت گرد بنانے میں مکمل تعاون کیا۔ آج امریکا غیر اعلانیہ پوری دنیا میں خاص کر مسلم ممالک میں تمام دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ کررہا ہے اور الزام پاکستان پر دھر رہا ہے۔
امریکی صدر نے جو دھمکیاں دی ہیں یہ اپنی جگہ ناقابل برداشت ہیں۔ لیکن حکومتی پالیسیاں بھی غیر اعلانیہ امریکا سے مل کر ملک کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔ 12 نومبر 2017 کو اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق ورلڈ بینک نے حکومت سے کہا کہ روپے کی قیمت میں کمی کی جائے۔ اس سے قبل جون 2013 میں روپے کی قیمت 98.9093 روپے فی کاغذی ڈالر تھی اور پیپلزپارٹی نے جب 2008 میں حکومت بنائی تو جنوری 2008 میں 62.5805 روپے کا کاغذی ایک ڈالر تھا۔
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مسلسل روپے کی قیمت میں کمی کی گئی جو 58 فیصد تھی،موجودہ دور حکومت میں جون 2013 میں روپے کی قیمت 98.9093 روپے ایک کاغذی ڈالر تھی۔ جولائی 2013 میں 101.7734 روپے ڈالر کردی گئی اور بتدریج قیمت ہر ماہ بڑھائی گئی۔ نومبر 2013 میں 108.3840 روپے کردی گئی، پھر بتدریج کم کرتے ہوئے جولائی 2014 میں 98.6846 روپے کردی گئی۔ دسمبر 2014 میں 100.427 روپے کردی گئی۔ جون 2015 میں 101.7259 روپے کردی گئی۔ پھر 6 اکتوبر 2015 کو 104.55 روپے کا ڈالر کردیاگیا۔ 2 دسمبر 2015 کو 107.80 روپے کا ڈالر کردیاگیا۔
12 اکتوبر 2017 کو 105.40 روپے کا ڈالر تھا۔ 31 اکتوبر 2017 کو 105.441 روپے کا ڈالر تھا۔ 4 نومبر 2017 کو اوپن مارکیٹ میں 107.60 روپے کا ڈالر تھا۔ 12 دسمبر 2017 کو ڈالر 108.80 روپے کا کردیاگیا۔ پھر آئی ایم ایف نے دسمبر 2017 کو حکومت سے کہاکہ روپے کی قیمت میں مزید کمی کی گنجائش ہے، جب کہ 31 دسمبر 2016 کو انٹر بینک 104.90 روپے کا ڈالر تھا۔ امریکی ادارے آئی ایم ایف کے حکم پر حکومت نے 11 دسمبر 2017 کو 112.00 روپے کا ڈالر کردیا۔
پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ امریکی سامراج نے برطانوی سامراج کی طرح معاشی غلامی ملکوں کی معیشت پر قبضہ کیا ہوا۔ برطانیہ براہ راست حکومت کرکے غلام انڈیا کا سرمایہ برطانیہ منتقل کرتا تھا۔ امریکا نے Currency Devaluation Minus Economic Development کا فارمولا استعمال کرکے معاشی غلام ملکوں کا سرمایہ اپنے ملک اور دیگر یورپی ملکوں کو منتقل کردیا ہے۔ سڈ مڈ لگنے سے ملکی پیداواری لاگتیں بڑھتی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں معاشی غلام میں پیداواری شعبے ختم ہوتے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کارخانے، فیکٹریاں بتدریج مقابلہ منڈی میں فیل ہوتی جارہی ہیں۔
28 دسمبر 2017 کو پاکستان بزنس کونسل کی رپورٹ اخبارات میں شایع ہوئی تھی جس میں کہا گیا کہ پیداواری شعبے آئے روز سکڑتے جارہے ہیں، درآمدات بڑھ رہی ہیں اور برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں۔
راقم نے کئی بار گزشتہ اور موجودہ حکومت کے سامنے صنعتی کلچر کی تباہی کی طرف توجہ دلائی ہے، عوام و ملک دشمن حکمرانوں نے کبھی حقائق کو اہمیت نہیں دی ہے۔ اصل میں پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی پارٹیوں کی لیڈر شپ غیر اعلانیہ غیر ملکی سامراجی ایجنٹ ہیں۔ ایک طرف سامراجیوں کو عوامی سرمایہ لوٹنے میں تعاون کررہی ہیں، دوسری طرف عوامی سرمایہ لوٹ کر غیر ملکی پناہ گاہوں میں لے جارہی ہیں۔ جمہوریت ایک نو سربازی اور سراسر عوام کو دھوکا دینے کا نام ہے۔
(جاری ہے)