نقیب قتل راؤ انوار کو عدم تعاون پر گرفتار کرلیں گے پولیس
بااثر ایس ایس پی سمیت 6اہلکاروں نے آئی جی کے نوٹس اور احکام کو ہوا میں اڑا دیا۔
رائو انوار کے مکان پر چھاپہ نہیں مارا، ایس پی۔ فوٹو: فائل
محکمہ سندھ کے بااثر سمجھے جانے والے سابق ایس ایس پی ملیررائو انوار سمیت 6 اہلکاروں نے آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ کو معمولی اہمیت دیتے ہوئے ان کی جانب سے بھیجے جانے والے نوٹس اور احکام کو ہوا میں اڑا دیا۔
ایس ایس پی ملیرگزشتہ روز بھیجے جانے والے خط کو اہمیت نہ دیتے ہوئے سینٹرل پولیس آفس اور ایس پی ملیر انویسٹی ٹوکے دفتر میں تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ کئی گھنٹے انتظار کرنے کے بعد اعلیٰ افسران اپنے دفاتر کو چلے گئے۔
رائوانوارکومبینہ مقابلے میں نقیب اللہ محسودکی ہلاکت پر بنائے جانے والی کمیٹی نے تحقیقات کے لیے نوٹس کے ذریعے طلب کیا تھا۔ شاہ لطیف ٹائون تھانے کی حدود میں مبینہ مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسودکی ہلاکت پر بنائی جانے والے کمیٹی کے سامنے رائو انوار پیش نہیں ہوئے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان کئی گھنٹے تک انتظار کرتے رہے اور سینٹرل پولیس آفس میں بیٹھے رہے۔
اثروسوخ رکھنے والے ایس ایس پی رائو انوار سمیت دیگر اہلکاروں کی تاحال کوئی خبر نہیں ہے جب کہ محکمے کے دیگر افسران مسلسل فون پر رابطے کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ واٹس نمبر بھی بند جاتا رہا۔
ملیر انویسٹی گیشن ٹو کے ایس پی عابد قائم خانی کی جانب سے ایس ایس پی رائو انوار سمیت 6 اہلکاروں کو سینٹرل پولیس آفس اور ملیر ایس پی ٹو کے دفتر میں طلب کیا گیا تھا۔ نوٹس میں رائو انوار سمیت 7 اہلکاروں کے نام شامل ہیں جس میں سب انسپکٹر امان اللہ مروت، اے ایس آئی گدا حسین، صداقت علی شاہ، ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، پولیس کانسٹیبل راجا شمیم اور پولیس کانسٹیبل رانا ریاض شامل ہیں۔ ان تمام افسران و اہلکاروں کو نوٹس گھر کے پتہ پر بھیجے گئے تھے اور وائرلیس کے ذریعے بھی پیغام پہنچایاگیا۔
دریں اثنا نقیب اللہ محسودکی ہلاکت اور کیس کے انویسٹی گیشن افسر ایس پی عابد قائم خانی نے اپنے دفتر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ پورے پاکستان کی نظریں ہائی پروفائل کیس نقیب اللہ کی ہلاکت پر لگی ہوئی ہیں۔ ایسے میں محکمہ سندھ پولیس کے بااثر ایس ایس پی رائو انوار تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو ان کو مقدمہ درج کرنے کے بعد گرفتار کرلیا جائے گا، اس لیے وہ کمیٹی کا سامنا کریں بلکہ افسر کی حیثیت سے تعاون بھی کریں۔
ایس پی عابد قائم خانی نے کہاہے کہ نوٹس بھیجنے کے باوجود طلب نہ ہونے پر رائو انوار اور ان کی ٹٰیم کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی اور سخت سزا بھی دی جائے گئی۔ تحقیقاتی کمیٹی کی معاونت کے لیے محکمے کے دیگر ادارے بھی کود پڑے جس میں سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ،ایسٹ زون3 بھی شامل ہیں تاہم ٹیم کی جانب سے رائو انوار کے مکان پر کوئی چھاپہ نہیں مارا گیا۔
انھوں نے کہاکہ ایس ایس پی ملیر رائو انوار کوتحقیقات کے لیے طلب کیا تھا لیکن وہ کئی گھنٹے انتظار کے باوجود نہیں آئے۔ اس سے قبل ان کے گھر پر نوٹس بھیجا گیا تھا۔ گھر بند ہونے کی صورت میں دیوار اور دروازے پر نوٹس چسپاں کیا گیا۔ فون بند ہونے کے باعث وائرلیس پر بھی پیغامات دیے گئے لیکن ان سب کے باوجود رائو انوار یا ان کی ٹیم کی جانب سے کوئی افسر و اہلکار پیش نہیں ہوا جس پر ان کے خلاف سخت محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔
ایس پی عابد قائم خانی نے کہا کہ بحیثیت ایک افسر میرا رائو انوار کو پیغام ہے کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ تعاون کریں۔ کمیٹی میرٹ پر فیصلہ کرے گی۔ رائوانوارکے مکان پر چھاپے مارنے کی خبر غلط ہے۔ ایس پی عابد قائم خانی کی معاونت کرنے کے لیے اسپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی بھی میدان میں کود چکے ہیں۔ جن میں ایس ایس پی سی ٹی ڈی منیر احمد شیخ ، ایس ایس پی ذوالفقار مہر، ایس پی حیدر رضا اور ایس پی اسپیشل برانچ محمد عباس رضوی بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں مقتول نقیب اﷲ محسود کے اہل خانہ پولیس کی حفاظت میں کراچی پہنچ گئے، محسود قبیلے کے عمائدین نے ان کا استقبال کیا جس کے بعد وہ سہراب گوٹھ پر محسود قبیلے کی جانب سے منعقدہ جرگے کے لیے قائم کیمپ پر پہنچے جہاں انھوں نے جرگے میں شریک حاضرین کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے کے خلاف اظہار یکجہتی اور انصاف کے لیے آواز بلند کی۔
مقتول نقیب اﷲ محسود کے والد خان محمد محسود نے کہا کہ میرا بیٹا امن پسند اور بے گناہ تھا، وہ پاکستان سے محبت کرتا تھا جبکہ میں اپنے بیٹے کو فوجی بنانا چاہتا تھا وہ کیسے دہشت گرد ہوسکتاہے۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر پورا پاکستان میرے ساتھ ہے اور میرے بیٹے کے حق میں آواز اٹھانے پر سب کا مشکور ہوں، ہم سب کو مل کر مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنا ہے تاکہ دوبارہ کوئی نقیب اﷲ نہ مارا جائے، نقیب اﷲ کا غم پورے ملک کا غم ہے ، وہ کہتا تھا کہ میرے مرنے پر20کروڑ عوام روئیںگے۔
مقتول کے والد نے مزید کہا کہ نقیب اﷲ چاروں صوبوں کا بیٹا تھا اس کا ثبوت عوام نے اس کے حق میں آواز اٹھا کردیاہے۔ نقیب اﷲ محسود کے بھائی فریدمحسود کا کہنا تھا کہ اگر میرے بھائی کے پاس 70 لاکھ روپے ہوتے تو میں دبئی کیوں جاتا؟ باپ مزدوری کیوں کرتا؟ سہراب گوٹھ پر گرینڈ جرگے میں قبائلی عمائدین ، پختون برادری، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں، عہدے داروں ، کارکنوں اور علاقہ مکینوں سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
بعدازاں چیئرمین آل پاکستان محسود ویلفیئر ایسوسی ایشن رحمت خان محسود اور دیگر عمائدین نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا پولیس سے رابطہ ہے، آج قانونی مشاورت کے بعد مقدمہ درج کرائیںگے ، یہ کسی قومیت کا مسئلہ نہیںہے، جعلی پولیس مقابلے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ نقیب اﷲ محسود کے قتل کی تحقیقات کے لیے 3 دن میںعدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
عمائدین نے کہا کہ وہ دن گزر گئے جب لوگوں پر دباؤ ڈالا جاتا تھا لیکن ہم کسی بھی دباؤ کو ہرگز قبول نہیں کرینگے اور ہم انصاف کے حصول کے لیے آخری حد تک جائیںگے، راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے خلاف قتل اور دہشت گردی ایکٹ کے مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ وکلا سے مشاورت کے بعد کریںگے ۔ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے کہا کہ راؤ انوار پر بہت سارے بے گناہ افراد کا خون ہے، سب سے انصاف کیا جائے، اب کوئی ماورائے عدالت قتل نہیں ہونے دیںگے۔ گرینڈ جرگے کا کیمپ سہراب گوٹھ پر مزید 2 روز منگل اور بدھ کو بھی قائم رہے گا۔
دوسری جانب کراچی بارایسوسی ایشن نے نقیب اللہ محسود سمیت دیگر مبینہ جعلی پولیس مقابلوںکی انکوائری کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط لکھ دیا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں جعلی مقابلوں کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ہے ۔کراچی بار ایسوی ایشن کے عہدیداروں کی جانب سے کراچی میں نقیب اللہ محسود سمیت دیگر مبینہ پولیس مقابلوں کی تحقیقات کرانے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط لکھ دیا گیا۔
خط میں رائو انوار و دیگرکے خلاف انکوائری سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج سے کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ کراچی کے بیشتر نوجوانوں کو گڈاپ کے علاقے میں لاکر قتل کیا جاتا ہے، خط میں وکلا نے1991سے اب تک ہونے والے تمام پولیس مقابلوں کی انکوائری کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
وکلا برادری کی جانب سے آج ملیر بار اور کراچی بار کا مشترکہ جنرل باڈی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جس کے بعد وکلا کی جانب سے ایم اے جناح روڈ پر ایک ریلی نکالی جائے گی۔ بعد ازاں وکلارہنمائوں نے راؤ انوارکے خلاف قرارداد پیش کی۔کراچی بار ایسوسی ایشن نے جعلی مقابلوں کے خلاف منظور کی گئی قرارداد میں ماورائے عدالت قتل کی بھرپور مذمت کی اور راؤ انوار کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کی آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے، ماورائے عدالت قتل میں ملوث پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بھی قرار دار منظور کی گئی ہے۔
دریں اثنا سندھ ہائیکورٹ نے ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف درخواست پر محکمہ داخلہ، آئی جی سندھ، ایس ایس پی راؤ انوار اور پراسیکیوٹر سمیت دیگر کو نوٹس جاری کردیے اور20فروری تک جواب طلب کرلیا۔ ایس ایس پی رائو انوار کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ مزمل ممتاز ایڈووکیٹ نے راؤانوار کے مبینہ جعلی پولیس مقابلوںکی تحقیقات کیلیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائرکردی ہے۔ درخواست کی سماعت ہائیکورٹ کے2رکنی بینچ کے روبرو ہوئی۔
ایڈووکیٹ مزمل ممتازنے کہا کہ راؤانوار نے دوران ملازمت اختیارات سے تجاوز کیا، راؤانوار نے اب تک مبینہ طورپر250 سے زائد افرادکو جعلی مقابلوں میں ہلاک کیا۔ راؤانوارکودوران ملازمت مسلسل ملیر میںکیوں تعینات رکھا گیا؟ جعلی پولیس مقابلوں کے متعدد الزامات کی باوجود راؤانوارکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جعلی مقابلوں میں250سے زائد افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کیلیے اعلیٰ سطح کابورڈ قائم کیا جائے۔
درخواست میں استدعاکی گئی ہے کہ250 افرادکے قتل کی آزادانہ تحقیقات بھی کرائی جائے۔ عدالت نے موقف سننے کے بعد سندھ حکومت، آئی جی سندھ، راؤ انوار اور دیگر کو فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 فروری تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔