زراعت کی زبوں حالی

پاکستان کھاد اور زرعی ادویات کی تیاری پر توجہ دے کر خطیر زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے۔


March 24, 2013
حالیہ رخصت ہونے والی حکومت کی کمزور معاشی پالیسیوں کے باعث پانچ سال میں یوریا کی قیمت میں 191 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی کل افرادی قوت کا تقریباً 44 فیصد حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے' زراعت کے شعبے سے حاصل ہونے والی آمدن کا حصہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا لگ بھگ ایک چوتھائی ہے۔ زراعت کا ملکی ترقی اور خوشحالی میں بنیادی اور انتہائی اہم کردار ہونے کے باوجود یہ شعبہ سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی اور تحقیق کے فقدان کے باعث اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ ملک کو کپاس' دالیں اور دیگر زرعی اجناس کی درآمد پر ہر سال خطیر زرمبادلہ صرف کرنا پڑرہا ہے۔

بھارتی پنجاب کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں حکومت نے زراعت کی ترقی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جس کے صلے میں آج مشرقی پنجاب ملکی زرعی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں مسلسل حکومتی عدم توجہی کے باعث زرعی شعبہ زوال پذیر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان زراعت کو صنعت کا درجہ دیتے ہوئے اس قدر ترقی کرتا کہ پوری دنیا میں اس کی زراعت صف اول میں شمار ہوتی۔وہ کھاد اور زرعی ادویات میں خود کفالت حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے صورتحال اس قدر پریشان کن ہے کہ آج بڑی مقدار میں کھاد اور زرعی ادویات تک درآمد کرنا پڑتی ہیں۔

ربیع سیزن میں7 لاکھ 22 ہزار ٹن یوریا کھاد درآمد کی گئی۔پاکستان کھاد اور زرعی ادویات کی تیاری پر توجہ دے کر خطیر زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے۔ حالیہ رخصت ہونے والی حکومت کی کمزور معاشی پالیسیوں کے باعث پانچ سال میں یوریا کی قیمت میں 191 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 2008ء سے اب تک فی بیگ یوریا کی قیمت چھ سو روپے سے بڑھ کر 1750 روپے تک پہنچ گئی۔ یہی صورت حال زرعی ادویات میں رہی۔ بجلی اور ڈیزل کی قیمت میں بھی خاطر خواہ اضافے کا اثر زرعی پیداواری عمل پر پڑا۔ پیداواری لاگت بڑھنے اور تحقیقی میدان میں مناسب پیش رفت اور فی ایکڑ پیداوار میں خوش کن اضافہ نہ ہونے کے باعث زرعی شعبے کو شدید دھچکا لگا اور کسان معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا۔

نتیجتاً بہت سے کسان زمینوں کی کاشت سے الگ ہونے پر مجبور ہوگئے۔ متعدد علاقوں میں پانی کی قلت سے بھی زرعی پیداوار متاثر ہوئی۔ حکومتی اداروں کی نااہلی کے سبب پھلوں کی پیداوار بھی گھٹتی جا رہی ہے۔ رواں سال کینو کی برآمد دو لاکھ ٹن سے کم رہنے کا خدشہ ہے۔کینو کی برآمدات میں اضافے کے لیے ناگزیر ہے کہ مشرق وسطیٰ' افریقہ' آسیان سمیت دیگر ممالک پر خصوصی توجہ دی جائے۔ جدید ٹیکنالوجی کے فقدان اور پراسیسنگ کی ناکافی سہولتوں کے باعث کینو کی پیداوار کا 30 فیصد حصہ ضایع ہو جاتا ہے جو ایک بہت بڑا ملکی نقصان ہے۔اسی طرح دودھ کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق اس کی پیداوار بڑھانے پر بھی مناسب توجہ نہیں دی جا رہی۔

پنجاب میں ساہیوال کی نیلی راوی بھینس کا شمار دنیا کی اعلی نسل کی بھینسوں میں ہوتا ہے مگر اس کی پیداوار بڑھانے میں حکومتی ادارے مسلسل تساہل پسندی سے کام لے رہے ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق بڑا ڈیم بنانے کی طرف بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ کالا باغ جو ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے سیاسی تنازعوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ بھاشا ڈیم جس سے 45 سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہے ابھی تک فائلوں میں دبا ہوا ہے۔ اب ورلڈ بینک نے پاکستان کو کوہستان میں 43 سو میگاواٹ کے داسو پن بجلی منصوبے کے لیے 2 ارب ڈالر تک قرضہ دینے کی پیشکش کی ہے۔

حکومت ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دے تو اس سے نہ صرف بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے آیندہ برسوں میں آنے والے پانی کے بحران کے ممکنہ خطرے سے بھی نمٹنے میں آسانی رہے گی۔ بجلی اور پانی کی وافر فراہمی سے زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبہ بھی ترقی کرے گا اور روز گار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ حکومت کو پٹرول کی درآمد پر جو خطیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے اس میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ضرورت درست منصوبہ بندی ،خلوص نیت اور عزم کی ہے جس کا آج فقدان نظر آ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں