جنرل پرویز مشرف بطور سیاست دان
پرویز مشرف یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ جلد یا بدیر اُن کو اس معاہدہ پرمسلم لیگ ق کی قیادت کو اعتماد میں لینا پڑے گا
بحیثیت ایک فوجی کے، جنرل پرویز مشرف کا کیریئر بہت شاندار رہا۔ 1961ء میں 18 سال کی عُمر میں فوج میں شمولیت اختیار کی، اور1998ء میں 55 سال کی عُمر میں چیف آف آرمی اسٹاف بن گئے۔ 1965ء اور 1971ء ، دونوں پاک بھارت جنگوں میں دادِ شجاعت دی۔ لیکن انھیں اصل شہرت ''کارگل جنگ'' سے ملی۔ یہ بالواسطہ طور پر اس جنگ کا نتیجہ تھا کہ 12 اکتوبر1999ء کو فوج نے جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کا نواز شریف کا حکم نامہ مسترد کر دیا۔
نتیجتاً، ختم ہو گئی اور جنرل مشرف برسرِاقتدار آ گئے۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے تین سال کی مہلت لے کر پہلے بلدیاتی انتخابات منعقد کیے، پھر صدارتی ریفرنڈم کرایا اور آخر میں عام انتخابات کرا کے اپنی آئینی اور سیاسی پوزیشن بے حد مستحکم کر لی۔ لیکن یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں تھا کہ اُن کی یہ ساری کامیابیاں صرف اس لیے ہیں کہ پرویز مشرف، سیاست دان نہیں، بلکہ حاضر سروس چیف آف آرمی اسٹاف ہیں۔
28 نو مبر2007ء کو جنرل مشرف چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بطور ِسیاست دان ان کا یہ پہلا سیاسی فیصلہ تھا۔جس 'معاہدہ' کے تحت انھوں نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑا، وہ 'معاہدہ' اُن کی سیاسی ناتجربہ کاری کا شاہکار تھا۔ مثلاً یہ کہ یہ پیپلز پارٹی کی قیادت اوران کے درمیان یہ معاہدہ اس طرح طے پا یا کہ برسرِاقتدار ق لیگ کو بھی مطلق خبر نہیں تھی۔ چوہدری برادران کو البتہ اپنے ذرایع سے یہ اطلاعات مل رہی تھی کہ جنرل پرویز مشرف آیندہ سیٹ اپ میںق لیگ کے برعکس پیپلز پارٹی کو فرنٹ سیٹ پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ جلد یا بدیر اُن کو اس معاہدہ پر مسلم لیگ ق کی قیادت کو اعتماد میں لینا پڑے گا، اور اُس وقت ق لیگ اُن پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہو گی۔ وہی ہوا، جس کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ بہت بعد میں جب ق لیگ کو باضابطہ طور پر اس معاہدہ پر اعتماد میں لیا گیا، تو جنرل مشر ف پر ق لیگ کی قیادت کا اعتماد ختم چکا تھا۔ اس ''معاہدہ'' کا لبِ لباب یہ تھا کہ 2008ء کے بعد جنرل مشرف بدستور صدر رہیں گے، لیکن وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹوہوں گی۔ ق لیگ کی حیثیت جونیئر پارٹنر کی ہو گی۔ بطورِ سیاست دان، جنرل پرویز مشرف کی یہ پہلی غلطی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کا دوسرا سیاسی فیصلہ صدارت سے مستعفی ہونا تھا۔ اگرانھیں مستعفی ہونا ہی تھا، تو اس کا بہترین وقت 2008 ء کے فوراً بعد کا تھا۔ اس مرحلے پر اگر وہ اپنی شکست تسلیم کر کے استعفا دے دیتے تو اُن کے سیاسی قد میں بہت اضافہ ہو سکتا تھا۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ استعفا دیتے، اُنھوں نے چوہدری برادران کو مسلم لیگ ق کی قیادت سے دستبردار کرانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ جنرل پرویز مشرف یہ مہم سر نہ کر سکے، بلکہ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف اور چوہدری برادران کے درمیان مزید دُوریاں پیدا ہو گئیں۔
اطلاعات یہ تھیں کہ اب جنرل پرویز مشرف ضرور ہی مستعفی ہو جائیں گے، لیکن جنرل پرویز مشرف نے یہ موقع بھی ضایع کر دیا۔ پھر وہ مرحلہ آیا، جب ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے اُن کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس مرحلہ پر بھی تذبذب کا ثبوت دیا۔ پہلے تو بہت زور و شور سے کہا کہ مواخذہ تحریک کا سامنا کریں گے اور ہرگز، ہرگز استعفا نہیں دیں گے۔ پھر، 18 اگست 2008ء کو اس طرح استعفا دیا، کہ ہر خاص و عام کی زبان پر تھا کہ اب اُن کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا تھا۔ بطور سیاست دان، اس طرح استعفا دینے کا فیصلہ، جنرل پرویز مشرف کی دوسری غلطی تھی۔
جنرل پرویز مشر ف کا تیسرا سیاسی فیصلہ اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ تھا۔ پارٹی بنانا اور چلانا آسان کام نہیں۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ جنرلوں کے لیے یہ اور بھی مُشکل ہوتا ہے۔ پھر، 9 سال تک ملک پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کر چکے ہیں۔ آرمی ہاوس اور ایوان صدر سے عزت وقار کے ساتھ باہر نکلے ہیں۔ سابق صدر کے طور پر عالمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کا سلسلہ بھی خوب ہے۔ اندرون اور بیرونِ ملک غیر معمولی پروٹوکول مل رہا تھا۔ ہر طرف اُن کی دھاک بیٹھی تھی۔ ظاہراً اُن کو دوبارہ سیاست میں کُودنے کی ضرورت نہیں تھی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اُن کو دھکا کس نے دیا۔ شروع شروع میں جو دو چار معروف ہستیاں، اُن کے اردگرد نظر آ رہی تھیں، وہ بھی رفوچکر ہو چکی ہیں۔ ملک کے اندر باہر کوئی قابل ذکر پارٹی یا پارٹی لیڈر، جنرل پرویز مشرف کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ بقول ِشاعر، پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ عام انتخابات میں اگر ایم کیو ایم کی خیرات پر منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچ بھی جاتے ہیں تو کیا کریں گے۔ پھر یہ کہ اگر اُنھیں عملی سیاست میں اتنی ہی گہری دلچسپی تھی تو اپنے اوپر بھگوڑے کا داغ لگوانے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن، اُس وقت یہ جُرات مندی اُن کو خلاف ِمصلحت نظر آتی تھی۔ وہ باہر چلے گئے۔
بیرونِ ملک سے اُن کا پاکستان میں اس طرح کا کوئی موثر رابطہ بھی نہیں رہا تھا۔ یہاں اُن کی تنظیم برائے نام تھی۔ بیرسٹر سیف بھی بیچارے خاموش ہو چکے تھے۔ تعجب یہ ہے، آج پانچ سال بعد جب کہ عام انتخابات میں صرف 45 دن باقی رہ گئے ہیں، وہ یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ وہ اور اُن کی پارٹی آیندہ عام انتخابات میں بھرپور طور پر حصہ لیں گے ۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنی جگ ہنسائی کرانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ تاجر طبقہ اُن کا بہت حامی رہا ہے، اور اب بھی اُن کے دور ِحکومت کو یاد کرتا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ اقلیتی مذاہب اور مسالک، جو دہشت گردی کا براہ راست نشانہ ہیں، اُن میں جنرل مشرف کے لیے بڑی ہمدردی پائی جاتی ہے، لیکن اول، یہ بہت بکھری ہوئی طاقت ہیں، اور ثانیاً، اس طاقت کو سمیٹنے کے لیے ایک منظم پارٹی کی ضرورت تھی، جس سے سر ِدست، جنرل مشرف محروم ہیں۔ گویا، جنرل پرویز مشرف کو اپنے اس' ووٹ بنک' کا فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا، ہاں اگر وہ چاہیں تو اپنا یہ' ووٹ بنک' عمران خان کو منتقل کر کے نواز شریف کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن، جنرل پرویز مشرف کا یہ سمجھنا کہ وہ یا اُن کی پارٹی آیندہ انتخابات میں ڈیلور کر سکتے ہیں، بطور سیاست دان اُن کی تیسری غلطی ہے۔
جنرل پرویز مشر ف کی یہ غلطیاں پیش ِ نظر رہیں تو اُن کے سیاسی مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ اب اُن کی وطن واپسی کا فیصلہ ہی لے لیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف باہر چلے ہی گئے تھے، تو اب بطور سیاست دان مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ کم از کم موجودہ چیف جسٹس سے براہ راست آمنا سامنا کا موقع پید ا نہ کریں، اُن کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کریں، لیکن 'سیاست دان پرویز مشرف' ، اُس 'فوجی پرویز مشرف' کا کیا کریں، جو کبھی ایک 'کمانڈو' بھی رہا ہے۔ ہر چند کہ جنرل پرویز مشرف اپنے خلاف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کرانے میں کامیاب تو ہو گئے ہیں لیکن جو بات اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ یہ ہے کہ جب وہ عدالت میں چیف جسٹس کے رُو برو کٹہرے میں کھڑے ہوں گے، تو اُن کے پلے کیا رہ جائے گا۔
کہاں وہ بلندی، کہاں یہ پستی۔ یہ ہزیمت سیاسی طور پر اُن کے لیے تباہ کُن ثابت ہو سکتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف یہ بات سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں کہ انتخابات میں فول پروف حفاظتی انتظامات بھی اُن کے لیے رکاوٹ بنیں گے۔ اُن کے لیے نقل و حرکت آسان نہیں ہو گی، جب کہ انتخابات نام ہی نقل و حرکت کا ہے۔ اگر جنر ل پرویز مشرف کو اعلیٰ سطح پر یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں تو بات دوسری ہے، ورنہ اس مرحلے پر اُن کی واپسی، نہ صرف اُن کی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے، بلکہ فوج کو بھی آزمایش میں ڈال سکتی ہے۔ بظاہر، جنرل پرویز مشرف پھر غلطی پر ہیں۔