فوزیہ قصوری کو شاباش
امریکی شہریت ایک مقناطیس کی طرح ہے جو دنیا،خصوصاً عالمِ اسلام اور ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
KARACHI:
اپنے پرانے اور اصل وطن کی خدمت کی خاطر امریکی شہریت ترک کردینا آسان کام نہیں ہے۔لوگ توگرین کارڈ نہیں چھوڑتے، چہ جائیکہ مکمل امریکی شہریت چھوڑدی جائے۔ جو کوئی''سلوک'' اور خلوص کی اِس منزل سے گزر جاتا ہے،اُس کے اخلاص اور وطن و پارٹی سے کمٹمنٹ کے کیا کہنے!پاکستان تحریکِ انصاف کی مرکزی رہنما محترمہ فوزیہ قصوری نے امریکی شہریت تیاگ کر ایک نئی مثال قائم کی ہے۔یہ دراصل دوہری شہرت رکھنے والوں کو آئینہ دکھانے کے مترادف بھی ہے۔
نیلا امریکی پاسپورٹ طاقت،تحفظ ،امن اور خوشحالی کی علامت ہے۔ایک عام انسان کی زندگی اِنہی چار عناصر کے اِرد گرد گُھومتی ہے۔ کسی بھی امریکی شہری کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے تمام امریکی اداروں کی طرف سے اتنا ہی تحفظ اورتعاون حاصل ہے جتنا امریکی صدر کو۔تحفظ،امن اور خوشحالی کے لیے امریکی شہریوں کو خاص تردّد نہیں کرنا پڑتا۔ امریکی شہریت کا حامل کوئی شخص پاکستانی شہری کی طرح بے چارہ اور بے یارومددگار نہیں ہوتا کہ وطنِ عزیز میں تو سیکیورٹی کے تمام ادارے تو مقتدر افراد اور اُن کے خاندانوں کی خدمت کے لیے وقف ہیں۔
یہاں تو ایک ٹپیّ صاحب ہی ''مان'' نہیں جو کسی بھی سرکاری عہدے کے حامل نہیں ہیں لیکن ایک مقتدر فرد سے گہرا تعلق رکھنے کے باعث سندھ پولیس اُن کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگائے رہی۔غالباً اب بھی وہ اِسی طرح سرکاری سیکیورٹی کے سائے میں زندگی انجوائے کررہے ہوں گے لیکن پانچ سال تک تو بہرحال وہ سندھ کی سرکاری سیکیورٹی میں زندگی ''کُٹ'' کر گزارتے رہے۔پاکستان کا غریب اور بے کس شہری تو محض ٹیکس دینے کے لیے ہے تاکہ صاحبانِ اقتدار اور طاقتوروں کو تحفظ بھی فراہم کیاجاتا رہے،وہ امن وامان میں بھی رہیں اور اُن کی خوشحالی بھی برقراررہے۔
اِس پس منظر میں اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کسی بھی پاکستانی کے لیے امریکی شہریت یا امریکی پاسپورٹ میں کس قدر کشش ہوگی۔ امریکی شہریت تو ایک مقناطیس کی طرح ہے جو دنیا،خصوصاً عالمِ اسلام اور ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کو اپنی طرف بلاتی اور کھینچتی ہے۔ یہ کشش اتنی طاقتور ہے کہ سابق سوویت یونین کے سابق صدر نکیٹاخروشچیف،جو امریکا کے سخت دشمن اور مخالف رہے،کے پوتے نے بھی امریکی شہریت حاصل کرلی۔ایسے میں امریکی اپنے نیلے پاسپورٹ پر کیوں نہ اِترائیں؟ کیوں اظہارِ فخر نہ کریں؟
پاکستان کی عدالتِ عُظمیٰ نے دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوںکے لیے جو شاندارفیصلہ سنارکھا ہے،اِس نے ہلچل بھی مچائی اور ہمارے کئی سیاستدانوں(خصوصاً ارکانِ اسمبلی) کی وفاداریاں بھی عیاں کردیں۔اِس کی مخالفت تو کی گئی لیکن اِس فیصلے نے اپنے انداز میں پاکستانیت کی بنیادوں کو مضبوط ومستحکم بھی کیا اور غیروں کو پارلیمنٹ ہائوس میں آکر ''نقب'' لگانے سے بازبھی رکھا۔اِس حوالے سے مولانا طاہر القادری صاحب کی سپریم کورٹ کے سامنے قانونی وآئینی شکست اِس کا سب سے بڑا اظہار ہے جس نے ایک کینیڈین مولانا صاحب اور اُن کے ''صاحبزادگان'' کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔
امریکی شہریت محفوظ کرنے کے لیے بعض لوگ تو سیاست اور اقتدار کے ایوانوں ہی سے غائب ہوگئے۔اِس سلسلے کی ایک نمایاں مثال جناب حسین حقانی، جو امریکا میں پاکستان کے سفیر بھی رہے اور جنہوں نے ابھی چند روز قبل ممتاز امریکی جریدے(فارن افیئرز) میں پاکستان کے خلاف ایک دل آزار آرٹیکل بھی لکھا ہے،کی اہلیہ محترمہ فرح ناز اصفہانی کی ہے۔اُن کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے تقریباً ایک درجن کے قریب مقتدرسیاستدانوں کو،دوہری شہریت رکھنے کے باعث،اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہونا پڑا۔
ان میں ایم این اے بھی تھے اور ایم پی اے بھی،نون اور قاف لیگ کے لوگ بھی تھے،ایم کیوایم کے بھی اور پیپلزپارٹی کے بھی۔مَیں پنجاب اسمبلی کے ایک سابق رکن اور سابق صوبائی وزیر کو جانتا ہوں جو اِس ڈر سے اسمبلی کی رکنیت چھوڑ کر امریکا بھاگ گئے کہ عدالتِ عُظمیٰ میں کوئی اُن کی مبینہ دہری شہریت کے بارے میں شکایت لے کر نہ پہنچ جائے۔امریکا بھاگتے ہوئے اِن ''ڈاکٹرصاحب'' نے اعلان کیا کہ چونکہ میری والدہ صاحبہ کو سرطان کا مرض لاحق ہے اور انھیں دن رات میری خدمت کی ضرورت رہتی ہے،اِس لیے مَیں اسمبلی کی رکنیت نہیں رکھ سکتا۔کیا ایسا ''فرمانبردار''بیٹاچشمِ فلک نے اِس سے قبل دیکھا ہوگا؟
تو پیارے قارئینِ کرام،اِس پس منظر میں امریکی پاسپورٹ پر لات مارنا اور امریکی شہریت سے لاتعلقی اختیارکرنا کوئی معمولی اقدام نہیں ہے۔جناب عمران خان کی پارٹی ''پاکستان تحریکِ انصاف'' سے وابستہ محترمہ فوزیہ قصوری نے امریکی شہریت سے ناتہ توڑا ہے تو اِسے غیر معمولی فیصلہ ہی کہاجاسکتا ہے۔فوزیہ صاحبہ کو شاباش نہ دینا زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔اِس اقدام پر عمران خان بھی فخر کرسکتے ہیں کہ اُن کی پارٹی میں کیسے کیسے مخلص لوگ موجود ہیں۔قصوری صاحبہ حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں اور عمران خان کی توجہ کی زیادہ حق دار بھی۔
یہ بہترین فیصلہ پاکستان کے دوسرے اُن سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال بھی ہے جن کے پاس امریکی شہریت ہے اور وہ اِسے چُھپا کر منافقت کی زندگی گزاررہے ہیں۔اگر ایسے لوگ سیاستدان ہیں تو وہ نہ عوام کے ووٹوں کے مستحق ہیں اور نہ ہی دوہری شہریت کے حوالے سے عدالتِ عُظمیٰ کے فیصلے کے پس منظر میں وہ قابلِ اعتبار ہیں۔''پاکستان تحریکِ انصاف'' کے اندر اگر مزید لوگ امریکی پاسپورٹ کے حامل ہیں تو اُنہیں بھی فوزیہ قصوری صاحبہ کے نقشِ قدم پر چل کر پاکستانیت کا پرچم بلند کرنا چاہیے۔
فوزیہ قصوری کے حوالے سے جو خبر شایع ہوئی ہے،اِسے یہاں حوالے کے لیے درج کرنا مناسب ہوگا:''پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنمافوزیہ قصوری نے پارٹی الیکشن کے اعتراض پر امریکی شہریت چھوڑدی ۔امریکی قونصلیٹ نے شہریت چھوڑنے کا تصدیقی لیٹر جاری کردیا۔اِس حوالے سے فوزیہ قصوری نے کہاکہ اُنہوں نے ملک کی خدمت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے آئین کی مکمل پابندی کے لیے اپنی دوہری شہریت چھوڑی دی ہے۔''
تقریباً ساٹھ سالہ فوزیہ قصوری صاحبہ، جو کراچی میں پیدا ہوئیں اور وہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، پی ٹی آئی سے وابستہ اُن مخلص لوگوں میں سے ایک ہیں جو پارٹی بننے کے ابتدائی دنوں ہی سے عمران خان کے ساتھ اب تک چلے آ رہے ہیں۔ محترمہ فوزیہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے امریکا میں پی ٹی آئی کو خواتین میں متعارف کروایا اور اِس کی جڑیں مضبوط کیں۔اپنی خدمت کی بدولت وہ عمران خان کے اہم لوگوں میں شامل ہیں اور ''پاکستان تحریکِ انصاف'' میں شعبۂ خواتین کی غالباً سربراہ بھی۔ اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ اور امریکا میں نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہونے کے ناتے وہ پی ٹی آئی کا بیش بہا اثاثہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ امریکی شہریت کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر اُنہوں نے ثابت کیا ہے کہ واقعتا وہ اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔ جب عمران خان شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال بنانے کی ابتدائی تگ و دَو میں تھے، فوزیہ قصوری نے اندرونِ ملک و بیرونِ ملک چیئرمین صاحب کا کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا۔ پی ٹی آئی میںاُن کی خدمات شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین،عمر اسد،حامد خان ،شفقت محمود،علیم خان، رشید بھٹی وغیرہ (جو آج پرانے اثرو رسوخ اور دولت کے بَل پر پی ٹی آئی پر غالب نظر آ رہے ہیں) سے کہیں زیادہ ہیں۔
فوزیہ قصوری صاحبہ کا اپنی امریکی شہریت سے قطع تعلق کرنا دراصل ایک بڑی تبدیلی کے آثار میں سے ایک ہے۔ اِسے معمولی خیال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایسا فیصلہ وہی خاتون کر سکتی ہے جسے وطن کی خاطر کسی ذاتی سودوزیاںکی پروا نہ ہو۔ پی ٹی آئی میں مبینہ طور پر جن ڈیفالٹرز کا ذکر سُننے کو ملتا رہتا ہے، اُنہیں خصوصی طور پر آگے بڑھ کر محترمہ فوزیہ قصوری کو سیلوٹ مارنا چاہیے۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی؟