انتخابات میں نیا کیا ہوگا…
تحفظات کے ٹوکرے میں ایک اندیشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف مظلوم طبقے کی نمایندہ ہونے کی داعی ہے
کسی بھی جمہوری حکومت کو جانچنے کا پیمانہ اس کی پالیسیاں اور وہ اقدامات ہوتے ہیں جو اس نے اپنے عہد حکومت میں عوام کے مفادات کے لیے کیے ہوتے ہیں۔ نئی نویلی سابق ہونے والی جمہوری حکومت نے عوام کے لیے کیا کیا؟ گزشتہ پانچ سال اور خاص طور پر حالیہ دنوں میں اس پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اس پر مزید رائے زنی کرنے سے 'صحافتی پرہیز' ہی بھلا۔
گلی کوچوں اور سیاسی چوباروں میں گردش کرنے والا سوال یہ ہے کہ آنے والے الیکشن میں پی پی، ن لیگ، ایم کیو ایم، ق لیگ اور اے این پی اپنی اپنی سیاسی مہم میں کون سا لائحہ عمل اختیار کریں گی۔ عوامی مسائل اور ان سیاسی جماعتوں کی اقتدار میں 'روش' کو سامنے رکھتے ہوئے کھرا سا نکتہ کسی کے پاس نہیں۔ ایک لحمے کے لیے یہ دردسر ان ہی سیاسی جماعتوں کے سر پر سوار کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ اپوزیشن کی صفوں میں شامل سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف وہ سیاسی قوت ہے جو عوام کے ذہنوں میں جگہ لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
تبدیلی کا نعرہ اور پھر انٹرا پارٹی الیکشن! کچھ مختلف سیاسی دکانداری کرنے میں بہرطور تحریک انصاف کامیاب ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کو نکال کر پی پی اور ن لیگ سے لے کر تانگہ پارٹیوں تک، سب میں الیکشن کے بجائے صرف اور صرف 'سلیکشن' کا عمل دخل زوروں پر رہا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگوں کو آگے لایا گیا، پارٹی عہدے دیے گئے اور اسمبلیوں کا ممبر بنوایا گیا جو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے ''قول و فعل'' پر پورے اترے۔ پی ٹی آئی نے انٹرا اپارٹی الیکشن کروا کر زیادہ نہیں تو کم از کم کچھ تو جمہوریت کا مکا پاکستانی سیاست میں لہرایا ہے۔ اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کیا تحریک انصاف آنے والے الیکشن میں کچھ کرپائے گی؟
ایک عوامی نکتہ نظر یہ ہے کہ بار بار کے چلے ہوئے سیاسی کارتوسوں کے بدلے اس بار تبدیلی کے 'سونامی' کو موقع دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس امر سے مفر نہیں کہ عوام ایلیٹ طبقے کی اجارہ داری اور عوامی وعدوں سے پھر جانے کی عادت سے نالاں ہیں۔ خلق خدا اس امر کا برملا اظہار کرتی ہے کہ جنھوں نے 'باریاں' لگا لگا کر ملک اور عوام کی حالت آج تک نہیں بدلی آنے والے الیکشن میں ان سے عوامی مفادات کی'خیرات' کی توقع رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ کیا تحریک انصاف بڑی اور بھاری سیاسی قوتوں کے مقابلے میں عوام کی ''سیاسی پسند'' بن سکتی ہے؟
تحفظات کے ٹوکرے میں ایک اندیشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف مظلوم طبقے کی نمایندہ ہونے کی داعی ہے، تحریک انصاف طبقہ اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کرتی ہے لیکن، تحریک انصاف کی ''کمان'' والی لیڈر شپ میں چلے ہوئے سیاسی کارتوس شامل ہیں جنھوں نے ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں بلکہ موروثی سیاسی جماعتوں میں رہ کر عوام کا خون چوسا ہے اور عوامی امنگوں کا قتل عام کیا ہے، تحریک انصاف پر 'اندیشے' کی یہ گولی بھی چلائی جارہی ہے کہ بظاہر امارت کے خلاف بر سر پیکار تحریک انصاف میں دولت کے انبار سے لدے بڑے بڑیافراد جمع ہوگئے ہیں جو تحریک انصاف کو مالی لحاظ سے ''سپورٹ'' کرتے ہیں، تحریک انصاف کے جلسوں اور جلوسوں کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔
کیا یہ بڑیافراد مستقبل میں اقتدار کے دنوں میں اپنے مفادات کے لیے تحریک انصاف کو استعمال نہیں کریں گے؟ کیا اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف اس دولت مند ٹولے کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گی؟ عوامی خدشات کی بارش جاری و ساری ہے جہاں تحریک انصاف سے کچھ لوگ امیدیں وابستہ کررہے ہیں، وہیں تحریک انصاف کی سیاست اور طرز سیاست پر عوامی حلقوں کی جانب سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔ دوسری جانب عوامی خدشات کے جواب میں پڑھے لکھے اسد عمر فرماتے ہیں ''عوام تحریک انصاف کو الیکشن میں جتوا دیں، اگر تحریک انصاف نے عوام کے ساتھ ناانصافی کی تو عوام تحریک انصاف کو کھڑکا دیں۔'' کیا عوام تحریک انصاف پر سیاسی اعتبار کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اس کا جواب آنے والے دن دیں گے، اس کا جامع جواب اس وقت ملے گا جب الیکشن مہم کا ''چوراہا'' آباد ہوگا۔
سیاسی و صحافتی ناقدین کا یہ فرمان بہرطور پتھر پر لکیر ہے کہ اقتداری سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کے لیے ''پٹاری'' میں ایسا کچھ نہیں جس سے عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنایا جاسکے۔ سیاسی موسم کے اس منظرنامے میں تحریک انصاف ''خوش ادا اور دلربا'' نظر آرہی ہے۔ الیکشن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، وہی الزامات، وہی گرم گرم بیانات اور وہی پرانے وعدے، اگر کچھ نیا ہے تو وہ تحریک انصاف کی ''سیاسی اٹھان'' ہے اور یہی سیاسی ناقدین کے لیے اس الیکشن میں دلچسپی کا 'سامان' ہے۔ عوام تحریک انصاف کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ کیا عوام الیکشن میں تحریک انصاف کو آگے لاتے ہیں؟ سب افسانوں اور کہانیوں کے آگے بڑا سا سوالیہ نشان ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کی پیچیدگیوں اور وراثتی ماحول میں کیا کہانی جنم لیتی ہے، سیاسی سمندر کی بڑھتی جولانیوں کے ساتھ ہی اس کا اندازہ ہوسکے گا۔