کیا یہ انتخابات کے خلاف سازش ہے…

پاکستانی پاسپورٹ، پاکستانیوں کے لیے دنیا بھر میں نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن چکا ہے۔


Huma Siddiqi March 24, 2013

KARACHI: 98فیصد مسلمان آبادی رکھنے والا یہ ملک بدقسمتی سے اندرونی اور بیرونی طاغوتی قوتوں کی سازشوں اور دہشت گردوں کی ملک کی اہم مذہبی وسیاسی شخصیات سے قربت کی بدولت اقوامِ عالم میں تیزی سے اپنا وقارکھو رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا Image ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے دین اسلام کو جو بلاشبہ امن و آشتی کا مذہب ہے، اخوت و بھائی چارے کا مذہب ہے۔ احترام انسانیت اور احترامِ آدمیت کا مذہب ہے، اس کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو مغرب میں نگاہِ غلط سے دیکھا جارہا ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ، پاکستانیوں کے لیے دنیا بھر میں نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن چکا ہے۔ مگر ہماری ریاست کو نہ اس بات کا احساس ہے، نہ اس کو اپنی ذمے داریوں سے کوئی غرض ہے۔ جب کہ حکومت نام کی کوئی چیز،اس ملک کے مسائل کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ دہشت گرد پورے ملک میں آزادانہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ ہر قسم کی تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں ، مگر ان کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں۔اس بات میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کو خطے میں انتہائی اہم جغرافیائی اہمیت حاصل ہے جب کہ آج کل یہ امریکا، بھارت اور اسرائیل تینوں ممالک کی Hit List پر ہے اور اسی وجہ سے گزشتہ دس سالوں سے دہشت گردی کا سامنا کررہا ہے۔

اگرچہ ملک کے کم و بیش تمام شہروں میں آنے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں، مگر پچھلے کچھ برسوں سے ملک کے دو اہم شہروں ، کوئٹہ اور کراچی میں تواتر سے جس طرح دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ خاکم بدہن سقوطِ ڈھاکا جیسے عظیم سانحے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ مگر شاید ہمارے حکمرانوں نے، ہماری بہت سی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اس قسم کے کسی بڑے قومی سانحے کے لیے اپنے ذہنوں کو تیار کر لیا ہے جب کہ پاکستانی ریاست نے حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنے،قوم کو اعتماد میں لینے اور مسائل پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کے بجائے شتر مرغ کی طرح اپنا سر،آنے والے طوفان کے اندیشے کے پیش نظر ریت میں چھپا لیا ہے۔

دوسری جانب موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ یعنی سب سے طویل آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے اور اس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومت کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہے۔ 11 مئی کو الیکشن ہونے والے ہیں۔ ظاہر ہے،یہ ایک آئینی نظام ہے اور اس کو چلنا بھی چاہیے اور آگے بھی بڑھنا چاہیے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ الیکشن کسی بھی قوم کے لیے تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ نئی امنگ، نئے جذبے اور نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوتے ہیں۔ ملک کو اس وقت بہت سے چیلنجز،اندرونی اور بیرونی سازش کے ساتھ ساتھ امن و امان کی بد سے بد تر ہوتی صورتحال کا سامنا ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے تو ریاست کے تمام اہم اداروں میں ہم آہنگی اور احساس ذمے داری کا ہونا بہت ضروری تھا مگر بد قسمتی سے ملک میں جمہوریت کی موجودگی کے باوجود بھی ملک کے تمام بڑے اور اہم ادارے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کرپشن، بد انتظامی، بے حسی، مفاد کی سیاست اور آپس کے ٹکرائو کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے رہے۔ جب کہ یہاں یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ عملاً اس وقت پورا ملک دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے، جب کہ ریاست آج بھی غیر حاضر ہے۔ حقیقتاً وہ دہشت گردی کے واقعات کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔

مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارا مقابلہ صرف دہشت گردوں سے نہیں، بلکہ انتہائی منظم، چالاک اور تربیت یافتہ دہشت گردوں سے ہے۔ درندگی اور سفاکی و بربریت کا خونی اور اندھا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ کبھی کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر حملے کرکے، کبھی کراچی میں مختلف آبادیوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنا کر فرقہ واریت کا اُبھارنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تو کبھی مختلف مسلکوں کے بیچ مذہبی منافرت پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کا ثبوت اس سے بڑا اور کیا ہوگا کہ کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں اور کراچی میں ہونے والے دو بڑے بم دھماکوں میں ایک ہی قسم کا گولہ بارود اور طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے جس سے پوری پاکستانی قوم سمجھ چکی ہے کہ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سازش کی جارہی ہے۔

دہشت گردی کی آڑ میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 3 مارچ کو کراچی کے علاقے عباس ٹائون کے نزدیک ہونے والے دو بم دھماکوں نے آناً فاناً سیکڑوں ہنستی کھیلتی زندگیوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک ناگہانی جنگ اس قوم کے سروں پر بلا وجہ مسلط کر دی گئی ہے۔ آئے دن کی دہشت گردی نے بچوں سے ان کا بہتر مستقبل اور بچپن چھین لیا ہے۔ یہاں پر غور کرنے والی بات یہ ہے کہ خودکش حملہ کرنے والے اتنی شدید نوعیت کے بم دھماکے کرنے والے کیا چاہتے ہیں۔ ان کے مقاصد کیا ہیں۔ وہ کس گھنائونی سازش پر عمل پیرا ہیں؟ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہورہا ہے کہ قوم کو سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہا۔

دو گھڑی سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں مل رہا۔ جب کہ دوسری جانب انتخابات قریب آچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو بھی الیکشن کے پر امن انعقاد میں بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ کورٹ کی جانب سے کراچی میں حلقہ بندیوں کی ہدایت کی گئی ہے۔ اتنے کم عرصے میں پہلے حلقہ بندیاں اور پھر صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ایسے دہشت گردی کے واقعات کے درمیان جو کہیں بھی اور کسی بھی وقت رونما ہوجاتے ہیں کیونکر ممکن ہوسکے گا۔ کہیں دہشت گردی کے یہ واقعات اور کراچی میں روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوئی سازش تو نہیں۔ اس پر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سوچنا ہوگا جب کہ چھوٹی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف ایک ایجنڈے یعنی دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔

پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے عوام کا کیا قصور ہے؟ آئے دن ہونے والی دہشت گردی کے واقعات اور روز روز کی ہڑتالوں، دھرنوں اور پر تشدد احتجاج کی وجہ سے مزدور اور محنت کش طبقے کو روزی کمانا، لوگوں کو دفتروں میں جانا اور نوکری کرنا عذاب ہوگیا ہے۔ 3مارچ کو عباس ٹائون کے نزدیک آبادی پر دو بڑے طاقتور بم دھماکوں کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم اور بڑے تجارتی شہر میں لوگ سڑکوں اور عبادت گاہوں کے بعد اب گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ ایسے میں پر امن انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ عباس ٹائون کے قریب بڑے بم دھماکوں کی شکل میں ہونے والی دہشت گردی کا سفاکانہ حملہ پاکستان کی سالمیت کی بقاء، پاکستان کے عوام کی اقدار اور ان کے دلوں میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی نہ صر ف مذموم کوشش تھی، بلکہ آیندہ ہونے والے انتخابات کو سبو تاژ کرنے کی بزدلانہ کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں