جمہوری حکومت…
کہتے ہیں کہ انسان ٹھوکر صرف ایک مرتبہ کھاتا ہے، مگر ٹھوکر کھاکر سنبھل جاتا ہے
خدا خدا کرکے 5 سالہ جمہوری حکومت نے اپنی میعاد پوری کرلی ہے۔ جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ جانے والی حکومت اپنی 5 سالہ مدت کے دوران مسائل کو حل کرنے اور عوام کو کچھ ڈلیور کرنے کی اسی طرح کی تیزی دکھاتی اور ٹھوس اقدامات کرتی تو شاید ملک کے حالات موجودہ شکل اختیار نہیں کرتے اور عوام کو ریلیف مل جاتا تو وہ بھی خوشحال ہوسکتے تھے،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان گزرے 5 برسوں میں حکومت نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ برعکس اس کے عوام کو مسائل کے بھنور میں پھنسادیا۔
پھر بھی یہ توقع رکھنا کہ ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جائیں گے سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ''ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے'' اپنے دور حکومت میں تو عوام کے مسائل سے غافل رہے، عوام کا گوشت نوچ لیا اور اب باقی ہڈیوں کو بھی چبا ڈالنے کا ارادہ ہے۔ خلق خدا کو نقارہ خدا سمجھیے اور اب عوام کی طرف سے جو رد عمل آئے گا اس کا سامان تو آپ نے خود کرلیا ہے۔ عوام کو جھوٹے وعدے، جھوٹے نعرے اور چمک دار منشور دینا بڑا آسان کام سمجھ لیا جاتا ہے، لیکن جب منتخب ہوکر ایوان میں پہنچتے ہیں یا حکومت میں آجاتے ہیں تو یہی کہا جاتا ہے کہ ''کون تم، کون ہم''۔ اسی سوچ کے ساتھ کیا دوبارہ عوام کے پاس جائیں گے یا جاسکتے ہیں؟
کہتے ہیں کہ انسان ٹھوکر صرف ایک مرتبہ کھاتا ہے، مگر ٹھوکر کھاکر سنبھل جاتا ہے۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے ٹھوکر کھاکر سنبھل کہاں گئے، اوندھے گر پڑے۔ اٹھا بھی نہیں جا رہا۔ مدد کے لیے بھی کوئی نہیں آرہا۔ کیونکہ ہر کس و ناکس آپ کا ٹھکرایا ہوا ہے۔ جنہوں نے سہارا دیا ان کو بھی آپ نے ٹھوکر ماردی۔ اب کیوں مدد کے لیے شور مچایا جارہا ہے۔ زیادہ نہیں تو کم ازکم اخلاقی سپورٹ کی درخواست کی جارہی ہے۔ بھائی! ''جیسی کرنی ویسی بھرنی'' والی بات یاد رکھیے۔ دوبارہ ''روٹی، کپڑا، مکان'' کا نعرہ منشور میں شامل کرکے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔
جس عوام کو آپ نے اپنے 5 سالہ دور حکومت میں روٹی، کپڑا اور مکان دینے کی بجائے بے روزگاری، غربت، مہنگائی، خودکشیوں کے علاوہ دیا ہی کیا تھا۔ روٹی، کپڑا، مکان تو کیا ملتا، جو پھٹا پرانا لباس، بوسیدہ رہائش اور روکھی سوکھی غذا تھی وہ سب بھی چھین لیا گیا۔ عام آدمی کو بس اس بات کی سوچ اور فکر رہتی کہ بغیر روزی اور آمدنی کے گھر کس صورت سے جاؤں گا، بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گا، بچوں کی فیس کہاں سے آئے گی، مکان کا کرایہ کیسے ادا ہوگا، بجلی، گیس، پانی کے بل کیسے ادا ہوں گے؟ کیا یہی آپ کی 5 سالہ کارکردگی نہ تھی جس پر بھی آپ نازاں ہیں کہ ''اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جائیں گے'' میرا مشورہ تو یہی ہے کہ ایسی غلطی نہ کریں۔
جہاں عوام نے آپ کو بڑی چاہتوں، محبتوں سے اقتدار کا تاج پہنایا تھا، وہاں اس تاج کو پیروں تلے روند بھی سکتے ہیں۔ انتخابات قریب ہیں، آپ لوگ خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں اور نئے لوگوں کو بالخصوص نوجوانوں کو آگے آنے دیجیے۔ انھیں بھی ملک و قوم کی خدمت کرنے کا موقع دیجیے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دوسرے لوگوں کی طرف کے نوجوان بلکہ آپ کی طرف کے بھی نوجوانوں کو شامل کر رہا ہوں۔ کیا ہم پچھلے 65 سال سے نہیں دیکھ رہے ہیں اور بھگت رہے ہیں کہ وہی پرانے چہرے گھوم پھر کر آرہے ہیں۔ ''نیا جال لائے پرانے شکاری'' کی صورت میں عوام کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ اب انھی چہروں کے خلاف عوام میں غم و غصہ پایا جارہا ہے تو انتخابات میں نئے چہرے لانے کے لیے ان ہی کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے اور تو اور بھانجیاں، بھتیجیاں، بیٹیاں اور بہوؤں کو سامنے لایا جارہا ہے۔
مطلب یہ کہ ان نئے چہروں کی پشت پر وہی پرانے چہرے کارفرما رہیں گے۔ عوام تو تبدیلی کے خواہاں ہیں صرف چہروں کی نہیں، نظام کی تبدیلی چاہتی ہے تاکہ ''جمہوریت'' کی بگڑی ہوئی صورت کو اصل شکل دی جائے۔ بہرحال اب انتخابات میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ عبوری حکومت کے بعد باقاعدہ سیاسی مہم کا آغاز ہوجائے گا۔ ویسے تو آج کل بھی سیاسی سرگرمیاں منظر عام پر آگئی ہیں، لیکن ان سرگرمیوں میں تیزی انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد ہی دیکھنے میں آئے گی۔ کن کن پارٹیوں کے کون کون سے امیدوار سامنے آتے ہیں۔
ایسی شفاف صورت حال سامنے آنے کے باوجود موجودہ حکومت کا آخری لمحات میں ''ادھر چٹ منگنی ادھر پٹ بیاہ'' کے مترادف دھڑا دھڑ مسائل سے نمٹنے کا انداز بھلا معلوم نہیں دیتا بلکہ بدنیتی کا شائبہ ہوتا نظر آرہا ہے تاکہ آنے والی حکومت بھی ان گمبھیر مسائل (جو یہ حکومت ادھورے چھوڑ کر جارہی ہے)ان کو حل کرنے میں الجھی رہے اور اسے بھی انھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے جیسے کہ جانے والی حکومت کو کرنا پڑا تھا۔ جس کے نتیجے میں انھیں سوائے ناکامیوں کے کچھ نہ ملا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والی حکومت کو بھی اسی طرح کی ''فرینڈلی اپوزیشن''میسر نہ آئے اور موجودہ اپوزیشن سے زیادہ سخت اپوزیشن کا مقابلہ کرنا پڑے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایسی اپوزیشن جو محض تنقید برائے تنقید کا رویہ اپنائے وہ کامیاب اپوزیشن ثابت نہیں ہوگی بلکہ انھیں تنقید برائے تعمیر کا رویہ اپنانا ہوگا۔
ہر جائز و ناجائز کاموں پر چشم پوشی کرنے کے بجائے ان پر سخت احتجاج کرتے ہوئے حکومت کے اقدامات کو عوام کے سامنے بھی لانا چاہیے۔ اب مفاہمتی سیاست کا دور گزر چکا۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے عوام کو دیے ہوئے منشور کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب کہ جانے والی حکومت نے یہ سب کچھ نہیں کیا اور منفی پروپیگنڈوں پر عوام کو بے وقوف بناتے رہے اور اس پر یہ طرہ امتیاز کہ جس ڈھٹائی سے اپنے غیر جمہوری اطوار کو آگے بڑھاتے رہے اور بدنامی کا طوق گلے میں لٹکائے رہے کیا یہی جمہوریت کے ڈھنگ ہوا کرتے ہیں؟ یہ تو آمریت سے بھی بدتر طرز عمل اختیار کیا گیا تھا۔
واہ! واہ! کس خوبصورت انداز سے آمریت کا جمہوریت سے انتقام لیا گیا۔ وہ انداز تو نہ ہی آمریت اور نہ ہی جمہوریت سے مطابقت رکھتا تھا بلکہ ''چنگیزیت''کا روپ اختیار کیا ہوا تھا۔ ہاں اتنا خیال رکھا گیا تھا کہ اپنے دور حکومت میں ''سیاسی انتقام'' کی آگ کو بھڑکنے سے روکا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دور حکومت میں سیاسی مقدمات اور سیاسی قیدیوں کی بازگشت نہ تھی۔ یہ قابل تحسین اقدام تھا جسے پچھلی جمہوری حکومت کا کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ نقادوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر گزشتہ دور میں حکومت نے کچھ اچھے کام کیے تھے تو اس کا کریڈٹ بھی انھیں ملنا چاہیے۔
پورے 5 سال کے عرصے میں انھوں نے دو کام ہی تو اچھے کیے ایک ''بے نظیر بھٹو شہید انکم سپورٹ پروگرام'' اور دوسرا ''گوادر پورٹ کو چین کے سپرد کرنا''۔ اور پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ (ابھی تو یہ معاہدہ نامکمل ہی رہے گا، کیونکہ ان کا دور حکومت اختتام کو پہنچ چکا) اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد کرتی ہے یا کچھ تبدیلی لاتی ہے۔ چونکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ قومی مفاد کا منصوبہ ہے لہٰذا اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔ دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟ ویسے اچھے فیصلے کی توقع کی جانی چاہیے کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔
اب جب کہ حکومت کی مدت اقتدار مکمل ہوچکی، اس سے زیادہ اور لعن طعن کرنا فضول ہے جیسے کہ بھٹو شہید نے بھی ایک آمر کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اپنی پارٹی بنانے اور اسے فعال کرنے کی معرکۃ الآراء جدوجہد کے دوران فرمایا تھا کہ ''آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا''۔ (چونکہ ان کی اردو کمزور تھی لہٰذا مولانا کوثر نیازی مرحوم جوکہ اس وقت پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات تھے اس جملے کو ادا کرنے میں ان کی مدد کی تھی) بہرحال اب آج کی صورت حال جس کا سامنا سابقہ جمہوری حکومت کر رہی ہے۔
یہی جملہ دہرانے کو جی چاہ رہا ہے کہ ''آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا'' (مگر یہاں آنے جانے کا فاصلہ 5 سال پر محیط ہے جب کہ بھٹو صاحب شہید جن کے آنے جانے کا اشارہ کر رہے تھے اس کی مسافت 11 سالہ تھی) الوداع!الوداع! جمہوری حکومت۔ اس کے ساتھ ہی نئی جمہوری حکومت کو خوش آمدید کہنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ درمیان میں تو نگران حکومت کا قیام ہوگا۔ پھر ان کی مدت نگراں پوری ہونے پر نئی جمہوری حکومت منتخب ہوکر میدان میں اترے گی۔ دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟
پھر بھی یہ توقع رکھنا کہ ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جائیں گے سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ''ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے'' اپنے دور حکومت میں تو عوام کے مسائل سے غافل رہے، عوام کا گوشت نوچ لیا اور اب باقی ہڈیوں کو بھی چبا ڈالنے کا ارادہ ہے۔ خلق خدا کو نقارہ خدا سمجھیے اور اب عوام کی طرف سے جو رد عمل آئے گا اس کا سامان تو آپ نے خود کرلیا ہے۔ عوام کو جھوٹے وعدے، جھوٹے نعرے اور چمک دار منشور دینا بڑا آسان کام سمجھ لیا جاتا ہے، لیکن جب منتخب ہوکر ایوان میں پہنچتے ہیں یا حکومت میں آجاتے ہیں تو یہی کہا جاتا ہے کہ ''کون تم، کون ہم''۔ اسی سوچ کے ساتھ کیا دوبارہ عوام کے پاس جائیں گے یا جاسکتے ہیں؟
کہتے ہیں کہ انسان ٹھوکر صرف ایک مرتبہ کھاتا ہے، مگر ٹھوکر کھاکر سنبھل جاتا ہے۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے ٹھوکر کھاکر سنبھل کہاں گئے، اوندھے گر پڑے۔ اٹھا بھی نہیں جا رہا۔ مدد کے لیے بھی کوئی نہیں آرہا۔ کیونکہ ہر کس و ناکس آپ کا ٹھکرایا ہوا ہے۔ جنہوں نے سہارا دیا ان کو بھی آپ نے ٹھوکر ماردی۔ اب کیوں مدد کے لیے شور مچایا جارہا ہے۔ زیادہ نہیں تو کم ازکم اخلاقی سپورٹ کی درخواست کی جارہی ہے۔ بھائی! ''جیسی کرنی ویسی بھرنی'' والی بات یاد رکھیے۔ دوبارہ ''روٹی، کپڑا، مکان'' کا نعرہ منشور میں شامل کرکے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔
جس عوام کو آپ نے اپنے 5 سالہ دور حکومت میں روٹی، کپڑا اور مکان دینے کی بجائے بے روزگاری، غربت، مہنگائی، خودکشیوں کے علاوہ دیا ہی کیا تھا۔ روٹی، کپڑا، مکان تو کیا ملتا، جو پھٹا پرانا لباس، بوسیدہ رہائش اور روکھی سوکھی غذا تھی وہ سب بھی چھین لیا گیا۔ عام آدمی کو بس اس بات کی سوچ اور فکر رہتی کہ بغیر روزی اور آمدنی کے گھر کس صورت سے جاؤں گا، بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گا، بچوں کی فیس کہاں سے آئے گی، مکان کا کرایہ کیسے ادا ہوگا، بجلی، گیس، پانی کے بل کیسے ادا ہوں گے؟ کیا یہی آپ کی 5 سالہ کارکردگی نہ تھی جس پر بھی آپ نازاں ہیں کہ ''اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جائیں گے'' میرا مشورہ تو یہی ہے کہ ایسی غلطی نہ کریں۔
جہاں عوام نے آپ کو بڑی چاہتوں، محبتوں سے اقتدار کا تاج پہنایا تھا، وہاں اس تاج کو پیروں تلے روند بھی سکتے ہیں۔ انتخابات قریب ہیں، آپ لوگ خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں اور نئے لوگوں کو بالخصوص نوجوانوں کو آگے آنے دیجیے۔ انھیں بھی ملک و قوم کی خدمت کرنے کا موقع دیجیے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دوسرے لوگوں کی طرف کے نوجوان بلکہ آپ کی طرف کے بھی نوجوانوں کو شامل کر رہا ہوں۔ کیا ہم پچھلے 65 سال سے نہیں دیکھ رہے ہیں اور بھگت رہے ہیں کہ وہی پرانے چہرے گھوم پھر کر آرہے ہیں۔ ''نیا جال لائے پرانے شکاری'' کی صورت میں عوام کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ اب انھی چہروں کے خلاف عوام میں غم و غصہ پایا جارہا ہے تو انتخابات میں نئے چہرے لانے کے لیے ان ہی کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے اور تو اور بھانجیاں، بھتیجیاں، بیٹیاں اور بہوؤں کو سامنے لایا جارہا ہے۔
مطلب یہ کہ ان نئے چہروں کی پشت پر وہی پرانے چہرے کارفرما رہیں گے۔ عوام تو تبدیلی کے خواہاں ہیں صرف چہروں کی نہیں، نظام کی تبدیلی چاہتی ہے تاکہ ''جمہوریت'' کی بگڑی ہوئی صورت کو اصل شکل دی جائے۔ بہرحال اب انتخابات میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ عبوری حکومت کے بعد باقاعدہ سیاسی مہم کا آغاز ہوجائے گا۔ ویسے تو آج کل بھی سیاسی سرگرمیاں منظر عام پر آگئی ہیں، لیکن ان سرگرمیوں میں تیزی انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد ہی دیکھنے میں آئے گی۔ کن کن پارٹیوں کے کون کون سے امیدوار سامنے آتے ہیں۔
ایسی شفاف صورت حال سامنے آنے کے باوجود موجودہ حکومت کا آخری لمحات میں ''ادھر چٹ منگنی ادھر پٹ بیاہ'' کے مترادف دھڑا دھڑ مسائل سے نمٹنے کا انداز بھلا معلوم نہیں دیتا بلکہ بدنیتی کا شائبہ ہوتا نظر آرہا ہے تاکہ آنے والی حکومت بھی ان گمبھیر مسائل (جو یہ حکومت ادھورے چھوڑ کر جارہی ہے)ان کو حل کرنے میں الجھی رہے اور اسے بھی انھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے جیسے کہ جانے والی حکومت کو کرنا پڑا تھا۔ جس کے نتیجے میں انھیں سوائے ناکامیوں کے کچھ نہ ملا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والی حکومت کو بھی اسی طرح کی ''فرینڈلی اپوزیشن''میسر نہ آئے اور موجودہ اپوزیشن سے زیادہ سخت اپوزیشن کا مقابلہ کرنا پڑے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایسی اپوزیشن جو محض تنقید برائے تنقید کا رویہ اپنائے وہ کامیاب اپوزیشن ثابت نہیں ہوگی بلکہ انھیں تنقید برائے تعمیر کا رویہ اپنانا ہوگا۔
ہر جائز و ناجائز کاموں پر چشم پوشی کرنے کے بجائے ان پر سخت احتجاج کرتے ہوئے حکومت کے اقدامات کو عوام کے سامنے بھی لانا چاہیے۔ اب مفاہمتی سیاست کا دور گزر چکا۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے عوام کو دیے ہوئے منشور کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب کہ جانے والی حکومت نے یہ سب کچھ نہیں کیا اور منفی پروپیگنڈوں پر عوام کو بے وقوف بناتے رہے اور اس پر یہ طرہ امتیاز کہ جس ڈھٹائی سے اپنے غیر جمہوری اطوار کو آگے بڑھاتے رہے اور بدنامی کا طوق گلے میں لٹکائے رہے کیا یہی جمہوریت کے ڈھنگ ہوا کرتے ہیں؟ یہ تو آمریت سے بھی بدتر طرز عمل اختیار کیا گیا تھا۔
واہ! واہ! کس خوبصورت انداز سے آمریت کا جمہوریت سے انتقام لیا گیا۔ وہ انداز تو نہ ہی آمریت اور نہ ہی جمہوریت سے مطابقت رکھتا تھا بلکہ ''چنگیزیت''کا روپ اختیار کیا ہوا تھا۔ ہاں اتنا خیال رکھا گیا تھا کہ اپنے دور حکومت میں ''سیاسی انتقام'' کی آگ کو بھڑکنے سے روکا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دور حکومت میں سیاسی مقدمات اور سیاسی قیدیوں کی بازگشت نہ تھی۔ یہ قابل تحسین اقدام تھا جسے پچھلی جمہوری حکومت کا کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ نقادوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر گزشتہ دور میں حکومت نے کچھ اچھے کام کیے تھے تو اس کا کریڈٹ بھی انھیں ملنا چاہیے۔
پورے 5 سال کے عرصے میں انھوں نے دو کام ہی تو اچھے کیے ایک ''بے نظیر بھٹو شہید انکم سپورٹ پروگرام'' اور دوسرا ''گوادر پورٹ کو چین کے سپرد کرنا''۔ اور پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ (ابھی تو یہ معاہدہ نامکمل ہی رہے گا، کیونکہ ان کا دور حکومت اختتام کو پہنچ چکا) اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد کرتی ہے یا کچھ تبدیلی لاتی ہے۔ چونکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ قومی مفاد کا منصوبہ ہے لہٰذا اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔ دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟ ویسے اچھے فیصلے کی توقع کی جانی چاہیے کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔
اب جب کہ حکومت کی مدت اقتدار مکمل ہوچکی، اس سے زیادہ اور لعن طعن کرنا فضول ہے جیسے کہ بھٹو شہید نے بھی ایک آمر کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اپنی پارٹی بنانے اور اسے فعال کرنے کی معرکۃ الآراء جدوجہد کے دوران فرمایا تھا کہ ''آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا''۔ (چونکہ ان کی اردو کمزور تھی لہٰذا مولانا کوثر نیازی مرحوم جوکہ اس وقت پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات تھے اس جملے کو ادا کرنے میں ان کی مدد کی تھی) بہرحال اب آج کی صورت حال جس کا سامنا سابقہ جمہوری حکومت کر رہی ہے۔
یہی جملہ دہرانے کو جی چاہ رہا ہے کہ ''آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا'' (مگر یہاں آنے جانے کا فاصلہ 5 سال پر محیط ہے جب کہ بھٹو صاحب شہید جن کے آنے جانے کا اشارہ کر رہے تھے اس کی مسافت 11 سالہ تھی) الوداع!الوداع! جمہوری حکومت۔ اس کے ساتھ ہی نئی جمہوری حکومت کو خوش آمدید کہنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ درمیان میں تو نگران حکومت کا قیام ہوگا۔ پھر ان کی مدت نگراں پوری ہونے پر نئی جمہوری حکومت منتخب ہوکر میدان میں اترے گی۔ دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟