ملالہ کے لیے نوبل امن انعام
یوٹیوب کو بحال کروانا کروڑوں لوگ چاہتے تھے لیکن اس پٹیشن پر سائن صرف سات سو لوگوں نے کیا۔
چینج ڈاٹ آرگ نامی ایک ویب سائٹ ہے، اس کو شاید پاکستان میں زیادہ نہیں جانتے لیکن یہ سائٹ پچھلے کچھ سال میں مغربی دنیا خصوصاً نارتھ امریکا میں بہت نام کرچکی ہے۔ 1960 میں میڈلین نامی ایک امریکن خاتون نے اپنے بچے کو روز صبح لازمی بائبل پڑھانے پر اسکول پر مقدمہ دائر کردیا تھا۔ کورٹ میں کیس چلا، امریکنز اور میڈیا نے میڈلین کے خلاف کافی باتیں کیں یہاں تک کہ انھیں ''امریکا کی سب سے قابل نفرت خاتون'' کا لقب بھی دیا لیکن وہ آخر میں کیس جیت گئیں اور پھر اس کے بعد امریکا کے کسی بھی پبلک اسکول میں بچوں کو لازمی بائبل نہیں پڑھائی جاتی، وجہ۔۔۔۔؟ اس کورٹ کیس سے امریکن قانون میں بدلاؤ آنا۔
میڈلین وہ پہلی مثال تھیں جن سے امریکا میں لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ایک عام آدمی بھی مدعا اٹھاکر اپنی بات منوانے کی طاقت رکھتا ہے، وقت گزرتا رہا اور امریکا میں کئی بدلاؤ میڈلین جیسے لوگوں کی وجہ سے آئے۔ انٹرنیٹ کے آتے ہی 1990 کی دہائی کے بعد جیسے دنیا کی ہر چیز سمٹ کر پندرہ انچ کے کمپیوٹر اسکرین میں سماگئی، ویسے ہی سوسائٹی میں بدلاؤ لانے کے لیے بھی اب چینج ڈاٹ آرگ جیسی ویب سائٹس بھی موجود ہیں۔
آپ کو اپنے محلے میں حکومت سے لائٹیں لگوانی ہیں یا پھر ملک کی کسی بڑی کمپنی کی بنائی پروڈکٹ کو بین کرانا ہے یا کسی میوزک ویڈیو کے الفاظ پر آپ کو اعتراض ہے، کسی بھی طرح کی چیز جس سے آپ کو لگتا ہے کہ سوسائٹی میں کوئی بہتر بدلاؤ آئے گا وہ پٹیشن آپ چینج ڈاٹ آرگ(Change.org) پر شروع کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور حکومت یا پھر مسئلے سے تعلق رکھنے والے ادارے کو یہ دکھائیں کہ کتنے سارے لوگ یہ بدلاؤ چاہتے ہیں جس کے بعد آپ کی بات پوری ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں اب تک چینج ڈاٹ آرگ کوئی بدلاؤ نہیں لایا ہے، اس کے باوجود پاکستانی اس سائٹ پر اکثر ایشوز اٹھاتے نظر آتے ہیں، پاکستان میں یو ٹیوب سے بین ہٹاؤ یا پھر پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ روکو، اوباما سے اپیل کہ وہ فوراً پاکستان کے لیے ایڈ بھجوائیں وغیرہ وغیرہ، کیونکہ یہ سائٹ پاکستانیوں میں زیادہ مقبول نہیں ہے اس لیے یہاں کی پٹیشن کو سپورٹ کرنے والے بھی زیادہ نہیں ہوتے۔
یوٹیوب کو بحال کروانا کروڑوں لوگ چاہتے تھے لیکن اس پٹیشن پر سائن صرف سات سو لوگوں نے کیا۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار سپورٹرز کے ساتھ پاکستانی کیمپین دم توڑ دیتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک پٹیشن اس ویب سائٹ پر ایسی آئی ہے جسے لاکھوں لوگوں نے سپورٹ کیا اور وہ ہے ملالہ یوسف زئی کو نوبل امن پرائز دلانے کی پٹیشن۔ ملالہ نے چند روز پہلے اسکول جانا شروع کیا۔ اب انھیں اسکول جاتے کسی دہشت گرد کا ڈر نہیں، کیونکہ اب ان کا اسکول انگلینڈ کے علاقے کیمبرج میں واقع ہے۔ سڑک پر چلتے باتیں کرتے ہوئے ملالہ اور ان کے والد اسکول کے اندر جاتے ہیں اور پھر ملالہ کا ان کے اسکول میں انٹرویو۔۔۔۔۔ پچھلے دنوں ہم نے یہ منظر امریکا انگلینڈ کے درجنوں نیوز چینلز پر دیکھا۔
خبر کہ ملالہ پھر سے اسکول جانے لگیں، حملے کے ڈر سے انھیں انگلینڈ کے اسکول میں داخلہ دے دیا گیا۔ ان گنت دعاؤں سے یہ بہادر بچی پھر آنکھیں کھول پائی، پھر خود سے سانس لے پائی اور پھر سے اپنے پورے ہوش و حواس میں عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہوپائی۔ کوئی بھی انسان اس طرح کے Trauma سے گزرنے کے بعد پھر زندگی میں اپنا اعتماد شاید نہ برقرار رکھ پائے لیکن ملالہ وہ مضبوط بچی ہے جو نہ صرف پانچ مہینے میں زندگی کا سامنا کرنے کے بعد بستر سے کھڑی ہوگئی بلکہ پولیٹکس، لاء اور سوشل سائنسز پڑھ کر پاکستان اور دنیا کے لیے بہتر کام کرنا چاہتی ہے۔
اس دنیا کے جنگل میں ہماری قوم کے طاقتور درخت ہمارے سیاستدان ہمارا نام جہاں خراب کر رہے ہیں وہیں ملالہ جیسے معصوم پودے جو آنے والے کل میں ہمارا نام روشن کریں گے ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ملالہ کا سارا معاملہ سیٹ اپ تھا، پاکستان کا نام مزید خراب کرنے کے لیے۔ حملہ کرنے والے اتنے کچے کیسے ہوسکتے ہیں کہ نہایت قریب سے بھی صحیح نشانہ نہیں لے پائے یا پھر سر کا آپریشن ہوا اور سر کے بال نہیں اتارے؟ یا پھر سر میں گولی لگنے کے باوجود اتنی جلدی Recovery وغیرہ وغیرہ۔
چینج ڈاٹ آرگ پر پٹیشن ڈالنے والے پاکستانی تھے، اس میں کہا گیا تھا کہ ملالہ وہ بچی ہے جو تعلیم کو سپورٹ کرتے حملے کا شکار بنی اور آنے والے وقت میں وہ امن کے لیے یقیناً کام کرے گی۔ گاندھی جیسے بڑے لیڈر جنہوں نے اپنی ساری موومنٹ امن (Peace) کو بنیاد بناکر رکھی تھی ان تک کو نوبل امن انعام نہیں دیا گیا تھا۔ چند عام پاکستانیوں کی یہ کوشش ناممکن لگ رہی تھی کیونکہ قواعد کے مطابق صرف کچھ ممالک کے سربراہ ہیں جو نوبل انعام کی نامزدگی کرسکتے ہیں۔ لیکن اکثر کوشش ہی ناممکن کو ممکن بناتی ہے، مختلف ملکوں سے یہ پٹیشن عام پاکستانیوں نے شروع کی اور نہ صرف دنیا بھر کے لوگ بلکہ کینیڈا کے پرائم منسٹر اسٹیفن ہارپر سمیت سیکڑوں اہم لوگوں نے اس پٹیشن کو سائن کیا۔
ملالہ نے صرف زندگی اور موت کی جنگ ہی نہیں جیتی بلکہ نوبل انعام میں نامزدگی بھی جیت لی۔ ملالہ اس سال کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد ہوئی ہے، کل تک لوگ سوچتے تھے کہ پاکستانیوں نے چالیس سال سے کوئی فلم آسکرز میں بھیجی تک تو نہیں ہے جیتنا تو دور کی بات لیکن پچھلے سال ہماری ہی ایک پاکستانی فلم میکر شرمین عبید چنائے نے بہترین ڈاکومنٹری کا آسکرز ایوارڈ جیتا۔
آج تک پاکستانیوں میں صرف 1979 میں ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام ملا ہے، سائنس کی شاخ فزکس میں۔ ملالہ کے کیس میں آپ کو کوئی بھی شک ہو تو بھی آج اس کیس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہونے جارہا ہے اس پر آپ کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہزاروں بچے پچھلے کچھ سال میں بمباری کی وجہ سے پاکستان کے اسکولوں میں مارے گئے ہیں، ملالہ آج ان کی آواز بن کر دنیا کے سامنے آئے گی۔
جب ملالہ پریس سے بات کرتے ہوئے مسکراتی ہیں تو وہ ان ہزاروں بچوں کی مسکان ہوتی ہے جو پاکستان کے دور دراز علاقوں کے اسکولوں کی کسی دیوار کے نیچے بم پھٹنے کی وجہ سے مرگئے اور ان کی پرواہ کسی انٹرنیشنل میڈیا نے نہیں کی۔ ملالہ نوبل پرائز جیتیں یا نہیں ان کا ہمارے لیے نوبل امن انعام کے لیے نامزد ہونا ہی کافی ہے۔ اگلے کئی سال Peace کے کام کرنے کے لیے وہ ہزاروں ظلم کا نشانہ بننے والوں کی امید ہیں، ان کے ساتھ ہماری ہزاروں دعائیں ہیں، وہ زندگی میں کبھی کسی سے نہیں ہاریں گی، انشاء اﷲ!