منوبھائی اوراستاد نذرحسین کی وفات نے شوبزحلقوں کو رنجیدہ کردیا

نئے سال کا پہلا مہینہ اور فنون لطیفہ میں سوگ۔

منوبھائی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
نئے سال 2018ء کا سورج طلوع ہوا توکوئی نہیں جانتا تھا کہ اس برس کے پہلے ماہ میں ہی ہم اپنے ملک کی دوعظیم شخصیات منوبھائی اوراستادنذرحسین جیسی بڑی شخصیات سے محروم ہوجائیں گے۔

ہرکوئی ترقی اور بہتری کی امید کرتے ہوئے نئے سال میں قدم رکھ رہا تھا لیکن قدرت کا تواپنا اک نظام ہے، جواس دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن واپس تو ضرور جانا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ واقعی ایسے ہوتے ہیں، جن کے جانے سے ان کی کمی بے حد محسوس ہوتی ہے۔

منوبھائی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ بطورمصنف، شاعر، ڈرامہ نگاراورکالم نویس انہوں نے جوکام کیا، وہ کون نہیں جانتا اس کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی ان کی خدمات سے سبھی واقف ہیں۔ انہوںنے تمام عمر جس طرح سے فنون لطیفہ اورخاص طورپرادب کی خدمت کی، اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ دوسری جانب سندس فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے جوفلاحی کام انہوں نے انجام دیئے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔

ان کے لکھے ڈراموں نے جس طرح سے شائقین کو محظوظ کیا، اس کوکبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ اسی طرح اگربات موسیقی کی جائے تو پھر استاد نذرحسین کی دھنوں کے بناء یہ شعبہ ادھورا سا محسوس ہوگا۔ کیونکہ شہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، غلام علی، بلقیس خانم، غلام عباس اوربہت سے دیگر گلوکاروں کی کامیابی میں ان کی دھنوں نے بہت اہم کردار اداکیا۔ وہ حقیقت میں سچے سروں سے عشق کرنے والے فنکارتھے۔ انہوں نے غزل گائیکی میں جس طرح اپنے میوزک کے ذریعے اپنا منفردمقام بنایا، وہ کم ہی کسی میوزک کمپوزر کے حصے میں آتا ہے۔

خاص طورپراگرملکہ ترنم نورجہاں اورشہنشاہ غزل مہدی حسن کی بات کریں توان دونوں عظیم گلوکاروں نے استادنذرحسین کے ساتھ بہت ساکام کیا ۔ اس کے علاوہ پڑوسی ملک بھارت کی بات کریں تووہاں بھی ان کی صلاحیتوں کے ماننے والے بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شوبزکے سنجیدہ حلقے سال کے پہلے ماہ میں دوعظیم فنکاروںکی وفات پررنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی منوبھائی کی تحریروںکو یاد کرکے رورہا ہے توکوئی استاد نذر حسین کی دھنوں کوگنگنا کرآبدیدہ دکھائی دیتا ہے۔

گزشتہ ہفتے کے دوران پہلے منو بھائی 84 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے دل اورگردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ ان کی نماز جنازہ ان کی رہائشگاہ ریواز گارڈن میں ادا کی گئی جس میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ جبکہ ان کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں ہوئی۔ 1933 میں پنجاب کے شہر وزیرآباد میں پیدا ہونے والے منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا اور وہ منو بھائی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ منو بھائی نے پاکستان ٹیلی وڑن کیلئے متعدد ڈرامے لکھے اور ان کا سب سے مشہور ڈرامہ '' سونا چاندی ''تھا۔

اس کے علاوہ ٹی وی ڈرامہ ''آشیانہ ''اور ''دشت'' سمیت دیگرمیں بھی ان کی تحریر کردہ کہانیوں نے جوکمال دکھایا، اس کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے کے مسائل کووہ جس خوبصورتی سے اپنے ڈراموں اور کالموں کا حصہ بناتے، وہ ان کی صلاحیتوںکا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی گراں قدر خدمات پر2007 ء حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بھی انہیں ملک اور بیرون ممالک بہت سے ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔ منوبھائی نے جہاں بہت سے ڈراموں کی کہانیاں تحریر کیں، وہیں انہوں نے مختصرعرصہ کیلئے اداکاری کے جوہربھی دکھائے۔ لیکن خوبصورت مضامین تحریر کرنے کی وجہ سے انہیں بطوررائٹربہت سراہا گیا۔

منوہ بھائی کے بعد استاد نذرحسین85 برس کی عمرمیں وفات پاگئے۔ مرحوم گزشتہ ایک ماہ سے مقامی ہسپتال میں پھیپڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے باعث زیرعلاج تھے۔ انہیں بھی لاہورکے مقامی قبرستان میں سپردخا ک کیا گیا۔ استاد نذر حسین حیدر آباد میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز حیدر آباد ریڈیو سے کیا۔ نامور شعراء کرام کے کلام کوانہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ سچے سروں میں سجایا اورپھرشہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، غلام علی، فریدہ خانم، بلقیس خانم اورکئی بھارتی غزل گائیکوں نے ان کی کمپوزیشن میں بنی غزلوں کوریکارڈ کیا۔

خاص طورپرشہنشاہ غزل مہدی حسن اورملکہ ترنم نورجہاں نے استاد نذرحسین کے ساتھ بہت کام کیا اوران کے فنی سفرمیں بہت سی مقبول غزلیں انہی کی کمپوزیشن میں ریکارڈ ہوئیں۔ اس کے علاوہ استاد نذرحسین نے ریڈیوپاکستان اورپاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ بھی بہت سے پروگرام ریکارڈ کروائے۔

دونوں عظیم فنکاروں کے انتقال پرشوبزحلقوں نے ملے جلے خیالات کااظہارکیا، جوقارئین کی نذرہے۔


''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے اداکارہ شیبا حسن اورحامد رانا نے کہا کہ ہماری زندگی میں اگر 'سونا چاندی' جیسا ڈرامہ نہ آتا توشاید ہمیں وہ پہچان اورشناخت کبھی نہ مل پاتی ، جس کی بدولت آج ہم عزت کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ منوبھائی کے تحریر کردہ اس کھیل نے ہماری زندگی کوسنوارا۔ جس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے رشتوں کی قدر کواجاگرکیااورلوگوںکے اداس چہروں پرمسکراہٹیں بکھریں، وہ پی ٹی وی کی تاریخ میں کم ہی ہوگا۔ ہم بہت خوش نصیب سمجھتے ہیںکہ ہمیں انکے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ باکمال مصنف اور شاندار انسان تھے۔ ان کوفنون لطیفہ سے بڑا لگائو تھا اوروہ سچے فنکاروں کے بہت بڑے قدردان بھی تھے۔ ان کے ساتھ گزارے لمحات ہمارے ساتھ ہمیشہ رہیں گے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک، ان کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں اوران کی فیملی کوصبرجمیل عطا کریں۔ اداکارعابد علی ، نعمان اعجاز، شائستہ جبیں ، طلعت صدیقی اورسہیل اصغرنے کہا کہ پاکستانی ڈرامے کی تاریخ کبھی بھی منوبھائی کے بنا مکمل نہیں ہوسکتی۔ جس طرح سے انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے ناظرین کو عمدہ ڈرامے دیکھنے کا موقع فراہم کیا، اسی طرح بہت سے فنکاروں نے ان کے ڈرامے میں کام کرتے ہوئے اپنا نام اورمقام بنایا۔ وہ جس طرح معاشرے کی منظرکشی اپنی کہانیوں میں کرتے، اسی طرح فنکاروں کے کرداراورڈائیلاگ بھی ایسے جاندار بناتے کہ انہیں لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ وہ ایک بہترین انسان تھے ۔

ان کی فنی خدمات کا جتنا بھی تذکرہ کیا جائے وہ کم ہے۔ ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی کمی پاکستانی ڈرامے میں ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ رکن پنجاب اسمبلی اورسابقہ اداکارہ کنول نعمان ، معمررانا، سید نور، پرویزکلیم، مصطفی قریشی، ناصرادیب، مدیحہ شاہ اوربابرہ شریف نے کہا کہ پاکستانی ٹیلی ویژن نے بہت سے انمول رتنوں کو متعارف کروایا۔ انہی انمول رتن میں ایک نام منوبھائی کا بھی تھا۔ جہاں پی ٹی وی کے پروڈیوسران کے ساتھ کام کرنے کوہمیشہ ترجیح دیتے تھے، اسی طرح فنکاروںکی بڑی تعداد بھی ان کے لکھے کھیل میں کام کرنا فخر سمجھتی تھی۔

انہوں نے بہت سا کام کیا اور اپنی قلم سے ایسے باکمال کردارتحریر کئے، جن کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان رائٹرزکوان کے کام سے سیکھنا چاہئے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کوجنت میں جگہ دے۔ اداکار کاشف محمود نے کہا کہ میری زندگی میں کامیابی کا سفر ''آشیانہ'' کے بعد شروع ہوا۔ منوبھائی کے تحریرکردہ اس ڈرامے نے مجھے راتوں رات سٹاربنایا۔ انہوں نے جس خوبصورتی کے ساتھ ڈرامہ لکھا، اسی طرح مجھ سمیت بہت سے فنکاروں کی رہنمائی بھی کی۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائیں۔ آمین

معروف غزل گائیکہ فریدہ خانم، بلقیس خانم، حامد علی خاں، طاہرہ سید غلام عباس اورمحسن رضانے کہا کہ استاد نذرحسین جیسے لوگ واقعی صدیوں میںپیدا ہوتے ہیں۔ انہوںنے جس باریک بینی کے ساتھ سُرکودیکھا ، وہ کم ہی موسیقار دیکھ سکتے ہیں۔ غزل کی دھن ان سے بہتربنانا توکسی کی بس کی بات نہ تھی۔ وہ معروف شعراء کرام کی شاعری کے ساتھ پورہ انصاف کرتے تھے۔ اگرہم معروف گلوکاروں کی مقبول ترین غزلوں اورگیتوںکی بات کریں توپھر ایک بڑی تعداد کی کمپوزیشن استادنذرحسین نے تیار کی ہوگی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی بنائی ہوئی دھن مستند قراردی جاتی تھی۔ آج ان کی کمی کوبہت محسوس کیا جارہا ہے۔ معروف شعراء کرام کے اشعارکوجس خوبصورتی کے ساتھ استاد نذرحسین نے سچے سروں کی مالامیں سجایا، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ہم اگرپاکستانی میوزک کے سنہرے دورکا تذکرہ کریں تووہ نذرحسین کی دھنوں کے بناکبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ان گنت مشکل غزلوںکوبڑی سمجھداری کے ساتھ آسان کیا اورپھران کی دھنوںکو ایسا تیارکیا کہ بڑے توبڑے ، بچے بھی ان کی دھنوںکوگنگناتے دکھائی دیتے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے والے بہت سے تھے، لیکن انہوں نے ہمیشہ پاکستان کوترجیح دی اوریہاں پررہتے ہوئے بہت سا کام انجام دیا، جواب ان کی یاد کوہمیشہ زندہ رکھے گے۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کا فن ان کے نام کوہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت کرے اوران کے لواحقین کوصبر دے۔

بالی وڈ کے معروف پلے بیک سنگراورغزل گائیک ہری ہرن نے استاد نذرحسین کی وفات پراسے ورلڈ میوزک کا بہت بڑا نقصان قراردیا ہے۔ ہری ہرن کا کہنا تھا کہ استادنذرحسین میوزک کی دنیا کے ایک ایسے انمول رتن تھے، جنہوں نے تمام عمر سچے سروں سے عشق کیا۔ ان کی میوزک سے محبت ان کے کام میں نمایاں تھی۔ وگرنہ ایک موسیقار ایسی شاندار دھنیں کم ہی تخلیق کرپاتا ہے۔ انہوںنے جب بھی کسی غزل کی دھن ترتیب دی، اسے انمول کردیا ۔ میں سمجھتا ہوںکہ آج جومہان گائیک غزل کی دنیا پرراج کررہے ہیں یا ماضی میں کرتے رہے ہیں، ان میں سے اکثریت استاد نذرحسین کی دھنوں کی بدولت ہی مقبول ہوئے۔

شہنشاہ غزل مہدی حسن، فریدہ خانم، ملکہ ترنم نورجہاں اوربہت سے لوگوں نے ان کی غزلوںکو گایا اورخوب نام کمایا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے، جوتمام عمر میرے ساتھ رہے گا۔ میں جب ان کے پاس بیٹھ کراپنے ایک البم کی دھنیں ترتیب دلوا رہا تھا تومجھے محسوس ہوا ہے کہ جس غزل کوہم بڑی آسانی سے گاتے ہیں، اس کوآسان بنانے کیلئے استاد نذرحسین کودن رات محنت کرنا پڑتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ استادنذرحسین نے جو کام کیا ہے، اس کوآنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ ان کی وفات سے صرف پاکستان کی میوزک انڈسٹری کا ہی نہیں بلکہ بھارت سمیت پوری دنیا کی میوزک انڈسٹریوںکا نقصان ہوا ہے۔ ایسے لوگ توصدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، میری دعائیں ان کی فیملی کیلئے ہیں ۔

 
Load Next Story