ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے چیف جسٹس
پارلیمنٹ کی عزت کرتے اور چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہماری عزت کرے، چیف جسٹس ثاقب نثار
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے، پارلیمنٹ کی عزت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہماری عزت کرے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے سے متعلق شق کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے راجہ ظفر الحق پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جمعہ کو ہمیں اس کیس کا علم ہوا، غور کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے۔ درخواست گزار وکیل ذوالفقار بھٹہ نے کہا کہ یہ کیس اور چند دن پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اپنی خبر لگوانے کے لیے میری عدالت میں بات مت کریں۔
شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے عبوری حکم کے لیے درخواست دی ہے، نواز شریف کی پارٹی صدارت کے لئے حکم امتناعی مانگ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف آئینی ترمیم کے نتیجے میں پارٹی سربراہ بنے ہیں، آپ بتا دیں کہ اسمبلی کارروائی پر حکم امتناعی دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس میں جو فریق اچھے مقرر ہیں وہ خود ہی کیس لڑیں، خواجہ سعد رفیق اچھے مقرر ہیں، سعد رفیق صاحب کو سنتے رہتے ہیں ، لیکن وہاں ہم بول نہیں سکتے، مگر یہاں عدالت میں سعد رفیق کو سن کر ہم بھی بات کریں گے، سعد رفیق کو قانون کی سوجھ بوجھ ہے، ہم سنتے ہیں، لیکن ٹی وی پر آکر ہم ان کو جواب نہیں دے سکتے، سپریم کورٹ کے باہر گفتگو نہیں ہوگی، ہم حوصلہ دکھارہے ہیں دکھاتے رہیں گے، نہیں چاہتے توجہ ہٹاکر دوسرے معاملات میں الجھ جائیں، ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حاضری میں سعد رفیق کا نام بولڈ کردیاجائے۔ چیف جسٹس کی اس بات پر عدالت میں قہقہے لگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی بات ہے کارروائی پیار سے چلے گی، ایک تو وہ لوہے کے چنے والی بات بھی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ راجہ ظفر الحق صاحب بڑے پارلیمیٹیرین ہیں، راجہ صاحب کو معلوم ہے ہم پارلیمنٹیرین کی کتنی عزت کرتے ہیں، اس ادارے کو بھی چاہیے ہماری عزت برقرار رکھے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہم نے طے کرنا ہے، سپریم کورٹ سے استدعا کی جاسکتی ہے اس پر دباؤ نہیں ڈالاجاسکتا، کچھ بھی کرنا پڑے ادارے کی عزت کم نہیں ہونے دیں گے۔
نواز شریف کی جانب سے پرویز رشید عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز صاحب تقریر تو کرتے ہیں مگر شفقت اور پیار سے۔ عدالت عظمیٰ نے نوازشریف پارٹی صدارت کیس کی سماعت 6 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے تمام فریقین کو 8 روز میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے سے متعلق شق کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے راجہ ظفر الحق پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جمعہ کو ہمیں اس کیس کا علم ہوا، غور کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے۔ درخواست گزار وکیل ذوالفقار بھٹہ نے کہا کہ یہ کیس اور چند دن پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اپنی خبر لگوانے کے لیے میری عدالت میں بات مت کریں۔
شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے عبوری حکم کے لیے درخواست دی ہے، نواز شریف کی پارٹی صدارت کے لئے حکم امتناعی مانگ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف آئینی ترمیم کے نتیجے میں پارٹی سربراہ بنے ہیں، آپ بتا دیں کہ اسمبلی کارروائی پر حکم امتناعی دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس میں جو فریق اچھے مقرر ہیں وہ خود ہی کیس لڑیں، خواجہ سعد رفیق اچھے مقرر ہیں، سعد رفیق صاحب کو سنتے رہتے ہیں ، لیکن وہاں ہم بول نہیں سکتے، مگر یہاں عدالت میں سعد رفیق کو سن کر ہم بھی بات کریں گے، سعد رفیق کو قانون کی سوجھ بوجھ ہے، ہم سنتے ہیں، لیکن ٹی وی پر آکر ہم ان کو جواب نہیں دے سکتے، سپریم کورٹ کے باہر گفتگو نہیں ہوگی، ہم حوصلہ دکھارہے ہیں دکھاتے رہیں گے، نہیں چاہتے توجہ ہٹاکر دوسرے معاملات میں الجھ جائیں، ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حاضری میں سعد رفیق کا نام بولڈ کردیاجائے۔ چیف جسٹس کی اس بات پر عدالت میں قہقہے لگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی بات ہے کارروائی پیار سے چلے گی، ایک تو وہ لوہے کے چنے والی بات بھی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ راجہ ظفر الحق صاحب بڑے پارلیمیٹیرین ہیں، راجہ صاحب کو معلوم ہے ہم پارلیمنٹیرین کی کتنی عزت کرتے ہیں، اس ادارے کو بھی چاہیے ہماری عزت برقرار رکھے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہم نے طے کرنا ہے، سپریم کورٹ سے استدعا کی جاسکتی ہے اس پر دباؤ نہیں ڈالاجاسکتا، کچھ بھی کرنا پڑے ادارے کی عزت کم نہیں ہونے دیں گے۔
نواز شریف کی جانب سے پرویز رشید عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز صاحب تقریر تو کرتے ہیں مگر شفقت اور پیار سے۔ عدالت عظمیٰ نے نوازشریف پارٹی صدارت کیس کی سماعت 6 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے تمام فریقین کو 8 روز میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔