سیاسی گفتگو کرنا اور نشے کی حالت میں آنا منع ہے

ہم سیاست کو اس شدت پسندی کی جانب لے جارہے ہیں کہ اب ہم اپنے اپنے رہنماؤں کی توہین کرنے والے کو واجب القتل سمجھتے ہیں


حافظ خرم رشید January 25, 2018
ہم سیاست کو اس شدت پسندی کی جانب لے جارہے ہیں کہ اب ہم اپنے اپنے رہنماؤں کی توہین کرنے والے کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ جملے میں نے تقریباً ہرچائے کے ہوٹل کی دیواروں پر لکھے دیکھے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ جملے آپ میں سے بعض کی نظروں سے بھی گزرے ہوں۔ بہرحال، ان دونوں جملوں میں سے ایک جملہ ''سیاسی گفتگو کرنا منع ہے'' میرا اصل موضوع ہے۔ لیکن پھر ''نشے کی حالت میں آنا منع ہے'' تو بے مقصد ہوگیا ناں؟ تو نہیں جناب! ان دونوں جملوں کا ایک ساتھ لکھا ہونا ہی میری وجہِ تحریر ہے۔

بسوں اور چائے خانوں میں جلی حروف میں نشے کی حالت میں آنے اور سیاسی گفتگو سے پرہیز کی واضح ہدایات اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فی زمانہ سیاست، کرپشن کا بہانہ اور سیاست دان معاشرے کے سامنے ایک کرپٹ ترین فرد کی علامت بن چکا ہے۔ جیسے ہر نشہ ہی لعنت قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح کسی فرد سے پسِ پردہ پہنچنے والے نقصان کو سازش کے بجائے سیاست کہنا اس معاشرے کی وہ تربیت ہے جس نے سیاست کو پاکستان میں نشے جیسی ایک لعنت بنا دیا ہے ۔

سیاست اصل میں عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا۔ اسلام حکمرانوں پر لوگوں کے امور کی دیکھ بھال، قرآن و سنت کی بنیاد پر فرض قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کی سورۃ حج کی آیت 41 میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ) ''وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں دنیا میں حکومت دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں، اور ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔''

اب سیاست کےلیے مذہبی مثالیں بھی عوام کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اس کی دو وجہیں ہیں: پہلی یہ کہ کوئی عام مسلمان کسی بھی مذہبی شخصیت کو روایتی سیاستدان کی طرح نہیں دیکھتا (کیوں کہ سیاست پاکستان میں بری طرح بدنام ہوچکی ہے) اور نہ ہی پاکستان کی سیاست اتنی فراخ دل ہے کہ وہ کسی مذہبی شخصیت کو آسانی سے قبول کرلے۔ حالت یہ ہے کہ آج مسجد پر اہلِ دستار اور سیاست پر مالدار قابض ہیں۔ پتا نہیں اقبالؒ نے یہ شعر اپنے دور کےلیے کہا تھا یا آج کی سیاست کےلیے:
جلالِ پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جٗدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

میری ذاتی رائے میں، جو ناقص بھی ہوسکتی ہے، یہاں اقبالؒ نے ''چنگیزی'' کو فرد کےلیے نہیں بلکہ اس خرابی کی نشاندہی کےلیے استعمال کیا تھا جو مسجد اور سیاست کی جدائی کا سبب بن جاتی ہے۔ میں یہاں ذاتی رائے نہ دیتا اگر میرے محترم والد مرحوم عبدالرشید سالک حیات ہوتے، لیکن میرے حلقہ احباب میں چند صاحبانِ بصیرت اور نابغہ ہائے روزگار افراد موجود ہیں جو نہ صرف میری رہنمائی و تصحیح کرتے رہتے ہیں بلکہ تنقید کے نشتر برسانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ میرے گزشتہ بلاگ پر بھی میرے چند دوستوں کو مجھ سے گلہ تھا کہ میں ہمیشہ چیزوں کا منفی رٗخ دیکھنا پسند کرتا ہوں۔ لیکن نہیں بھائی! ایسا بالکل بھی نہیں۔ میں منفی چیزوں کی نشاندہی کرتا ہوں اور میرا نقطہ نگاہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح کا غماز ہوتا ہے۔

سیاست اور حکمرانوں کی ذمہ داری کا تعلق براہ راست لوگوں کے امور سے ہے۔ اگر ان میں خرابی پیدا ہوجائے تو پھر خود سیاستدان ایک دوسرے کے علاوہ ایوانوں پر بھی لعنتیں بھیجتے نظر آتے ہیں۔ کوئی سمجھدار سیاستدان یہ تو بتائے کہ لعنت بھیجنے والوں کا نشانہ سیاست ہے یا سیاستدان، پارلیمنٹ ہے یا پارلیمنٹرینز؟

سیاسی شعور کا تقاضا ہے کہ مدینہ کی ریاست کی مثالیں دینے والے سیاستدان، حکمرانوں کے اعمال پر تنقید کریں ورنہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاستدان مدینہ کی اسلامی ریاست کے مرکز مسجدِ نبوی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مطالعہ بھی کریں جہاں سیاست کے تمام امور سرانجام پاتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے درمیان سیاسی مسائل پر بحث ومباحثہ ہوا کرتا تھا، جہاں مسجد اور سیاست ہم آہنگ تھے، جہاں یہ آوازیں نہیں اُٹھتی تھیں کہ دنیا کی باتیں مسجد سے باہر جاکر کرو۔ مسجدِ نبوی کی کسی دیوار پر یہ جملہ نہیں لکھا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے؛ کیونکہ اسلام میں دین اور سیاست کی جدائی کا کوئی تصور نہیں۔

اسلام جس سیاست کا تصور دیتا ہے، وہ دین کی بنیاد پر ہے۔ یعنی لوگوں کے امور کی دیکھ بھال قرآن و سنت کی روشنی میں۔ یہ ایک مقدس چیز ہے، یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے جس کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد فرمایا تھا کہ آج میرے اور اللہ کے درمیان کوئی دوسرا شخص حائل نہیں۔ یہ آج کی سیاست کی طرح نہیں، جس کا دوسرا نام ذاتی مفادات، کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری اور سفارش ہے۔

آج ہمارے سیاستدانوں کو اپنے گریبان میں جھانکے بغیر دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر کھل کر بیانات دینے کا وقت تو مل جاتا ہے لیکن اپنی اور دوسرے کی اصلاح کےلیے الفاظ نہیں ملتے۔ ہم سیاست کو اٗس شدت پسندی کی جانب لے جارہے ہیں کہ اب اپنے اپنے رہنماؤں کی توہین کرنے والے کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ یہ ہمارے ایوانوں میں بیٹھے صاحبانِ اقتدار اور ذی شعور و ذی فہم عوام کے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے سیاست کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ ہوٹل مالکان کو بہ امرِ مجبوری دو جملے لکھنے پڑتے ہیں: سیاسی گفتگو سے پرہیز کیجیے اور نشے کی حالت میں آنا منع ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں