بچوں کے ساتھ بہیمانہ جرائم قانون سازی کی ضرورت
پولیس کا یہ بریک تھرو مجرمانہ وارداتوں کے دیگر کیسز کی تفتیش میں بھی نئی روح پھونک سکتا ہے
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے قصور اور مردان میں معصوم بچیوں کے ساتھ پیش آنیوالے بہیمانہ واقعات اور ملزمان کی عدم گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کے قیام کے حوالے سے جمعے تک رپورٹ طلب کرلی ہے۔
پیر کو سینیٹ اجلاس میں چیئرمین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قوانین کے سختی سے نفاذ نہ ہونے سے درندے دندناتے پھر رہے ہیں جب کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے قصوراور مردان میں معصوم بچیوں سے زیادتی اور قتل کی مذمتی قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت سے متفقہ طور پرمطالبہ کیا ہے کہ بچوں سے زیادتیوں اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے اور تمام بچوں سے زیادتی کے واقعات پر خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
بلاشبہ ایوان بالا میں ملک گیر جرائم ، مافیاؤں کی پیدا کردہ لاقانونیت ، یکے بعد تشدد، اغوا، زیادتی ، قتل، ٹارگٹ کلنگ، غیر انسانی اور درد انگیز واقعات کا نوٹس لینا درحقیقت اس قومی تشویش کا حصہ ہے جس نے ملکی سیاست ، سماج اور معمولات زندگی کو شدید متاثر کیا ہے، جمہوری عمل اگرچہ جاری ہے مگر سو طرح کے سوالات نے عام آدمی کے ذہن کو جکڑ رکھا ہے اور اسے اپنے بچوں کی زندگی ،خواتین کی آبرو اور معاشرتی زوال کے بڑھتے خدشات نے مجبور کردیا ہے کہ عدلیہ سے انصاف مانگنے کے ساتھ ساتھ اسے وفاق، صوبائی حکومتوں اور دیگر ریاستی اداروں سے اخلاقی، انسانی اور روحانی تالیف قلب کے لیے معاونت حاصل ہوجائے تاہم مسائل کی ڈور کا سرا حکومتی بزر جمہوروں کے ہاتھ نہیں آرہا، مجرمانہ واقعات کی شدت ، وقوع پزیر ہونے کی رفتار ، میڈیا کی ہوشربا اور غیر معمولی کوریج کے باعث تحقیقات اور جرم کی تفتیش بھی طوفانی سرعت کی متقاضی ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ وقت جرائم کی پرورش جب کہ قانون نافذ کرنے والے ایک کے بعد ایک جرم کی خبر کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ، ارباب اختیار ، سیاسی اسٹیک ہولڈرز کسی اور جزیرہ کی مخلوق کی طرح بلیم گیم میں مصروف یا دبئی یاترا کے سحر میں مبتلا ہیں۔
ادھر اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں پر مقدمات کی سماعتوں کا وہ بوجھ سر پر آن پڑا ہے کہ بادی النظر میں اہل اقتداراور مسند انصاف کے مابین ملکی نظام کی بقا ، بد عنوانی کے خاتمہ، اداروں کے استحکام اور جمہوریت کے مستقبل کی داخلی اعصابی جنگ کسی منطقی انجام کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی زنگ آلود ، جمود زدہ ، بے سمت اور نتیجہ خیزی سے معذور ہوکر میڈیا ٹاکس تک محدود ہے ، حالانکہ معصوم بچوں اور بچیوں سے زیادتی و قتل کی وارداتوں کا سیلاب رکنے کی تدبیر وقت کا سب سے اہم ترین تقاضہ ہے۔
بہیمانہ جرم کا مرتکب شخص معاشرہ کی شناخت مٹانے کا بھی مجرم ہے جس میں ریاستی نظم وضبط، حکومتی فعالیت، اہلیت، انتظامی گرفت اور امن وامان ، سیاسی استحکام کی نیم دلانہ کوششیں اپنے معانی کھو دیتی ہیں، ان گنت بلائنڈ مرڈرز کے قاتل کہاں چھپ گئے، تحقیقاتی رپورٹوں کا کیا بنا، معاملہ صرف قصور کی ایک ننھی زینب یا مردان کی اسما کا نہیں ، سیکڑوں بچیاں ،خواتین اور بیگناہ شہریوں کو موت کی نیند سلادیا گیا،اور پولیس کچھ نہ کرسکی۔
آج درد ناک ملکی سماجی صورتحال کو بدامنی، ادارہ جاتی تذبذب ، کشمکش ، جنسی جرائم ، اسٹریٹ کرائمز اور دہشتگردی سمیت اخلاقی انحطاط اور رواداری کے چراغوں کی ٹمٹماہٹ سے خطرہ ہے، قوم ایک اجتماعی شکست خوردگی کے کرب میں مبتلا ہے۔اسے اس مشکل صورتحال سے سیاست دانوں کی اجتماعی دانش اور سیاسی و عسکری قیادت کی ناگزیر ہم آہنگی باہر نکلا سکتی ہے، کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ شہر قائد میں ایک قتل کی تحقیقات کے لیے گرینڈ جرگہ منعقد ہوا، قانون زیر لب مسکراتا رہا۔ آخر کیوں؟
ادھر میڈیا کی اطلاع کے مطابق زینب قتل کیس میں اہم پیش رفتہ ہوئی ہے ، پولیس نے مبینہ قاتل عمران کی گرفتاری ، ڈی این اے ٹیسٹ کے مثبت ہونے اور قاتل کے اعتراف جرم کا بھی دعویٰ کیا ہے، بہرحال ٹھوس ، ناقابل تردید حقائق تک مزید رسائی اور شفاف پولیس و حتمی عدالتی تحقیقات کے بعد ہی اس سانحے کی دردانگیزی قوم کے زخموں پر مرہم رکھ سکے گی۔
اگر تفتیش کا یہی جذبہ قائم رہا تولاتعداد دوسرے بہیمانہ کیسز کی وارداتوں میں ملوث ملزمان بھی انشا اللہ اپنے کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے جب کہ عینی گواہوں، قرائنی شہادتوں ، دستیاب شواہد اور گھناؤنی واردات کی کڑیاں مبینہ قاتل سے ہی ملتی پائی گئیں تو پولیس کا یہ بریک تھرو مجرمانہ وارداتوں کے دیگر کیسز کی تفتیش میں بھی نئی روح پھونک سکتا ہے ، روپوش مجرموں کی گرفتاری کے لیے اس کے ملک گیر مثبت اثرات مرتب ہونگے، نتیجتاً پولیس انٹیلی جنس شیئرنگ سے قاتلوں کے قریب پہنچ جائے گی۔
قبل ازیں معصوم زینب کے والد نے مزید حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ زینب میرے بھتیجے کے ہمراہ قرآن پڑھنے کے لیے گھر کے نزدیک مکان میں جاتی تھی ، واقعے کے روز بھتیجا قرآن پاک پڑھنے پہنچا زینب رستے سے ہی غائب ہوئی، فوری طور پرمحلہ کے افراد نے گردونواح کے علاقے میں تلاش شروع کی جس روز بچی اغوا ہو ئی اسی رات ہم نے ریسکیو ون فائیو پرکال کی تھی۔
اس کیس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ ہمارا پولیس سسٹم زنگ آلود ہے' تھانے کی سطح پر پولیس اتنی متحرک نہیں ہے' جتنی حالات کی ضرورت ہے' اگر تھانے کی پولیس متحرک ہوتی تو مجرم اسی وقت گرفتار ہو جاتا۔ زینب سے پہلے بھی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی' جب پہلی بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ رونما ہوا تھا' تب ہی مجرم گرفتار ہو جاتا تو زینب بھی بچ جاتی اور دیگر زیادتی کا شکار ہو کر قتل ہونے والی بچیاں بھی بچ جاتیں۔ بہرحال پنجاب پولیس نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے مبینہ ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ امید ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس مردان میں بچی سے زیادتی کرنے والے ملزم کو بھی جلد گرفتار کر لے گی۔
پیر کو سینیٹ اجلاس میں چیئرمین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قوانین کے سختی سے نفاذ نہ ہونے سے درندے دندناتے پھر رہے ہیں جب کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے قصوراور مردان میں معصوم بچیوں سے زیادتی اور قتل کی مذمتی قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت سے متفقہ طور پرمطالبہ کیا ہے کہ بچوں سے زیادتیوں اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے اور تمام بچوں سے زیادتی کے واقعات پر خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
بلاشبہ ایوان بالا میں ملک گیر جرائم ، مافیاؤں کی پیدا کردہ لاقانونیت ، یکے بعد تشدد، اغوا، زیادتی ، قتل، ٹارگٹ کلنگ، غیر انسانی اور درد انگیز واقعات کا نوٹس لینا درحقیقت اس قومی تشویش کا حصہ ہے جس نے ملکی سیاست ، سماج اور معمولات زندگی کو شدید متاثر کیا ہے، جمہوری عمل اگرچہ جاری ہے مگر سو طرح کے سوالات نے عام آدمی کے ذہن کو جکڑ رکھا ہے اور اسے اپنے بچوں کی زندگی ،خواتین کی آبرو اور معاشرتی زوال کے بڑھتے خدشات نے مجبور کردیا ہے کہ عدلیہ سے انصاف مانگنے کے ساتھ ساتھ اسے وفاق، صوبائی حکومتوں اور دیگر ریاستی اداروں سے اخلاقی، انسانی اور روحانی تالیف قلب کے لیے معاونت حاصل ہوجائے تاہم مسائل کی ڈور کا سرا حکومتی بزر جمہوروں کے ہاتھ نہیں آرہا، مجرمانہ واقعات کی شدت ، وقوع پزیر ہونے کی رفتار ، میڈیا کی ہوشربا اور غیر معمولی کوریج کے باعث تحقیقات اور جرم کی تفتیش بھی طوفانی سرعت کی متقاضی ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ وقت جرائم کی پرورش جب کہ قانون نافذ کرنے والے ایک کے بعد ایک جرم کی خبر کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ، ارباب اختیار ، سیاسی اسٹیک ہولڈرز کسی اور جزیرہ کی مخلوق کی طرح بلیم گیم میں مصروف یا دبئی یاترا کے سحر میں مبتلا ہیں۔
ادھر اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں پر مقدمات کی سماعتوں کا وہ بوجھ سر پر آن پڑا ہے کہ بادی النظر میں اہل اقتداراور مسند انصاف کے مابین ملکی نظام کی بقا ، بد عنوانی کے خاتمہ، اداروں کے استحکام اور جمہوریت کے مستقبل کی داخلی اعصابی جنگ کسی منطقی انجام کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی زنگ آلود ، جمود زدہ ، بے سمت اور نتیجہ خیزی سے معذور ہوکر میڈیا ٹاکس تک محدود ہے ، حالانکہ معصوم بچوں اور بچیوں سے زیادتی و قتل کی وارداتوں کا سیلاب رکنے کی تدبیر وقت کا سب سے اہم ترین تقاضہ ہے۔
بہیمانہ جرم کا مرتکب شخص معاشرہ کی شناخت مٹانے کا بھی مجرم ہے جس میں ریاستی نظم وضبط، حکومتی فعالیت، اہلیت، انتظامی گرفت اور امن وامان ، سیاسی استحکام کی نیم دلانہ کوششیں اپنے معانی کھو دیتی ہیں، ان گنت بلائنڈ مرڈرز کے قاتل کہاں چھپ گئے، تحقیقاتی رپورٹوں کا کیا بنا، معاملہ صرف قصور کی ایک ننھی زینب یا مردان کی اسما کا نہیں ، سیکڑوں بچیاں ،خواتین اور بیگناہ شہریوں کو موت کی نیند سلادیا گیا،اور پولیس کچھ نہ کرسکی۔
آج درد ناک ملکی سماجی صورتحال کو بدامنی، ادارہ جاتی تذبذب ، کشمکش ، جنسی جرائم ، اسٹریٹ کرائمز اور دہشتگردی سمیت اخلاقی انحطاط اور رواداری کے چراغوں کی ٹمٹماہٹ سے خطرہ ہے، قوم ایک اجتماعی شکست خوردگی کے کرب میں مبتلا ہے۔اسے اس مشکل صورتحال سے سیاست دانوں کی اجتماعی دانش اور سیاسی و عسکری قیادت کی ناگزیر ہم آہنگی باہر نکلا سکتی ہے، کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ شہر قائد میں ایک قتل کی تحقیقات کے لیے گرینڈ جرگہ منعقد ہوا، قانون زیر لب مسکراتا رہا۔ آخر کیوں؟
ادھر میڈیا کی اطلاع کے مطابق زینب قتل کیس میں اہم پیش رفتہ ہوئی ہے ، پولیس نے مبینہ قاتل عمران کی گرفتاری ، ڈی این اے ٹیسٹ کے مثبت ہونے اور قاتل کے اعتراف جرم کا بھی دعویٰ کیا ہے، بہرحال ٹھوس ، ناقابل تردید حقائق تک مزید رسائی اور شفاف پولیس و حتمی عدالتی تحقیقات کے بعد ہی اس سانحے کی دردانگیزی قوم کے زخموں پر مرہم رکھ سکے گی۔
اگر تفتیش کا یہی جذبہ قائم رہا تولاتعداد دوسرے بہیمانہ کیسز کی وارداتوں میں ملوث ملزمان بھی انشا اللہ اپنے کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے جب کہ عینی گواہوں، قرائنی شہادتوں ، دستیاب شواہد اور گھناؤنی واردات کی کڑیاں مبینہ قاتل سے ہی ملتی پائی گئیں تو پولیس کا یہ بریک تھرو مجرمانہ وارداتوں کے دیگر کیسز کی تفتیش میں بھی نئی روح پھونک سکتا ہے ، روپوش مجرموں کی گرفتاری کے لیے اس کے ملک گیر مثبت اثرات مرتب ہونگے، نتیجتاً پولیس انٹیلی جنس شیئرنگ سے قاتلوں کے قریب پہنچ جائے گی۔
قبل ازیں معصوم زینب کے والد نے مزید حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ زینب میرے بھتیجے کے ہمراہ قرآن پڑھنے کے لیے گھر کے نزدیک مکان میں جاتی تھی ، واقعے کے روز بھتیجا قرآن پاک پڑھنے پہنچا زینب رستے سے ہی غائب ہوئی، فوری طور پرمحلہ کے افراد نے گردونواح کے علاقے میں تلاش شروع کی جس روز بچی اغوا ہو ئی اسی رات ہم نے ریسکیو ون فائیو پرکال کی تھی۔
اس کیس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ ہمارا پولیس سسٹم زنگ آلود ہے' تھانے کی سطح پر پولیس اتنی متحرک نہیں ہے' جتنی حالات کی ضرورت ہے' اگر تھانے کی پولیس متحرک ہوتی تو مجرم اسی وقت گرفتار ہو جاتا۔ زینب سے پہلے بھی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی' جب پہلی بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ رونما ہوا تھا' تب ہی مجرم گرفتار ہو جاتا تو زینب بھی بچ جاتی اور دیگر زیادتی کا شکار ہو کر قتل ہونے والی بچیاں بھی بچ جاتیں۔ بہرحال پنجاب پولیس نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے مبینہ ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ امید ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس مردان میں بچی سے زیادتی کرنے والے ملزم کو بھی جلد گرفتار کر لے گی۔