در برگِ لالہ و گل
کتاب کی یہی اہمیت اور افادیت تھی کہ میڈیکل یونیورسٹی نے اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔
پچھلے دنوں بھی میں خاصا بیمار رہا، اپنی بچی رباب کے گھر چلا گیا کہ مناسب دیکھ بھال ہو سکے۔ ذرا طبیعت سنبھلی تو ایک ایک قدیمی کرم فرما سید ناصر علی تشریف لائے۔ وہ قریب ہی رہتے ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ بیماری کا علم ہوا تو عیادت کو آ گئے ہیں، مگر آئے تو ایک خوبصورت سی مگر خاصی ضحیم کتاب بغل میں دبائے تھے۔ مجھے عنایت کی دیکھا تو حیرت و استعجاب ہوا۔ کتاب کا نام تھا ''در برگِ لالہ وگل'' وضاحت تھی اقبال کے کلام میں مطالعہ نباتات۔
حکم فرمایا کہ اس کتاب کو پڑھ کر کچھ لکھنا ہے اور کتاب کی تقریب رونمائی میں جو جنوری کے اوائل میں ہو گی پڑھنا بھی ہے۔ میری کم علمی کہ میں کتاب کے مصنف افضل رضوی کے نام اور کام سے نا آشنا تھا۔ عرض کیا کہ میں صاحب فراش ہوں اگر طبیعت نہ سنبھلی تو کچھ نہ کر سکوںگا۔ ناصر نے اپنے محبت آمیز لہجے میں بشارت دی ابھی وقت پڑا ہے۔ اس وقت تک طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔ طبیعت تو کیا ٹھیک ہوتی میں نے سوچا لوگوں کو جدت طرازی کا شوق ہوتا ہے اب اقبال کے کلام میں نباتات کا مطالعہ۔ ایک جدت لیے ہوئے ہے اس لیے خوامخواہ کاغذ سیاہ کردیا ہو گا مگر جب مطالعہ کیا تو دیدہ و دل ہی نہیں دماغ بھی روشن ہو گیا۔
صاحب موصوف نے اقبال کے کلام میں کوئی 80 نباتات کا تذکرہ نکالا جس میں سے شاید 28 اس ضحیم کتاب میں زیر بحث آئے ہیں۔ باقی پر جلد دوم میں گفتگو ہو گی اور تو اور موصوف نے حیوانات اور جمادات کی فہرستیں بھی مرتب کر لی ہیں۔ جب نباتات سے فارغ ہوں گے تو ان میں لگ جائیںگے۔
معلوم ہوا کہ مصنف پاکستان میں کم اور باہر زیادہ رہے ہیں۔ قطر دوحہ، کویت اور اب آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور دیار غیر و اجنبی ملک میں بیٹھ کر ایسا جاندار اور شاندار کام کرنا انھیں کا مقدر تھا۔
کتاب کی اہمیت یہ تھی کہ یہ اقبال کے کلام میں نباتات کی پیشکشی کا محض اشاریہ نہیں ہے بلکہ جس کلی، پھول یا گھاس کا نام آیا ہے تو کس ضرورت سے آیا ہے۔ ہر جگہ ان نباتات کی افادیت اور کلام اقبال سے اس کی معنویت واضح ہوتی ہے اور یہی وضاحت مصنف کا اصل کارنامہ ہے۔ گل ہو کہ لالہ، ارغواں ہو کہ یاسمین، جہاں بھی ان پھولوں کا ذکر ہے وہاں اقبال ان کے خواص اور ان خواص سے اپنی شعری معنویت میں اضافے کرتے ہیں۔ یہ پھول کلیاں، برگ و بار مختلف مواقعے پر مختلف معنوی پہلو اختیارکرتے اور اقبال کی بلاغت شعری میں اضافہ کرتے ہیں۔
یہ حیرت انگیز مطالعہ بجائے خود اتنا معنی خیز تھا کہ عش عش کرنے کو جی چاہتا تھا۔ افضل رضوی سائنس کے آدمی ہیں اور شاید نباتات ہی ان کا موضوع ہے اس لیے ان پھولوں پتیوں اور برگ و بار کے خواص کی وضاحت ان کے لیے دشوار نہ تھی اور وہ انھوں نے کی مگر ان خواص سے اقبال نے جس طرح فائدہ اٹھاکر طرح طرح سے معنی آفرینی کا کام لیا اس کی باز آفرینی افضل رضوی کا اصل کارنامہ ہے۔
اس لیے ان کی اس کاوش کو جس نے دیکھا حیرت زدہ بھی رہ گیا اور قصیدہ خواں بھی بن گیا۔ یہی وجہ ہے کی بقائی میڈیکل یونی ورسٹی نے اس کی اشاعت کا سہرا اپنے سر باندھ لیا اور انتہائی نفاست سے کتاب کی طباعت و اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ جہاں اس میں بقائی میڈیکل یونی ورسٹی کے ارباب حل و عقد مبارک باد کے مستحق ہیں وہی سید ناصر علی صاحب بھی اس تحفے کو اردو دنیا تک پہنچانے کے لیے داد کے مستحق ہیں۔
کتاب کی یہی اہمیت اور افادیت تھی کہ میڈیکل یونیورسٹی نے اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ محبان بھوپال فورم نے کہ وہ ہر قابل ذکر ادبی کام کو سراہنے اور علمی و ادبی کام کرنے والوں کی توقیر قائم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ بقائی یونیورسٹی نے ہم نوائی کی اور اس کتاب کی رونمائی کے بندوبست کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ کراچی یونیورسٹی المنائی کی کینیڈا شاخ نے بھی اس کام میں اپنے محدود وسائل کے باوجود بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کے ایم سی آفیسرزکلب میں ایک عمدہ تقریب کا انعقاد کیا۔
اس تقریب کی نظامت پروفیسر انیس زیدی نے کی جو اس قسم کی تقریبات کے انعقاد میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اس موقعے پر اویس ادیب انصاری اور ان کی بیگم شگفتہ فرحت نے محبان بھوپال فورم کی نمایندگی کی۔ پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد نے بقائی یونی ورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر زاہدہ بقائی کی نمایندگی کی جو اپنی علالت کے باعث تشریف نہ لاسکی تھیں۔ رضوان صدیقی نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ان مقامات کی نشاندہی کی جہاں کسی نباتاتی عنصر کا ذکر آتا اور اقبال اس کی معنویت سے فائدہ اٹھاتے اس طرح انھوں نے کتاب کے مطالعے کا حق ادا کردیا۔
میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ ڈاکٹر معین الدین عقیل کتابوں کی رونمائی یا اس قسم کی دوسری رسمی تقریبات سے گریزاں رہتے ہیں مگر اس تقریب میں آکر مقالہ پڑھنا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ بھی دوسرے صاحبان علم کی طرح اس کتاب اور اس کے طرز مطالعہ سے متاثر ہوئے۔
اس تقریب کی صدارت جسٹس (ر) صادق الخیری فرمارہے تھے جو خود بھی عدلیہ سے قطع نظر ایک اچھے ادیب اور ادیبوں کے خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ موصوف نے اپنے صدارتی خطبے میں اس بات پر اظہار حیرت کیا کہ آسٹریلیا میں بیٹھ کر جہاں اقبال پر کتابوں کی فراہمی بھی قدرے دشوار ہے اتنا حیرت انگیز دلچسپ اور بامعنی کام انجام دینا کم سے کم الفاظ میں حیرت انگیز ہے۔
اس تقریب کے انعقاد سے افضل رضوی کی محنت وکاوش کی مناسب پذیرائی تو شاید نہ ہوئی ہو مگر مختلف زاویوں سے اس کتاب سے آگہی کا سامان ضرور فراہم ہوگیا۔