ایک شخص میں 49 شخصیات
یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ زندگی سے حقیقتاً کیا چاہتے ہیں۔
ملک کے بیس کروڑ لوگوں کے پریشان، ناخوش، مایوس، بددل، خوفزدہ ہونے کی ایک نہیں بلکہ ان گنت وجوہات ہیں لیکن اصل حیرانی اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ ملک کے حکمران عہدوں، مرتبوں، دولت، آسائشوں، رتبوں کے ہونے کے باوجود ناخوش، پریشان، مایوس، بددل، خوفزدہ کیوںہیں؟ وہ خوش و خرم کیوں نہیں ہیں؟
آپ اور میں اچھی طرح سے ان لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے خود کشی کر کے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ ان میں ارنسٹ ہیمنگوے، سلویا پلاتھ، ایلوس پریسلے، ولیم ہولڈن شامل ہیں، پہلے دو نے براہ راست اپنے آپ کو ختم کر دیا تھا جب کہ دیگر دو نے منشیات کے ذریعے سے یہ کام کیا تھا، یہ چاروں لوگ کامیاب ترین تھے، پوری دنیا ان کی دیوانی تھی۔ آج بھی ان کے لاکھوں پرستار موجود ہیں۔ بظاہر بلکہ یقیناً لوگوں کے لیے خوش قسمت ترین انسان تھے تو پھرکیا ہوا تھا؟ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ زندگی سے حقیقتاً کیا چاہتے ہیں۔
یہ ہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے آپ کو مصنوعی خوشیوں کی جانب لگا رکھا تھا۔ ان کے دماغ میں تکالیف کے احساس اتنے گہر ے تھے کہ وہ ان سے حظ اٹھاتے تھے۔ اپنی کامیابی کے مقابلے میں انھوں نے اپنے دماغ میں ان تکالیف کے زیادہ حوالے قائم کر رکھے تھے یہ بار بار ان کی جانب ہی رجوع کرتے۔ یہ نہیں جانتے تھے کہ خوش کیسے رہا جائے اس کے لیے وہ ہمیشہ بیرونی عوامل کا سہارا لیتے۔ یہ بد قسمت کبھی نہ سیکھ سکے کہ اپنے دماغ کو کیسے شعوری طور پر مثبت راہ پر لگانا ہے۔ انھوں نے ماحول کے ہاتھ میں اپنا کنٹرول دے دیا تھا ناکہ خود اسے کنٹرول کرتے۔
نامور ماہر نفسیات ٹونی رابنزکو ایک خاتون کا بڑا تفصیلی خط موصول ہوا۔ آئیں... اس خط کو پڑھتے ہیں۔
محترم ٹونی: مجھے ساری زندگی سوائے دکھ و تکالیف، پریشانیوں اور پچھتاوے کے کچھ نہیں ملا تھا۔ بچپن سے لے کر دوسر ے خاوند کی موت تک مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی خو شی دیکھی ہو۔ ان تکالیف اور مصائب نے بھی مجھے ایک سیریس نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔ میں ایک مرض جسے Multiple Personality Disorder کہتے ہیں میں مبتلا تھی۔ میں اپنے آپ کو 49 شخصیات کے روپ میں دیکھتی۔ یہ سار ی کی ساری ایک دوسرے سے الگ اور ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی تھیں ۔ اپنے لیے راحت تلاش کرنے کا میرے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ خود اذیتی کے نئے نئے پہلو تلاش کیے جائیں۔ اس دوران میں نے خود کشی کی کوشش کی ۔ اسپتال میں مجھے جس ڈاکٹر کے زیر علاج رکھا گیا اس نے بڑی توجہ سے میرے مسائل سنے تھے، اس نے مجھے یہ ترغیب دی کہ میں اپنے لیے 49 شخصیات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے زندگی گزارنا شروع کر دوں۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل شروع کر دیا۔ یہ تجربہ بہت اذیت ناک ثابت ہوا تھا۔ میرے لیے فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ کس ہستی کو ختم کر دوں اور کس کو زندہ رکھوں۔ ہر ایک کی اپنی ترجیحات اور یادیں تھیں۔ ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جسے میں بھلا نہیں سکتی تھی۔ میرا اور برا حال ہو گیا۔ میں نے دوبارہ خو د کشی کرنا چاہی مگر قدرت کو ہر بار میری زندگی عزیز تھی۔ پچھلے سال مجھے آپ کی تحاریر پڑھنے اور پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں صرف ایک ہوں 49 عورتوں کا مجموعہ نہیں۔ مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ خوشی کا تعلق انسان کے اندر سے ہے۔ یہ انسان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ میں نے بڑی بہادری سے ان احساسات کا مقابلہ کیا جو مجھے تکالیف پہنچا کر اپنا قیدی بنائے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی جگہ صحت مند خیالات کو دی اور توجہ پوری طاقت سے حال پر مرکوزکر کے ماضی کو بھولتی چلی گئی۔ میں نے زندہ رہنا، آگے بڑھنا سیکھ لیا تھا۔ میں نے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی طرف توجہ دی۔ میرا وزن بھی کم ہونے لگا تھا۔ آج میں اپنے بچوں میں بڑی خوشی سے رہ رہی ہوں اور بھر پور زندگی گزار رہی ہوں۔
آپ کی مخلص
الزبتھ پیٹراک۔
اگر آپ باریک بینی سے اپنے حکمرانوں کا جائزہ لیں تو آپ کو فوراً احساس ہو جائے گا کہ وہ بھی اپنے آپ کو ایک شخص نہیں بلکہ 49 شخصیات سمجھے بیٹھے ہیں۔ اس لیے انھیں ایک شخص سے ہی بلکہ 49 شخصیات سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ وہ 49 شخصیات بیک وقت انھیں اپنی اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں۔ ان سب کی اپنی اپنی فرمائشیں اور شوق ہیں۔ ان سب کی اپنی اپنی خواہشیں ہیں اپنے اپنے ارمان ہیں جنہیں وہ دن رات پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ یعنی ہمیں انفرادی شخصوں کی نہیں بلکہ اجتماعی شخصوں کی حکمرانی کا سامنا ہے۔
اسی وجہ آپ کو انہونی باتیں اور اعمال سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے ایسے اقدامات جو کبھی کہانیوں میں بھی پڑھنے کو نصیب نہیں ہوئے۔ ایسی ایسی خواہشیں، شوق اور فرمائشیں جو جن اور بھوت بھی پوری نہ کرسکیں۔
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ وہ تمام کی تمام 49 شخصیات اپنے آپ کو غیرفانی، قانون اور انصاف سے بالاتر، تمام تر اخلاقیات سے مبرا، تمام اصولوں سے پاک سمجھی بیٹھی ہیں اور وہ سب ازلی بھوک کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اوردوسری طرف ملک کے بیس کروڑ انسان اس ساری صورتحال کو دیکھ کر ''نہ سلجھ پانے والی کشمکش'' میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ کوئی بھی ایک شخص اپنے آپ کو خوش رکھ سکتا ہے مطمئن کر سکتا ہے لیکن اگر کسی شخص میں 49 شخصیات ایک ساتھ داخل ہو جائیں تو وہ انھیں ایک ساتھ کیسے خوش رکھ سکتاہے، کیسے مطمئن کر سکتا ہے۔
ان کی خواہشیں، شوق اور فرمائش کیسے پوری کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسی کشمکش ہے جوکبھی بھی سلجھ نہیں سکتی ہے، اسی لیے آئیں انھیں ان کے حال پر چھوڑے دیتے ہیں اور ہم سب واپس پھر سے پریشان، ناخوش، مایوس، خوفزدہ ہونا شروع کردیتے ہیں۔
آپ اور میں اچھی طرح سے ان لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے خود کشی کر کے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ ان میں ارنسٹ ہیمنگوے، سلویا پلاتھ، ایلوس پریسلے، ولیم ہولڈن شامل ہیں، پہلے دو نے براہ راست اپنے آپ کو ختم کر دیا تھا جب کہ دیگر دو نے منشیات کے ذریعے سے یہ کام کیا تھا، یہ چاروں لوگ کامیاب ترین تھے، پوری دنیا ان کی دیوانی تھی۔ آج بھی ان کے لاکھوں پرستار موجود ہیں۔ بظاہر بلکہ یقیناً لوگوں کے لیے خوش قسمت ترین انسان تھے تو پھرکیا ہوا تھا؟ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ زندگی سے حقیقتاً کیا چاہتے ہیں۔
یہ ہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے آپ کو مصنوعی خوشیوں کی جانب لگا رکھا تھا۔ ان کے دماغ میں تکالیف کے احساس اتنے گہر ے تھے کہ وہ ان سے حظ اٹھاتے تھے۔ اپنی کامیابی کے مقابلے میں انھوں نے اپنے دماغ میں ان تکالیف کے زیادہ حوالے قائم کر رکھے تھے یہ بار بار ان کی جانب ہی رجوع کرتے۔ یہ نہیں جانتے تھے کہ خوش کیسے رہا جائے اس کے لیے وہ ہمیشہ بیرونی عوامل کا سہارا لیتے۔ یہ بد قسمت کبھی نہ سیکھ سکے کہ اپنے دماغ کو کیسے شعوری طور پر مثبت راہ پر لگانا ہے۔ انھوں نے ماحول کے ہاتھ میں اپنا کنٹرول دے دیا تھا ناکہ خود اسے کنٹرول کرتے۔
نامور ماہر نفسیات ٹونی رابنزکو ایک خاتون کا بڑا تفصیلی خط موصول ہوا۔ آئیں... اس خط کو پڑھتے ہیں۔
محترم ٹونی: مجھے ساری زندگی سوائے دکھ و تکالیف، پریشانیوں اور پچھتاوے کے کچھ نہیں ملا تھا۔ بچپن سے لے کر دوسر ے خاوند کی موت تک مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی خو شی دیکھی ہو۔ ان تکالیف اور مصائب نے بھی مجھے ایک سیریس نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔ میں ایک مرض جسے Multiple Personality Disorder کہتے ہیں میں مبتلا تھی۔ میں اپنے آپ کو 49 شخصیات کے روپ میں دیکھتی۔ یہ سار ی کی ساری ایک دوسرے سے الگ اور ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی تھیں ۔ اپنے لیے راحت تلاش کرنے کا میرے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ خود اذیتی کے نئے نئے پہلو تلاش کیے جائیں۔ اس دوران میں نے خود کشی کی کوشش کی ۔ اسپتال میں مجھے جس ڈاکٹر کے زیر علاج رکھا گیا اس نے بڑی توجہ سے میرے مسائل سنے تھے، اس نے مجھے یہ ترغیب دی کہ میں اپنے لیے 49 شخصیات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے زندگی گزارنا شروع کر دوں۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل شروع کر دیا۔ یہ تجربہ بہت اذیت ناک ثابت ہوا تھا۔ میرے لیے فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ کس ہستی کو ختم کر دوں اور کس کو زندہ رکھوں۔ ہر ایک کی اپنی ترجیحات اور یادیں تھیں۔ ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جسے میں بھلا نہیں سکتی تھی۔ میرا اور برا حال ہو گیا۔ میں نے دوبارہ خو د کشی کرنا چاہی مگر قدرت کو ہر بار میری زندگی عزیز تھی۔ پچھلے سال مجھے آپ کی تحاریر پڑھنے اور پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں صرف ایک ہوں 49 عورتوں کا مجموعہ نہیں۔ مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ خوشی کا تعلق انسان کے اندر سے ہے۔ یہ انسان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ میں نے بڑی بہادری سے ان احساسات کا مقابلہ کیا جو مجھے تکالیف پہنچا کر اپنا قیدی بنائے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی جگہ صحت مند خیالات کو دی اور توجہ پوری طاقت سے حال پر مرکوزکر کے ماضی کو بھولتی چلی گئی۔ میں نے زندہ رہنا، آگے بڑھنا سیکھ لیا تھا۔ میں نے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی طرف توجہ دی۔ میرا وزن بھی کم ہونے لگا تھا۔ آج میں اپنے بچوں میں بڑی خوشی سے رہ رہی ہوں اور بھر پور زندگی گزار رہی ہوں۔
آپ کی مخلص
الزبتھ پیٹراک۔
اگر آپ باریک بینی سے اپنے حکمرانوں کا جائزہ لیں تو آپ کو فوراً احساس ہو جائے گا کہ وہ بھی اپنے آپ کو ایک شخص نہیں بلکہ 49 شخصیات سمجھے بیٹھے ہیں۔ اس لیے انھیں ایک شخص سے ہی بلکہ 49 شخصیات سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ وہ 49 شخصیات بیک وقت انھیں اپنی اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں۔ ان سب کی اپنی اپنی فرمائشیں اور شوق ہیں۔ ان سب کی اپنی اپنی خواہشیں ہیں اپنے اپنے ارمان ہیں جنہیں وہ دن رات پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ یعنی ہمیں انفرادی شخصوں کی نہیں بلکہ اجتماعی شخصوں کی حکمرانی کا سامنا ہے۔
اسی وجہ آپ کو انہونی باتیں اور اعمال سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے ایسے اقدامات جو کبھی کہانیوں میں بھی پڑھنے کو نصیب نہیں ہوئے۔ ایسی ایسی خواہشیں، شوق اور فرمائشیں جو جن اور بھوت بھی پوری نہ کرسکیں۔
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ وہ تمام کی تمام 49 شخصیات اپنے آپ کو غیرفانی، قانون اور انصاف سے بالاتر، تمام تر اخلاقیات سے مبرا، تمام اصولوں سے پاک سمجھی بیٹھی ہیں اور وہ سب ازلی بھوک کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اوردوسری طرف ملک کے بیس کروڑ انسان اس ساری صورتحال کو دیکھ کر ''نہ سلجھ پانے والی کشمکش'' میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ کوئی بھی ایک شخص اپنے آپ کو خوش رکھ سکتا ہے مطمئن کر سکتا ہے لیکن اگر کسی شخص میں 49 شخصیات ایک ساتھ داخل ہو جائیں تو وہ انھیں ایک ساتھ کیسے خوش رکھ سکتاہے، کیسے مطمئن کر سکتا ہے۔
ان کی خواہشیں، شوق اور فرمائش کیسے پوری کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسی کشمکش ہے جوکبھی بھی سلجھ نہیں سکتی ہے، اسی لیے آئیں انھیں ان کے حال پر چھوڑے دیتے ہیں اور ہم سب واپس پھر سے پریشان، ناخوش، مایوس، خوفزدہ ہونا شروع کردیتے ہیں۔