حیران ہوں جمہوریت خطرے میں کیوں پڑ جاتی ہے
آج وطن عزیز کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے، مگر جمہوریت خطرے میں نہیں ہونی چاہیے۔
معروف امریکی مزاح نگار پی جے اوروک اپنی کتاب Parliament of Whoresمیں لکھتا ہے کہ ''معاشرے میں خرابی کی جڑ منشیات یا شراب نہیں۔ اگر ہم تمام خرابیوں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو لوگوں کے منہ سونگھنے کے بجائے ان میں پائی جانے والی حماقتوں، جہالت،لالچ اور ہوس اقتدار کا ٹیسٹ لینا چاہیے۔''
وہ اپنے ملک کی بڑی جماعت ''ری پبلکن'' کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتا ہے کہ ''اگر کسی نے عوام کے لیے کام نہیں کرنا تو اُس سے ہونا بھی نہیں! کیونکہ یہ اُس کی فطرت میں شامل ہے اور جو فطرت میں لکھا ہے اُسے بدلا نہیں جا سکتا''۔ پھر وہ ایک اور جگہ بڑی خوبصورتی سے لکھتا ہے کہ ''ایک وہ شخص جو دریا کے دوسری طرف کھڑا آپ کو گالیاں دے رہا ہو اور ایک وہ شخص جو آپ کے سامنے کسی بات سے مکر جائے اور جھوٹ بولے، آپ ان دونوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے''
امریکی مصنف کی یہ تینوں باتیں مجھے اُس وقت یاد آئیں جب گزشتہ دنوں لاہور کے مال روڈ پر پاکستان عوامی تحریک کے جھنڈے تلے ''متحدہ اپوزیشن'' نے ایک جلسہ کیا اورجس میںایک لفظ ''لعنت'' کا استعمال کیا گیا۔ اب امریکی مصنف کے بقول ہوس اقتدار، فطرتاََ خراب ہونا اور جھوٹا ہونا جیسی بیماریاں کسی سیاستدان کو لگ جائیں تو اُن کے لیے ''لعنت'' بہت چھوٹا لفظ رہ جاتا ہے۔
خیر مذکورہ جلسے کا مقصد ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو انصاف فراہم کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا، جلسہ کامیاب تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے اور اپوزیشن کی حکمت عملی کے حوالے سے اگلے کالم میں روشنی ڈالوں مگر مذکورہ جلسے میں شیخ رشید اور عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ کے لیے نامناسب لفظ استعمال کیے گئے جن کا میں ذکر کر چکا ہوں اورجو ہماری جدید سیاست کی لغت میں شاید نیا اضافہ ہے۔جس نے تمام ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ اور ہر کوئی جواباََ لعن طعن کر رہا ہے۔
پارلیمان کے خلاف گالم گلوچ کا آغاز کیا تو شیخ رشید صاحب نے تھا لیکن اسی رو میں عمران خان صاحب بھی بہہ گئے۔ شیخ صاحب تو بادشاہ آدمی ہیں، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔لیکن عمران خان کی اننگز لمبی ہے، انھیں ہر لفظ کی ادائیگی کے سیاق و سباق سے آگاہ بھی کرنا چاہیے کہ انھوں نے ان الفاظ کا چناؤ کیوں کیا جس سے ''جمہوریت'' خطرے میں پڑ گئی!
حقیقت میں عمران خان کو لعنت پارلیمنٹ پر نہیں بلکہ اُس میں بیٹھے کرپٹ عناصر پر ضرور بھیجنی چاہیے تھی کیونکہ میرا بھی ایسا کرنے کو دل چاہ رہا ہے ۔ لیکن ایک مشکل آڑے آجاتی ہے کہیں جمہوریت خطرے میں نہ پڑ جائے! کیونکہ ہمارا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جب عوام اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب کبھی ان سیاستدانوں کو اپنا مسئلہ لاحق ہوتا ہے تو یہی سیاستدان جمہوریت کو پاؤں کی جوتی بنا لیتے ہیں۔
مجھ سمیت تمام پاکستانی یہ مانتے ہیں کہ پارلیمان میں سب کچھ اچھا نہیں، یہ بھی درست ہے کہ اسی پارلیمان نے غلط قوانین بھی بنائے اور یہ بھی حقیقت کہ پارلیمانوں میں بیٹھے کئی لوگوں پر بدعنوانی کے الزامات بھی ہیں اور سزا بھی ہوئی ہے۔اس لیے پارلیمنٹیرین پر تنقید ہونی چاہیے،کیونکہ ہمارے لیے یہ باعث شرم بات ہے کہ جتنا پیسہ یہ کھرب پتی اراکین اسمبلی اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں، اتنا شاید غریبوں پر لگتا تو وہ خوشحالی کی طرف گامزن ہو جاتے۔
ایسے اراکین اسمبلی پر لعنت بھیجنے کو میرا دل اس لیے بھی کرتا ہے کہ ایک ایم این اے کی ماہانہ تنخواہ 2 لاکھ اور شاہانہ الاؤنسز 12 لاکھ روپے ماہانہ ہیں، یعنی اوسطاََ ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ اور پانچ سال میں قریباََ ساڑھے سات کروڑ روپے تک خرچ کرتا ہے۔ یعنی پوری قومی اسمبلی پانچ سال میں ڈھائی سو ارب (250ارب)روپے میں پڑتی ہے۔
ان دو ڈھائی سو ارب روپے میں ان ارب پتی اراکین اسمبلی کے گھروں کے بل سے لے کر تمام سفری اخراجات، ریفریشمنٹ، ٹیلی فون بل سمیت ملازمین کی تنخواہیں اور آفسز کی مینٹینس کے اخراجات شامل ہیں جب کہ ایم این اے ہاسٹل کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔جب کہ ان کھرب پتی حکمرانوں کے ہر شہر میں کیمپ آفسز ہیں جہاں سرکاری خرچے سے ''تواضع'' کی جاتی ہے۔ اور نہلے پہ دہلا یہ کہ ابھی چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے سات سو اراکین کے کھربوں روپے کے اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔
اب اگر کوئی اس پر بات کر تا ہے توجمہوریت کو فوراََخطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کو خطرہ تو اُس وقت بھی نہیں ہونا چاہیے جب وزیر اعظم ہاؤس ماہانہ ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کرتا ہے۔ اور تو اور اُس وقت تو جمہوریت اس قدر مضبوط ہو جاتی ہے کہ جب یہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان اپنے اختلافات اور دشمنیاں بھلا کر ایک ہو جاتے ہیں اور ایوان میں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی تحریک کو منٹوں میں منظور کر لیاجاتا ہے۔
بہرکیف کوئی لعنت کیوں نہ بھیجے جب اسی پارلیمنٹ میں کروڑوں کے قرض معاف کرانے والے بھی موجود ہوں، نیب کی سپریم کورٹ میں پیش کردہ 150 میگا کرپشن کیسز میں کئی معزز ارکان کا نام موجود ہو اور اب ان میں سے کئی کی آف شور کمپنیاں بھی نکل آئی ہوں۔ اس کے علاوہ کھربوں روپے کی ناجائز جائیدادوں کے مالک، زمیندار، تاجر اور سرمایہ کار بھی پارلیمنٹ میں موجود ہوں مگر کوئی ایک رکن بھی اس حوالے سے بات نہیں کرتا۔
آج پاکستان کے عوام یہ بات جانتے ہیں کہ ان اراکین اسمبلی کی آف شور کمپنیوں کے بیرون ممالک اربوں ڈالر کی جائیدادیں اور کاروبار ہیں جو عموماً ناجائز پیسے یا کالے دھند سے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان سے باہر جانیوالی دولت واپس آجاتی ہے تو پاکستان کے تمام قرض ادا ہو جائیں گے' زرمبادلہ کے ذخائر آج 17 ارب ڈالر ہیں تو ان رقوم کی واپسی سے کھربوں ڈالر کے ہو جائیں گے۔ اس کا حکومت کو زیادہ احساس ہونا چاہیے کیونکہ غیریقینی صورتحال میں الیکشن کسی وقت متوقع ہیں۔ تعجب ہے کہ ان حالات میں بھی پارلیمنٹیرین کو جمہوریت سے زیادہ اپنی مراعات میں اضافے کی فکر لگی رہتی ہے۔کیا خوب لکھا تھا حبیب جالب نے کہ
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
آج وطن عزیز کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے، مگر جمہوریت خطرے میں نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی ادارہ کا قرض اتارنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 60 فی صد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں،کوئی بات نہیں مگر جمہوریت خطرے میں نہیں ہونی چاہیے۔ آفرین ہے موجودہ پارلیمنٹ پر جو پاکستان کے اسی فی صد عوام کی نمایندہ نہیں چنانچہ ان کے مسائل سے بھی لا تعلق ہے۔
موجودہ دور حکومت میں پاکستان میں غریب مزید غریب ہوا ہے۔ اور سفید پوش طبقے کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔مگر افسوس ہر شخص اپنا مفاد کو دیکھ رہا ہے اور جمہوریت کی آڑ میں اس ملک کو لوٹ رہا ہے۔ اگر اسی پارلیمنٹ نے عوام کو مزید کنگال کرنا ہے توعوام کو نہیں چاہیے ایسی پارلیمنٹ نہیں چاہیے!!!