زرداری صاحب اور پُنر جنم کا قصہ
بھٹو صاحب کی روح تو چلیے زرداری صاحب میں حلول کرگئی تو یقیناً محترمہ شہیدہ کی روح بھی اپنے بیٹے میں حلول کرگئی ہوگی۔
ایک صاحب نے ہم سے ایک خط کے ذریعے پوچھا ہے کہ یہ جو فلاں مقام پر فلاں بابا جی کا مزار شریف مرجع خلائق ہے، اس کے بارے میں اپنی تحقیق کا ٹٹو دوڑائیے کہ یہ کون تھے،کب تھے اور کیوں تھے؟ یا اگر ان کا کسی کتاب میں کوئی ذکر ہو تووہ کتاب مجھے وی پی کے ذریعے بجھوا دیجیے۔
بخدا ہمیں تو یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ اس مقام پر کوئی مزار شریف بھی ہے جس میں کوئی بزرگ محو خواب ہیں البتہ اسی مقام پر ہمیں دو اور مزاروں کا پتہ ہے، ان میں ایک مزار تو عین پل کے اوپر ہے جو آتے جاتے لوگوں سے اس بات کا جرمانہ وصول کرتا ہے کہ تم پاکستانی کیوں ہو اور اگر پاکستانی ہو تو ہمارے ''انگنے میں'' یعنی سڑک پر کیوں جا رہے ہو، یہ کوئی انگریزوں کی بنائی ہوئی سٹرک یا پل ہے جس پر تم یونہی مفت میں بغیر جرمانے کے چلے جاؤ گے۔
یہ تو اپنی قومی سڑک اور پل ہے جسے لیڈروں ٹھیکیداروں اور افسروں نے ''خون پسینے'' کی کمائی سے بنایا ہے۔ وہ خون پسینہ کسی کا بھی ہو لیکن سڑک تو ہم نے بنائی ہے، اس لیے نکال جرمانہ تین روپے فی کلو میٹر کے حساب سے۔ ورنہ۔ اس ورنہ کے بعد چونکہ ''چراغوں'' میں روشنی نہیں رہتی، اس لیے پتہ نہیں کہ کیا ہوتا ہے لیکن جو بھی ہوتا ہے وہ منظور خدا ہوتا ہے۔ کیونکہ بقول سیف الرحمان سلیم
دوڑو وڑو خدایانو دے بندہ کڑم
لویہ خدایہ زہ بہ چا چاتہ سجدہ کڑم
یعنی تم نے مجھے چھوٹے چھوٹے اتنے خداؤں کا بندہ بنا دیا ہے تو اے عظیم خدا مجھے یہ بھی بتا دو کہ میں کس کس خدا کو سجدہ کروں؟
اس مزار اقدس سے جو پل کے اوپر ہے تھوڑا سا آگے ایک اور مزار ہے، لیکن یہ ''زندہ ولیوں'' کا مزار ہے اور یہ ''زندہ ولی'' سرکار بابا کے خانوادے سے ہیں جن کا نعرہ ہے کہ خلق خدا کی ''خدمت'' عین عبادت ہے اور وہ دن رات خلق خدا کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ یہ اتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں کہ گاڑی کا نمبر پلیٹ دیکھ کر ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس گاڑی میں کس کس کیٹگری کے مجرم بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر ان کو ان کے جرم کے مطابق جرمانہ کرتے ہیں اور بڑے بابا سے عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
''نقد'' فریاد ی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
ان دو مزاروں کے علاوہ اس مقام پر کسی رفتہ و گزشتہ بابا جی کا مزار بھی ہے یہ ہمیں اس مکتوب نگار کے مکتوب سے معلوم ہوا لیکن چونکہ اپنے پڑھنے والے ہمیں بہت عزیز ہوتے ہیں اس لیے اپنی تحقیق کا ٹٹو اسٹارٹ کیا۔ بہت ساری لائبریریوں میں دوڑا، سکہ بند قسم کے محققین سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی پتہ نہیں چلا کہ اس مقام پر یہ جو باباجی خوابیدہ ہیں ان کا ویئراباؤٹ اور تاریخ جغرافیہ کیا ہے۔
ویسے ہم یہ بات بالکل بھی سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ جب وہ حضرت خود اس مقام پر پائے جا تے ہیں تو بابا جی کے بارے میں جانکاری ہم سے کیوں لیناچاہتے ہیں خود اس مزارکے متولی اور مجاور یا اگر مزار شریف کی آمدنی مناسب ہو تو گدی نشین اور سجادہ نشین بھی ہو سکتے ہیں جن کے پاس مزار شریف کی تاریخ بھی یقیناً ہوگی تو پھر آخر ہم کونسے دانا اور کس ہنر میں یکتا ہیں، کہ ۔ ارے ہاں اس طرف تو ہمارا خیال ہی نہیں گیا تھا، لگتا ہے ہمارا ''ٹٹوئے تحقیق'' کافی مشہورہو چکا ہے اس لیے یہ پراجیکٹ انھوں نے ہمارے حوالے کیا ہے۔
خدا ان کو ہمارے ٹٹوئے تحقیق کے بارے میں خوش گمانی اور حسن زن کا اجر عطا فرمائے۔ لیکن ہم معذرت خواہ ہیں کہ سردست اس پراجیکٹ پر ہم کچھ زیادہ اپنے ٹٹوئے تحقیق کو نہیں دوڑا پائیں گے،کیونکہ فی الحال ہم سیاسی باباؤں اور مزارت شریفات میں اپنے ٹٹوئے تحقیق سمیت بہت بزی ہیں۔ جس میں کچھ اور بھی زیادہ پیچیدگیاں جناب زرداری کے اس بیان سے پیدا ہو گئی ہیں کہ بھٹو مرحوم کی روح مجھ میں سما گئی ہے۔
یہ بات انھوں نے گڑھی خدا بخش میں بھٹو مرحوم کے ''سر مزار'' کہی ہے۔ چونکہ زرداری صاحب بھی دوسرے لیڈروں کی طرح جھوٹ بالکل نہیں بولتے ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور یہاں تو بھٹو صاحب کا مزار شریف بھی حاضر ناظر تھا، اس لیے ان کی یہ بات بالکل سچ ہو گی کہ بھٹو صاحب کی روح ان میں سما گئی ہے۔ انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ بھٹو صاحب کی روح کب اور کہاں ان کے اندر سما گئی ہے۔
خیر''کہاں'' کو بھی چھوڑئیے لیکن ''کب'' کا پتہ تو ضرور کرنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ بات انھوں نے اب برسر مزار کہی ہے تو کیا یہ حلول کا واقعہ اسی وقت وقوع پذیر ہوا یا اس سے پہلے جب وہ سب پر بھاری تھے اس وقت بھی بھٹو صاحب کی روح ان کے اندر تھی۔ بلکہ محترمہ شہیدہ کی شہادت سے پہلے یا بعد کسی اور کو ''وقت حلول'' سے فرق پڑے نہ پڑے ہمیں پڑتا ہے کیونکہ ان کے اس اعلان بلکہ انکشاف سے پہلے کہ بھٹو صاحب کی روح ان میں سمائی ہوئی ہے ہم ان کو اب کیا بتائیں لیکن بہت کچھ ایسا ویسا کہہ چکے ہیں اور اگر اس وقت بھی بھٹو صاحب کی روح ان کے اندر تھی تو ہمیں توبہ تائب ہونے اور کفارہ وغیرہ ادا کرنے کی ضرورت یقیناً ہے کیونکہ مرحومین یا ان کی روحوں کو ایسا ویسا کہنا ہم جائز نہیں سمجھتے۔
ایک اور بات بھی ہمیں پریشان کیے دے رہی ہے کہ بھٹو صاحب کی روح تو چلیے زرداری صاحب میں حلول کر گئی، اسی طرح یقیناً محترمہ شہیدہ کی روح بھی اپنے بیٹے میں حلول کر گئی ہوگی۔
اب ہمارے پاس اتنا وقت تو نہیں کہ ہم اپنے تحقیقی پراجیکٹ چھوڑ کر آواگون یا تناسخ کے موضوع پر کچھ کہیں۔ لیکن یہ تو ہمارے اورہمارے ٹٹوئے تحقیق کے کام میں شامل ہے کہ ہمارے دوسرے سیاسی مزارات اور سرکاری شہداء کے بارے میں بھی پتہ کریں کہ وہاں بھی روحوں نے جنم جنماتر کا سلسلہ شروع کیا ہے؟ یا وہ بھی کسی ''زندہ'' کے اندر پنرجنم لے رہے ہیں یا نہیں۔ یہ مسٔلہ نہایت اہم اس لیے ہے کہ اس طرح کے دیگر سیاسی بزرگوں نے بھی پنر جنم کا سلسلہ چلا دیا ہو تو تیرا کیا بنے گا کالیا؟
یونہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں