دو آتشہ
ہم نے سیاست میں اپنے مذہب کو بھی شامل رکھا ہوا ہے اور ہمارے کئی پیر خانوں کے گدی نشین اس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
میں نے کوشش کی کہ اس نازک موضوع پر قلم نہ ہی اُٹھاؤں تو بہتر کہ مباداً مجھ سے کوئی لفظی غلطی ہی ہو جائے اور میں ایسی کسی نادانستہ غلطی کی پکڑ میں آجاؤں۔ پچھلے چند ہفتوں سے حکومت کے خلاف اور ناموس رسالتؐ کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ حکومت کی بد انتظامی اور نالائقی سے ابھی تک جاری ہے اور شروع میں اس سلسلے میں راولپنڈی میں ہونے والے دھر نے کے شرکاء کو باقاعدہ مذاکرات کے بعد ایک معاہدے کے تحت دھرنے سے اُٹھایا گیا جس میں فوج بھی ضمانتی تھی جس پر سیاستدانوں کی طرف سے طرح طرح کی باتیں بنائی گئیں کہ شاید دھرنے میں فوج ملوث تھی کوئی اس حکومت سے پوچھے کہ اس کو بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ ایک ایسے مسئلے کو چھیڑ دیا جس پر ہم مسلمانوں کی جانیں بھی کیوں نہ قربان ہوں پہلے اس قانون کے بارے میں سرے سے ہی لاعلمی ظاہر کی اور انکار کر دیا گیا پھر اسے ٹائپنگ کی غلطی اور بالآخر یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ نادانستگی میں یہ ترمیم منظور ہو گئی جس پر پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے دستخط بھی ہیں۔
یہ بات درست کہ سب نے صرف نظر کیا اور نادانستگی میں اس کی منظوری دے دی مگر حکومت کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی جس کی پہلی قربانی اسے اپنے وزیر قانون کی صورت میں دینی پڑی اور ابھی نہ جانے اس کو اس ناقابل معافی جرم کی مزید کتنی سزا بھگتنی پڑے گی۔
میں عرض کروں گا کہ حکومت وقت نے عام معصوم پاکستانی پر زندگی کو جس قدر تنگ کر دیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے اس پر احتجاج کرنے لگا ہے۔ اب تک تو عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اور حکومت وقت تک اپنی فریاد کس طرح پہنچائے۔ عوام کے ساتھ سیاسی لیڈر بھی خوش اور شاداں رہتے ہیں اور عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ان کے لیے اب صورتحال آسان ہو گئی ہے اور ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ہر مسلمان کے ایمان پر بن گئی ہے۔
دوسرے مذہب والے یہ تصور نہیں کر سکتے کہ مسلمانوں کے ہاں ہادیٔ برحق کی ذات اقدس کیا مقام رکھتی ہے۔ حضورؐ سے محبت اور اپنی جان واولاد سے بڑھ کر محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پورا ایمان ہی یہی ہے۔ اب یا تو وہ اپنے ایمان کو ترک کر دیں یا اس پر کوئی ضرب لگے تو اپنی توفیق کے مطابق اس پر احتجاج کریں اوراس طرح ایمان کو تازہ کریں۔ چنانچہ پاکستان میں یہی ہو رہا ہے اور ابھی اس کا آغاز ہوا ہے۔
اس سلسلے میں پہلے دھرنے کے بعد دوسرا جلسہ لاہور کے داتا دربار کے باہر منعقد کیا گیا جس میں حکومت کو ایک مخصوص وقت تک شریعت نافذ کرنے اور ایک صوبائی وزیر کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ میاں شہبازشریف جو صلح جُو اور فہم و فراست والے حکمران ہیں معلوم نہیں انھوں نے اس اہم ترین معاملے کو اہمیت کیوں نہیں دی اور اس سلسلے میں احتجاجی دھرنوں کے شروع میں ہی اگر صرف ایک صوبائی وزیر کو عہدے سے ہٹا دیا جاتا تو معاملہ وہیں پر ٹھنڈا ہو جاتا۔ مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ حکومت اس مسئلہ میں سنجیدہ ہی نہیں ہے اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے۔
اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں کا یہ احتجاج قومی سطح تک پھیل جائے گا اور احتجاج کرنے والوں کے وہ مسائل اور مصائب بھی دبے نہیں رہیں گے جوا ن کی زندگی کو ناقابل برداشت بنا رہے ہیں۔ چنانچہ یہ احتجاج جسے اب مقدس احتجاج کہنا چاہیے قوم کی عام صورتحال اور عوامی زندگی کی الجھنوں کو بھی سامنے لے آئے گا جس عوامی زندگی کو سدھارنے کے لیے اسلام آیا تھا اور اس کے قائدؐ نے انسانیت کو ایک زندگی بخش تصور سے آشنا کیا تھا۔
اس لیے اگر پاکستانی عوام حضورؐکے ساتھ اپنا ایمانی رشتہ تازہ کرنے کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو لازماً وہ باتیں سامنے آئیں گی جو صاف الفاظ میں کہیں تو اسلام کے بنیادی فلاحی اصولوں کی خلاف ورزی سے پیدا ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے مسلمان قوم سرداروں اور محکوموں میں تقسیم ہو گئی ہے جن میں سے ایک طبقہ لالچی اور خود غرض ہو گیا ہے اور اپنے اقتدار کو نفع اور ایک دکان سمجھ رہا ہے اور کمزور لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔
اسی تفریق اور لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے تو اسلام کا انقلاب آیا تھا۔حضورؐ کی مقدس شخصیت اور حضورؐ کی تعلیمات یہ حب رسولؑ کا حصہ ہیں لیکن اس انتہائی بلند مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جب عوام باہر نکلے تو ان کے ذہنوں کے انتشار اور غلط حکمرانی کی وجہ سے پالیسیوں سے حالات اگربے قابو ہو گئے تو یہ پھر یہ کسی حکمران کے قابو میں نہیں آئیں گے۔
ہمارے آج کے حکمران خوفزدہ ہیں کہ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کہیں یہ تحریک ان کے اوپر نہ پڑ جائے۔ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے اس معاملے کے پیچھے کوئی مسلمان تو ہو نہیں سکتا کہ ہماراتو ایمان ہی اس کے بغیر مکمل نہیں ہو تا اس کے باوجود یہ غلطی ہو گئی جس کا حکومت نے اعتراف اور ازالہ کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔ اس سارے معاملے کو مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر افہام و تفہیم اور فہم و فراست سے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی اور صوبائی وزیر جن کا استعفیٰ مطلوب ہے اس پر بیان بازی کر کے معاملے کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاست اور مذہب ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ہم نے سیاست میں اپنے مذہب کو بھی شامل رکھا ہوا ہے اور ہمارے کئی پیر خانوں کے گدی نشین اس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان اپنے مذہب کو عباداتی کے ساتھ سیاسی بھی قرار دیتے ہیں جس سے یہ دوآتشہ ہو جاتا ہے اس لیے سیاست اور مذہب میں توازن نہایت ضروری ہے ورنہ جب مذہبی معاملات بگڑ جائیں تو عوام سیاست کو بھول جاتے ہیں اس لیے ملک کو انتشار کی صورتحال سے بچانے کے لیے اس نازک مسئلے کو فوری حل کرنا حکومت کی دانشمندی ہو گی ۔
یہ بات درست کہ سب نے صرف نظر کیا اور نادانستگی میں اس کی منظوری دے دی مگر حکومت کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی جس کی پہلی قربانی اسے اپنے وزیر قانون کی صورت میں دینی پڑی اور ابھی نہ جانے اس کو اس ناقابل معافی جرم کی مزید کتنی سزا بھگتنی پڑے گی۔
میں عرض کروں گا کہ حکومت وقت نے عام معصوم پاکستانی پر زندگی کو جس قدر تنگ کر دیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے اس پر احتجاج کرنے لگا ہے۔ اب تک تو عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اور حکومت وقت تک اپنی فریاد کس طرح پہنچائے۔ عوام کے ساتھ سیاسی لیڈر بھی خوش اور شاداں رہتے ہیں اور عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ان کے لیے اب صورتحال آسان ہو گئی ہے اور ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ہر مسلمان کے ایمان پر بن گئی ہے۔
دوسرے مذہب والے یہ تصور نہیں کر سکتے کہ مسلمانوں کے ہاں ہادیٔ برحق کی ذات اقدس کیا مقام رکھتی ہے۔ حضورؐ سے محبت اور اپنی جان واولاد سے بڑھ کر محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پورا ایمان ہی یہی ہے۔ اب یا تو وہ اپنے ایمان کو ترک کر دیں یا اس پر کوئی ضرب لگے تو اپنی توفیق کے مطابق اس پر احتجاج کریں اوراس طرح ایمان کو تازہ کریں۔ چنانچہ پاکستان میں یہی ہو رہا ہے اور ابھی اس کا آغاز ہوا ہے۔
اس سلسلے میں پہلے دھرنے کے بعد دوسرا جلسہ لاہور کے داتا دربار کے باہر منعقد کیا گیا جس میں حکومت کو ایک مخصوص وقت تک شریعت نافذ کرنے اور ایک صوبائی وزیر کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ میاں شہبازشریف جو صلح جُو اور فہم و فراست والے حکمران ہیں معلوم نہیں انھوں نے اس اہم ترین معاملے کو اہمیت کیوں نہیں دی اور اس سلسلے میں احتجاجی دھرنوں کے شروع میں ہی اگر صرف ایک صوبائی وزیر کو عہدے سے ہٹا دیا جاتا تو معاملہ وہیں پر ٹھنڈا ہو جاتا۔ مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ حکومت اس مسئلہ میں سنجیدہ ہی نہیں ہے اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے۔
اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں کا یہ احتجاج قومی سطح تک پھیل جائے گا اور احتجاج کرنے والوں کے وہ مسائل اور مصائب بھی دبے نہیں رہیں گے جوا ن کی زندگی کو ناقابل برداشت بنا رہے ہیں۔ چنانچہ یہ احتجاج جسے اب مقدس احتجاج کہنا چاہیے قوم کی عام صورتحال اور عوامی زندگی کی الجھنوں کو بھی سامنے لے آئے گا جس عوامی زندگی کو سدھارنے کے لیے اسلام آیا تھا اور اس کے قائدؐ نے انسانیت کو ایک زندگی بخش تصور سے آشنا کیا تھا۔
اس لیے اگر پاکستانی عوام حضورؐکے ساتھ اپنا ایمانی رشتہ تازہ کرنے کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو لازماً وہ باتیں سامنے آئیں گی جو صاف الفاظ میں کہیں تو اسلام کے بنیادی فلاحی اصولوں کی خلاف ورزی سے پیدا ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے مسلمان قوم سرداروں اور محکوموں میں تقسیم ہو گئی ہے جن میں سے ایک طبقہ لالچی اور خود غرض ہو گیا ہے اور اپنے اقتدار کو نفع اور ایک دکان سمجھ رہا ہے اور کمزور لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔
اسی تفریق اور لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے تو اسلام کا انقلاب آیا تھا۔حضورؐ کی مقدس شخصیت اور حضورؐ کی تعلیمات یہ حب رسولؑ کا حصہ ہیں لیکن اس انتہائی بلند مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جب عوام باہر نکلے تو ان کے ذہنوں کے انتشار اور غلط حکمرانی کی وجہ سے پالیسیوں سے حالات اگربے قابو ہو گئے تو یہ پھر یہ کسی حکمران کے قابو میں نہیں آئیں گے۔
ہمارے آج کے حکمران خوفزدہ ہیں کہ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کہیں یہ تحریک ان کے اوپر نہ پڑ جائے۔ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے اس معاملے کے پیچھے کوئی مسلمان تو ہو نہیں سکتا کہ ہماراتو ایمان ہی اس کے بغیر مکمل نہیں ہو تا اس کے باوجود یہ غلطی ہو گئی جس کا حکومت نے اعتراف اور ازالہ کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔ اس سارے معاملے کو مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر افہام و تفہیم اور فہم و فراست سے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی اور صوبائی وزیر جن کا استعفیٰ مطلوب ہے اس پر بیان بازی کر کے معاملے کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاست اور مذہب ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ہم نے سیاست میں اپنے مذہب کو بھی شامل رکھا ہوا ہے اور ہمارے کئی پیر خانوں کے گدی نشین اس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان اپنے مذہب کو عباداتی کے ساتھ سیاسی بھی قرار دیتے ہیں جس سے یہ دوآتشہ ہو جاتا ہے اس لیے سیاست اور مذہب میں توازن نہایت ضروری ہے ورنہ جب مذہبی معاملات بگڑ جائیں تو عوام سیاست کو بھول جاتے ہیں اس لیے ملک کو انتشار کی صورتحال سے بچانے کے لیے اس نازک مسئلے کو فوری حل کرنا حکومت کی دانشمندی ہو گی ۔