ذہنی صحت کی طرف خصوصی توجہ دی جائے
جس معاشرے میں سماجی شعور کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو، وہاں پے درپے غیر انسانی واقعات وقوع پذیر ہونے لگتے ہیں۔
کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی شدت پوری قوم کو ہلا ڈالتی ہے اور وہ سانحہ ہر طرح سے ذہنوں پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ یہ دوسرے درجے کا تجربہ ہے جو ہمیں خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہ تجربہ کسی اور کا ہوتا ہے مگر ہم اسے گہرائی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ بچوں کے خلاف جرائم میں اضافے کی وجہ ذاتی ذمے داری کا فقدان ہے۔ اس غیر ذمے داری میں معاشرہ اور متعلقہ ادارے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
زینب کے واقعے نے چھوٹی عمرکی بچیوں کو خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔ نوجوان لڑکیاں خود کو اس معاشرتی نظام میں بہت غیر محفوظ تصورکرتی ہیں۔ میری دوست نے بتایا کہ زینب کے واقعے نے اس کی اٹھارہ سالہ بیٹی کے ذہن پر اس قدر منفی اثر ڈالا ہے کہ وہ اکثر نیند میں چیخیں مارکے اٹھ جاتی ہے۔ بہت سی ماؤں کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔
زینب کا قاتل پکڑا جا چکا ہے۔ اب جو حقائق سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق عمران ارشد نامی شخص زینب کے پڑوس میں رہتا تھا۔ زینب جس اعتماد سے اس کا ہاتھ پکڑکر جا رہی تھی اس سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ مجرم کو قریب سے جانتی ہے۔ حالانکہ گھر والوں نے اس شخص پر شک کا اظہار کیا۔ اسے گرفتار بھی کیا گیا مگر بعد میں اسے پولیس نے چھوڑ دیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک سیریل کلر ہے، جو باقی کیسز میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیریل کلر ایک علاقے میں مستقل وارداتیں کر رہا ہے، مگر وہ قانون کی نظروں سے چھپا ہوا ہے۔ وقت پر اس کی نشاندہی نہ ہونے کی صورت میں وہ مزید معصوم جانوں سے کھیلتا رہا۔ گھروں کے چراغ بجھاتا رہا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کسی ایک واقعے نے ملک گیر احتجاج کا روپ دھار لیا۔ ایسے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں مستقل ہوتے رہے ہیں۔
ان بچیوں کی تصویریں اکثر فیس بک پر شیئر کی جاتی رہی ہیں۔ ان میں اکثر لڑکیاں بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہت سارے کیس تھانوں میں رجسٹر ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ مظلوموں کو کیوں انصاف نہیں مل پاتا؟ اگر قانون غفلت کا شکار ہے تو عام شہری بھی بے حسی کے مارے ہوئے ہیں۔ ملک چھوٹی چھوٹی قیامتوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک قیامت کو دوسری قیامت کی خبر نہیں۔
جس معاشرے میں سماجی شعور کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو، وہاں پے درپے غیر انسانی واقعات وقوع پذیر ہونے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی احساس، شعور یا ضمیر مختلف فرقوں، نظریات اور جانبداری کے زہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ انسانیت کی بالادستی کے لیے غیر جانبدار سوچ چاہیے۔ یہ سوچ عام شہری سے سیاست کے ایوان تک میں نہیں ملتی۔
ٹھیک ہے کہ اس ملک کے سیاسی منظر نامے پر ہر دور میں انتشار پایا جاتا ہے۔ جس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھاتے ہیں، مگر اس انتشار کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔ ملک کی سالمیت و بقا کے لیے اگر سیاستداں متحد ہوجائیں تو یہ ایک نئی اور خوش آیند روایت ہوگی۔ اس وقت سیاسی انتشار ملک کی سلامتی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ملک میں سیاسی ڈھانچہ اگر مربوط نہ ہو تو معاشرتی زندگی بھی ابتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ہمارے ملک میں چند شعبے ایسے ہیں جن پر توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے۔
ان شعبوں میں قانون، صحت، تعلیم اور ماحولیات شامل ہیں۔ ان شعبوں کو جدید خطوں پر استوار کرنا اشد ضروری ہے۔ خاص طور پر شہریوں کو عزت جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، تاکہ عام لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قانون فقط بااثر لوگوں کے لیے ہے۔کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا۔ یہ معاشرہ ہی ہے اسے مجرم بننے پر اکساتا ہے۔ زینب کے قاتل عمران کی زندگی کو دیکھ لیجیے۔ اس کا والد نفسیاتی مریض تھا۔ جس گھر میں والد یا والدہ اگر نفسیاتی مریض ہوں تو وہ گھر ذہنی و جسمانی بیماریوں میں گھر جاتا ہے۔ یہ اخلاقی پسماندگی خاندانوں کو لے ڈوبتی ہے۔
ذہنی صحت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ عمران کا بیان سامنے آیا ہے کہ جنات اسے یہ جرم کرنے پر اکساتے تھے۔ وہ تعویذ گنڈوں پر یقین رکھتا تھا۔ سب سے پہلے قوم کو ان جعلی پیروں و عاملوں سے نجات دلانی چاہیے۔ عطائی ڈاکٹروں کی طرح یہ جعلی روحانی ماہر بھی معاشرتی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں اس وقت کئی روحانی علوم کے ماہر موجود ہیں، جن کے گھروں کے سامنے لوگوں کا جم غفیر نظر آتا ہے۔
میرے شہر میں کدو والی بی بی بھی موجود ہیں، جو مریضوں سے کدو منگواتی ہیں۔ کدو پر دم کرکے مریض کے جسم سے لگا کر انھیں تاکید کرتی ہیں کہ بارہ دن اس سبزی کو کھلی فضا میں رکھو، اگر یہ سبزی سالم رہی تو اس کا مطلب مریض پر بہت بھاری قسم کی بری نظر ہے، اگر گل سڑ گئی تو بھی دعا کی ضرورت ہے۔
بھاری نظر یا اثرات والوں کا طویل علاج ہوگا۔ بعد میں وہ کدو دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ وہ مریضوں سے گھر کا پورا راشن و دیگر سامان بھی منگواتی ہیں۔ اکثر پڑھی لکھی خواتین ان کے در پر حاضری دیتی ہیں۔ جن کے دم سے کدو والی بی بی کے گھر کا راشن پانی آجاتا ہے، لیکن لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ان کے منفی رویے، مزید برے اثرات ان تک لے کر آتے ہیں۔ منفی رویوں کی یہ لین دین سماجی زندگی کے اخلاقی زوال کا سبب بن رہی ہے۔ برے رویے کسی آسیب سے کم مہلک نہیں ہیں، لیکن ضعیف الاعتقادی بھی منافع بخش کاروبار ہے۔ جس کی وجہ سے مزاروں کی رونقیں قائم ہیں اور جعلی پیروں کا کاروبار عروج پر دکھائی دیتا ہے۔
دراصل لوگ حقیقی رہبر کی تلاش میں رہزنوں کے پاس جا نکلتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں، میں نے اطالوی ڈاکٹر اور دانشور لومبروسو کا ذکر کیا تھا، جس نے کرمنل انتھروپولوجی پر خاص کام کیا ہے۔ اور جرائم پیشہ لوگوں کے خدوخال اور جسمانی ساخت کے بارے میں آگہی دی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جنسی جرائم میں ملوث لوگوں کے کان بڑے ہوتے ہیں۔ جنھیں اس نے Jug Ear کا نام دیا ہے۔ وہ تصوراتی طاقت رکھنے والوں کو جرم کی طرف مائل قرار دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ فرصت اور بے کاری کئی پیچیدہ مسائل کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ کیونکہ فرصت، تخریبی سوچ کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ مغربی معاشروں میں نوجوانوں کے لیے ملازمت کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وہ پڑھائی کے ساتھ شام میں کوئی نہ کوئی ملازمت ضرورکرتے ہیں اور عام قسم کے کاموں کو عار نہیں سمجھتے۔ جب کہ ہمارے ملک میں محنت مزدوری کو عار سمجھا جاتا ہے اور غلط ذرایع سے پیسہ حاصل کرنے کو باعث فخر کامیابی! لیکن اسلامی نکتہ نگاہ سے محنت کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں۔ گداگری اور بے ایمانی سے کمایا ہوا سرمایہ باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ ہو یا مغل بادشاہ ان کے لیے لازمی تھا کہ انھیں کوئی نہ کوئی ہنر آنا چاہیے۔ لہٰذا تعلیم و تربیت کے ساتھ انھیں کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جاتا تھا۔ ان بادشاہوں کو سونار، جوہری، درزی، بڑھئی و دیگر ہنر میں مہارت حاصل تھی اور یہ ہنر ان کی آمدنی کے ذریعے بھی ہوا کرتے تھے۔ موجودہ دور کے مسائل کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کی طرف خاص دھیان دینا ہوگا۔ انھیں کھیل کود اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف مائل کرنا پڑے گا۔ اور تعلیم کے ساتھ ان کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کو بھی لازمی قرار دینا چاہیے۔ ہمیں گھر سے باہر کی دنیا پر نظر رکھنی پڑے گی۔
خاص طور پر محلے کو منظم ہوکر تنظیمی ترقیاتی کاموں کے لیے وقت نکالنا ہوگا۔ تاکہ فلاحی کاموں کے تحت ان فارغ نوجوانوں کے لیے کوئی منطقی حل نکالا جاسکے۔ وہ نوجوان جو چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں انھیں نہ فقط خصوصی توجہ دی جائے بلکہ ان کی ذہنی و جذباتی سرپرستی ہونی چاہیے اور خصوصی توجہ کی بنیاد پر ان کی کاؤنسلنگ کا انتظام کرنا چاہیے۔ بلکہ ملازمت کے لیے کیریکٹر سرٹیفکیٹ کے ساتھ ذہنی صحت کا سرٹیفکیٹ بھی ہونا چاہیے۔ جدید معاشروں میں فلاحی کاموں کو اولیت دی جاتی ہے تاکہ اس بے اطمینانی کا خاتمہ کیا جائے جو جرائم سے لے کر دیگر مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر اس ملک کا ہر صاحب حیثیت فرد ایک درخت لگائے اور ضرورت مند بچے کو تعلیم فراہم کرے تو ہم بہت سے مسائل و سنگین جرائم کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔
زینب کے واقعے نے چھوٹی عمرکی بچیوں کو خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔ نوجوان لڑکیاں خود کو اس معاشرتی نظام میں بہت غیر محفوظ تصورکرتی ہیں۔ میری دوست نے بتایا کہ زینب کے واقعے نے اس کی اٹھارہ سالہ بیٹی کے ذہن پر اس قدر منفی اثر ڈالا ہے کہ وہ اکثر نیند میں چیخیں مارکے اٹھ جاتی ہے۔ بہت سی ماؤں کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔
زینب کا قاتل پکڑا جا چکا ہے۔ اب جو حقائق سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق عمران ارشد نامی شخص زینب کے پڑوس میں رہتا تھا۔ زینب جس اعتماد سے اس کا ہاتھ پکڑکر جا رہی تھی اس سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ مجرم کو قریب سے جانتی ہے۔ حالانکہ گھر والوں نے اس شخص پر شک کا اظہار کیا۔ اسے گرفتار بھی کیا گیا مگر بعد میں اسے پولیس نے چھوڑ دیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک سیریل کلر ہے، جو باقی کیسز میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیریل کلر ایک علاقے میں مستقل وارداتیں کر رہا ہے، مگر وہ قانون کی نظروں سے چھپا ہوا ہے۔ وقت پر اس کی نشاندہی نہ ہونے کی صورت میں وہ مزید معصوم جانوں سے کھیلتا رہا۔ گھروں کے چراغ بجھاتا رہا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کسی ایک واقعے نے ملک گیر احتجاج کا روپ دھار لیا۔ ایسے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں مستقل ہوتے رہے ہیں۔
ان بچیوں کی تصویریں اکثر فیس بک پر شیئر کی جاتی رہی ہیں۔ ان میں اکثر لڑکیاں بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہت سارے کیس تھانوں میں رجسٹر ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ مظلوموں کو کیوں انصاف نہیں مل پاتا؟ اگر قانون غفلت کا شکار ہے تو عام شہری بھی بے حسی کے مارے ہوئے ہیں۔ ملک چھوٹی چھوٹی قیامتوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک قیامت کو دوسری قیامت کی خبر نہیں۔
جس معاشرے میں سماجی شعور کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو، وہاں پے درپے غیر انسانی واقعات وقوع پذیر ہونے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی احساس، شعور یا ضمیر مختلف فرقوں، نظریات اور جانبداری کے زہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ انسانیت کی بالادستی کے لیے غیر جانبدار سوچ چاہیے۔ یہ سوچ عام شہری سے سیاست کے ایوان تک میں نہیں ملتی۔
ٹھیک ہے کہ اس ملک کے سیاسی منظر نامے پر ہر دور میں انتشار پایا جاتا ہے۔ جس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھاتے ہیں، مگر اس انتشار کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔ ملک کی سالمیت و بقا کے لیے اگر سیاستداں متحد ہوجائیں تو یہ ایک نئی اور خوش آیند روایت ہوگی۔ اس وقت سیاسی انتشار ملک کی سلامتی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ملک میں سیاسی ڈھانچہ اگر مربوط نہ ہو تو معاشرتی زندگی بھی ابتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ہمارے ملک میں چند شعبے ایسے ہیں جن پر توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے۔
ان شعبوں میں قانون، صحت، تعلیم اور ماحولیات شامل ہیں۔ ان شعبوں کو جدید خطوں پر استوار کرنا اشد ضروری ہے۔ خاص طور پر شہریوں کو عزت جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، تاکہ عام لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قانون فقط بااثر لوگوں کے لیے ہے۔کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا۔ یہ معاشرہ ہی ہے اسے مجرم بننے پر اکساتا ہے۔ زینب کے قاتل عمران کی زندگی کو دیکھ لیجیے۔ اس کا والد نفسیاتی مریض تھا۔ جس گھر میں والد یا والدہ اگر نفسیاتی مریض ہوں تو وہ گھر ذہنی و جسمانی بیماریوں میں گھر جاتا ہے۔ یہ اخلاقی پسماندگی خاندانوں کو لے ڈوبتی ہے۔
ذہنی صحت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ عمران کا بیان سامنے آیا ہے کہ جنات اسے یہ جرم کرنے پر اکساتے تھے۔ وہ تعویذ گنڈوں پر یقین رکھتا تھا۔ سب سے پہلے قوم کو ان جعلی پیروں و عاملوں سے نجات دلانی چاہیے۔ عطائی ڈاکٹروں کی طرح یہ جعلی روحانی ماہر بھی معاشرتی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں اس وقت کئی روحانی علوم کے ماہر موجود ہیں، جن کے گھروں کے سامنے لوگوں کا جم غفیر نظر آتا ہے۔
میرے شہر میں کدو والی بی بی بھی موجود ہیں، جو مریضوں سے کدو منگواتی ہیں۔ کدو پر دم کرکے مریض کے جسم سے لگا کر انھیں تاکید کرتی ہیں کہ بارہ دن اس سبزی کو کھلی فضا میں رکھو، اگر یہ سبزی سالم رہی تو اس کا مطلب مریض پر بہت بھاری قسم کی بری نظر ہے، اگر گل سڑ گئی تو بھی دعا کی ضرورت ہے۔
بھاری نظر یا اثرات والوں کا طویل علاج ہوگا۔ بعد میں وہ کدو دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ وہ مریضوں سے گھر کا پورا راشن و دیگر سامان بھی منگواتی ہیں۔ اکثر پڑھی لکھی خواتین ان کے در پر حاضری دیتی ہیں۔ جن کے دم سے کدو والی بی بی کے گھر کا راشن پانی آجاتا ہے، لیکن لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ان کے منفی رویے، مزید برے اثرات ان تک لے کر آتے ہیں۔ منفی رویوں کی یہ لین دین سماجی زندگی کے اخلاقی زوال کا سبب بن رہی ہے۔ برے رویے کسی آسیب سے کم مہلک نہیں ہیں، لیکن ضعیف الاعتقادی بھی منافع بخش کاروبار ہے۔ جس کی وجہ سے مزاروں کی رونقیں قائم ہیں اور جعلی پیروں کا کاروبار عروج پر دکھائی دیتا ہے۔
دراصل لوگ حقیقی رہبر کی تلاش میں رہزنوں کے پاس جا نکلتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں، میں نے اطالوی ڈاکٹر اور دانشور لومبروسو کا ذکر کیا تھا، جس نے کرمنل انتھروپولوجی پر خاص کام کیا ہے۔ اور جرائم پیشہ لوگوں کے خدوخال اور جسمانی ساخت کے بارے میں آگہی دی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جنسی جرائم میں ملوث لوگوں کے کان بڑے ہوتے ہیں۔ جنھیں اس نے Jug Ear کا نام دیا ہے۔ وہ تصوراتی طاقت رکھنے والوں کو جرم کی طرف مائل قرار دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ فرصت اور بے کاری کئی پیچیدہ مسائل کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ کیونکہ فرصت، تخریبی سوچ کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ مغربی معاشروں میں نوجوانوں کے لیے ملازمت کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وہ پڑھائی کے ساتھ شام میں کوئی نہ کوئی ملازمت ضرورکرتے ہیں اور عام قسم کے کاموں کو عار نہیں سمجھتے۔ جب کہ ہمارے ملک میں محنت مزدوری کو عار سمجھا جاتا ہے اور غلط ذرایع سے پیسہ حاصل کرنے کو باعث فخر کامیابی! لیکن اسلامی نکتہ نگاہ سے محنت کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں۔ گداگری اور بے ایمانی سے کمایا ہوا سرمایہ باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ ہو یا مغل بادشاہ ان کے لیے لازمی تھا کہ انھیں کوئی نہ کوئی ہنر آنا چاہیے۔ لہٰذا تعلیم و تربیت کے ساتھ انھیں کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جاتا تھا۔ ان بادشاہوں کو سونار، جوہری، درزی، بڑھئی و دیگر ہنر میں مہارت حاصل تھی اور یہ ہنر ان کی آمدنی کے ذریعے بھی ہوا کرتے تھے۔ موجودہ دور کے مسائل کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کی طرف خاص دھیان دینا ہوگا۔ انھیں کھیل کود اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف مائل کرنا پڑے گا۔ اور تعلیم کے ساتھ ان کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کو بھی لازمی قرار دینا چاہیے۔ ہمیں گھر سے باہر کی دنیا پر نظر رکھنی پڑے گی۔
خاص طور پر محلے کو منظم ہوکر تنظیمی ترقیاتی کاموں کے لیے وقت نکالنا ہوگا۔ تاکہ فلاحی کاموں کے تحت ان فارغ نوجوانوں کے لیے کوئی منطقی حل نکالا جاسکے۔ وہ نوجوان جو چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں انھیں نہ فقط خصوصی توجہ دی جائے بلکہ ان کی ذہنی و جذباتی سرپرستی ہونی چاہیے اور خصوصی توجہ کی بنیاد پر ان کی کاؤنسلنگ کا انتظام کرنا چاہیے۔ بلکہ ملازمت کے لیے کیریکٹر سرٹیفکیٹ کے ساتھ ذہنی صحت کا سرٹیفکیٹ بھی ہونا چاہیے۔ جدید معاشروں میں فلاحی کاموں کو اولیت دی جاتی ہے تاکہ اس بے اطمینانی کا خاتمہ کیا جائے جو جرائم سے لے کر دیگر مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر اس ملک کا ہر صاحب حیثیت فرد ایک درخت لگائے اور ضرورت مند بچے کو تعلیم فراہم کرے تو ہم بہت سے مسائل و سنگین جرائم کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔