اپوزیشن کے تضادات

عوام کے ایک طبقے میں اس کی ناپسندی سامنے آئی ہے لیکن وہ ہار ماننے کو بہ ظاہر تیار نظر نہیں آتی۔


Zaheer Akhter Bedari January 25, 2018
[email protected]

17 جنوری کو اعلان کے مطابق اے پی سی کے زیراہتمام ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کے حوالے سے لاہور میں جلسہ منعقد ہوا ۔ اس جلسے کی کامیابی کے حوالے سے جو شکوک وشبہات پائے جاتے تھے وہ عمران خان کی بچکانہ ضد کی وجہ سے سچ ثابت ہوئے اور جلسے میں عوام کی شرکت توقع سے کم رہی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ 17 جنوری سے دو دن پہلے ہی سے عمران زرداری اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور لاہور کے عوام بد دلی کا شکار ہوکر رہ گئے۔

اس فضا کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہورکے مختلف علاقوں میں تحریک انصاف کے زیر اہتمام ہونے والے جلسوں کے مقابلے میں اے پی سی کا یہ جلسہ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوسکا۔ اس حوالے سے طاہر القادری کی کوششوں کو سراہا تو جاسکتا ہے لیکن طاہر القادری کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ جلسے سے قبل عمران خان کو سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنے پر بھی آمادہ کرتے کیونکہ جلسے سے قبل عمران کی طرف سے زرداری کے ساتھ نہ بیٹھنے کی جو خبریں میڈیا میں آتی رہیں اس کا نتیجہ عوام میں بددلی کی شکل میں سامنے آیا۔

عمران خان کا موقف اصولی طور پر تو درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک عرصے سے نواز شریف کے ساتھ ساتھ زرداری کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے آ رہے تھے لیکن عمران اب تک غالباً یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ کوئی نظریاتی لڑائی یا نظریاتی سیاست نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ایک بدترین بورژوا سیاست کے میدان میں کھیل رہے ہیں جہاں اصول اور نظریات سیاسی ضرورتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ کہا گیا کہ 17 جنوری کی تیاری کے حوالے سے جو اے پی سی بلوائی گئی تھی اس میں 40 سیاسی جماعتیں شامل تھیں کیا یہ سیاسی جماعتیں عمران خان کی سیاست سے متفق اور اصولی سیاست کرنے والی جماعتیں تھیں؟

اس حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیں تو نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ اس اختلاف کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوا، آج تک عمران خان کے جلسوں کے حوالے سے عوام میں جو تاثر تھا وہ مجروح ہوا اور مجموعی تاثر یہ پیدا ہوا کہ یہ جلسہ توقع کے مطابق کامیاب نہ ہوا اور اس کی وجہ عمران خان کی ضد ثابت ہوئی۔

زرداری نہ نظریاتی سیاستدان ہیں نہ انھوں نے کبھی نظریاتی سیاستدان ہونے کا دعویٰ کیا اس کے برخلاف ان کا تعلق بورژوا سیاست سے ہے اور وہ خرابیاں جو بورژوا سیاست میں پائی جاتی ہیں وہ زرداری میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کو جن بدنامیوں کا سامنا کرنا پڑا ، اس کا نتیجہ 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی شدید ناکامی کی شکل میں سامنے آیا اور عوام پیپلز پارٹی سے اس قدر بدظن ہوگئے کہ سوائے دیہی سندھ کے پیپلز پارٹی ''ہرچند کہ ہے' نہیں ہے'' والی کیفیت میں آگئی۔

زرداری پیپلز پارٹی کو دوبارہ سیاست میں زندہ کرنے کی جوکوششیں کرتے رہے ان کوششوں سے انھیں وہ فائدہ نہ ہوا جتنا فائدہ انھیں 17 جنوری کے جلسے اور عمران خان کی غلطی سے ہوا۔ زرداری کی اس جلسے میں شرکت اور بردباری پیپلز پارٹی کو دوبارہ ''سیاسی رنگ'' میں لے آئی۔ عمران خان نے زرداری کے ساتھ نہ بیٹھنے کا جو اعلان کیا اگر کوئی عام سیاستدان ہوتا تو عمران خان کے خلاف جوابی ضد اور جذباتیت کا مظاہرہ کرتا لیکن زرداری نے عمران خان کے رویے کا جس صبر و استقلال سے جواب دیا اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں احساس ندامت کے ساتھ کامیابی کا تاثر بھی پیدا ہوا۔

مسلم لیگ (ن) آج کل جس سیاسی ابتلا سے گزر رہی ہے اگر اس کی قیادت میں حوصلہ اور مزاحمت کی طاقت نہ ہوتی تو وہ کبھی کی بکھر چکی ہوتی ، لیکن سیاسی اپوزیشن اور بالادست طاقتوں کی سختی کے باوجود وہ جس استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے اس میں ریاستی طاقت اور دولت کے بے بہا استعمال کا بڑا دخل ہے لیکن تنقید کے جو پہاڑ اس کے سر پر آگئے ہیں اگر کوئی اور گروہ ہوتا تو مزاحمت ترک کردیتا لیکن حکومت جس کامیاب پروپیگنڈے کے ساتھ طاقتور اپوزیشن کا مقابلہ کر رہی ہے اسے آپ کوئی نام دیں لیکن وہ اب تک داخلی انتشار سے بچتے ہوئے پروپیگنڈا محاذ پر ماہر ٹیموں کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔

17 جنوری کے اپوزیشن انتشار کا حکومت بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے حالانکہ ہر روز اسے کسی نہ کسی نئے الزام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عوام کے ایک طبقے میں اس کی ناپسندی سامنے آئی ہے لیکن وہ ہار ماننے کو بہ ظاہر تیار نظر نہیں آتی۔

میدان سیاست میں اس کی سب سے بڑی حریف طاقت تحریک انصاف ہے اور عمران خان پنجاب کے مختلف علاقوں میں کامیاب جلسے کرکے حکومت کی طاقت میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب بھی ہورہے ہیں لیکن سرمائے کے حد سے زیادہ استعمال اور بے معنی ترقی کے بھرپور پروپیگنڈے کی وجہ اس کی گرفت پنجاب پر اب بھی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت جن پروپیگنڈہ گروہوں کو استعمال کر رہی ہے وہ عوام کو کنفیوژ کرنے میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن یعنی تحریک انصاف پروپیگنڈا محاذ پر اس قدر کمزور ہے کہ وہ حقائق کو بھی عوام تک موثر انداز میں پیش نہیں کر پا رہی ہے۔ حکومت کی بے شمار ماہر پروپیگنڈہ ٹیموں کے مقابلے میں لے دے کر ایک بندہ پھس پھسے انداز میں حکومت کے طوفانی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرتا نظر آتا ہے۔

اے پی سی کے قیام کے بعد بھی اپوزیشن پروپیگنڈ محاذ پر شدید کمزوری کا شکار نظر آتی ہے۔ غالباً اس کی بڑی وجہ اپوزیشن کے داخلی تضادات اور مفاد پرستی ہے جس کا مظاہرہ عوام نے 17جنوری کے جلسے میں کیا۔ اس میں ذرہ برابر ابہام نہیں کہ حکومت بدنامیوں کے پاتال میں کھڑی ہے اور عوام حکومت سے سخت بدظن ہیں لیکن رائے عامہ کا مثبت استعمال کرنے والی کوئی طاقت نظر نہیں آتی۔

اے پی سی نے جو تحریک شروع کی وہ اپنے ابتدائی مرحلے ہی میں تضادات کا شکار ہوکر اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ تحریک بنیادی طور پر ماڈل ٹاؤن کے قصاص کے حوالے سے چلائی جا رہی ہے جس کے بنیادی مطالبیدو حکومتی شخصیات کے استعفے ہیں۔ بلاشبہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا سے عوام کی ہمدردی ایک فطری بات ہے لیکن عوام اس نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں جو آئے دن ماڈل ٹاؤنوں کو جنم دیتا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری اپوزیشن اس نظام جمہوریت کی اس قدر شیدائی ہے کہ یہ عوام دشمن بدترین اشرافیائی جمہوریت اہل سیاست کا قبلہ و کعبہ بنی ہوئی ہے کیونکہ اسے اس حقیقت کا علم ہے کہ یہی اشرافیائی جمہوریت دودھ دینے والی وہ بھینس ہے جس پر ہر جمہوری سیاستدان کی نظر ہے۔ عمران خان بلاشبہ اس 70 سالہ استحصالی نظام میں شگاف ڈال سکتا ہے لیکن اس کے لیے بچکانہ نہیں مدبرانہ سیاست کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔