اس جنگل میں
ایسے قوانین جن کی وجہ سے ان اداروں کی مناسب جوابدہی نہ ہو سکتی ہو، انھیں منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔
نقیب خان محسود پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ کراچی میں ایک نوجوان انتظار کو پولیس نے دہشت گردی کے شبہ میں سیدھی گولیاں مارکر ہلاک کر دیا ۔ انتظار کے بہیمانہ قتل کے چند روز بعد ہی کراچی ہی میں ایک اور نوجوان مقصود پولیس کے ایک جعلی مقابلے کی زد میں آکر مارا گیا۔
قصور میں معصوم زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کی واردات کے خلاف احتجاج کرنے والے ہجوم پر پولیس نے سیدھی گولیاں برسا کر تین شہریوں کی جان لے لی۔ تین برس پہلے ماڈل ٹائون لاہور میں پولیس نے ریاستی دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی اور 14 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ادھر کراچی میں کئی ہزار نوجوان بغیر مقدمہ چلائے اداروں کی تحویل میں ہیں ۔ ان میں سے ایک فیصد پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی ہے، حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اقوام متحدہ 2010 میں ایذارسانی کے ذریعے زیر حراست ملزمان سے اقبال جرم کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔اس کنونشن پر اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری دستخط بھی کرچکے ہیں۔
جمہوری ممالک میںپولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے Service کے طورپر تشکیل دیے جاتے ہیں، تاکہ عوام کی جان ومال کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ مختلف قانونی امور میں ان کی داد رسی کریں اور جرائم پر قابو پائیں۔ اس لیے ان معاشروں میں پولیس کا انتخاب مقامی سطح پر میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
مقامی لوگوں سے اس لیے انتخاب کیا جاتا ہے، تاکہ ایسے اہلکار بھرتی ہوسکیں، جواپنے علاقے کے لوگوں کی اجتماعی نفسیات اور طرز حیات کے بارے میں مکمل آگہی رکھتے ہوں، تاکہ عوام کی مناسب داد رسی ہوسکے ۔ یعنی ان معاشروں میں تھانے عوام کو قانونی سائبان (Protection) مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ پولیس کا اپنا انتظامی ڈھانچہ ضرور ہوتا ہے، لیکن انھیں ضلع کے میئر احکام کی تعمیل کا پابند بنایا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں عدلیہ بھی نچلی سطح تک Devolve ہونے کی وجہ سے زیادہ فعالیت اور مستعدی کے ساتھ عوام کو انصاف مہیا کرتی ہے۔
نوآبادیات وہ ریاستیں ہوتی ہیں، جہاں کسی دوسرے ملک کی حکمرانی ہو ۔ان ریاستوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے Force کے طور پر تشکیل دیے جاتے ہیں، تاکہ نوآبادیات پر حکمرانوں کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے ساتھ آزادی کی تحاریک سمیت ہر قسم کی شورشوں کو بزور طاقت کچلا جاسکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاج برطانیہ نے ہندوستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کرمنل قوانین کے ساتھ 1861 میں ایک پولیس آرڈر بھی نافذ کیا جس کے تحت پورے برٹش انڈیا میں پولیس فورس قائم کی گئی، لیکن انگریز ذہین حکمران تھا،وہ سمجھتا تھا کہ پولیس کو بیشک بطور فورس استعمال کیا جائے، لیکن بدنام اہلکار اس کی حکمرانی کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے ان اداروں میں بھرتی کے لیے اچھے خاندانی پس منظراور شفاف ذاتی کردارکو اہمیت دی جاتی تھی۔
اس کے برعکس ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں آئین اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو Mafia بنا دیا گیا ہے، جو سفاکانہ انداز میں اپنے ہی عوام کوکچلنے، لوٹنے اور ان میں دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حکمرانی پر قبائلی، جاگیردار اور مراعات یافتہ اشرافیہ قابض ہے۔ جس کی سیاسی طاقت کاانحصار پٹواری اور تحصیل دار کے بعد سب سے زیادہ تھانہ (یعنی پولیس) پر ہوتا ہے۔
یہ طبقات پولیس کواپنے کنٹرول میں رکھنے کی خاطر اس میں من پسند جرائم پیشہ اور بدکردار افراد بھرتی کراتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پولیس صرفPoliticiseہی نہیں ہوتی، بلکہ بدنام زمانہ مافیا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جس کے مظاہر آئے دن ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ پرویز مشرف دور میں نافذ کردہ پولیس آرڈرکو بیک جنبش قلم منسوخ کرکے1861کا نوآبادیاتی پولیس آرڈر بحال کرنے کے پس پشت یہی مائنڈ سیٹ کارفرما ہے۔
پاکستان میں گو کہ آج بھی برطانوی طرزکا پولیس نظام رائج ہے، لیکن مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد فیوڈل سیاستدانوں کو تمام انتظامی اداروں بالخصوص پولیس کے محکمے میں من مانیاں کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ یوں کوٹا سسٹم کے تحت کم علمی قابلیت اور معمولی ذہنی استعداد کے حامل افراد افسران بن گئے، جب کہ سفارش ، رشوت اور اثر و نفوذ کی بنیاد پر نچلے عملے کی بھرتی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
نتیجتاً پولیس عوام کے محافظ ادارے کے بجائے بدترین عفریت کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ جو حکمرانوں اور سیاسی بااثر طبقات کی انگلیوں پر ناچتی ہے اور ماورائے عدالت و قانون اقدامات سے بھی گریز نہیں کرتی۔کرپشن اور بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ پولیس کے بیشتر اہلکار اندرون اور بیرون ملک اربوں اور کروڑوں کی جائیدادوں اور سرمایے کے مالک ہیں۔
چونکہ اسمبلیوں میں وہ لوگ بیٹھے ہیں، جو خود بھی اقتدار و اختیار پر کنڈلی مارکر بیٹھنے کے عادی ہیں، اس لیے وہ کرمنل قوانین میں ایسی آئینی ترامیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ، جو نوآبادیاتی نظام سے بھی بد تر ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری 2015میں موجودہ پارلیمان نے بعض قوتوں کے دبائو میں آکر نو آبادیاتی دور کے پولیس ریمانڈ کے قانون میں تبدیلیاں کرکے اسے 14روز(پہلے 7روز پھر عدالت کی اجازت سے مزید 7روز کا اضافہ) سے بڑھا کر 90 روز کردیا۔ جس نے زیر حراست افراد پر تشدد اور ایذارسانی کے ذریعے اقبال جرم کرانے کے تصورکو مزید تقویت دیدی۔
یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے علاوہ خود آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد شہریوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیرہ دستیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس قانون کی وجہ سے کراچی کے ہزاروں افراد بغیر کسی عدالتی کاروائی کے اداروں کی تحویل میں ہیں۔
پے درپے رونما ہونے والے واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ عام شہری کی جان ومال پولیس کے رحم وکرم پر ہے۔وہ اس قدر طاقتور بنا دی گئی ہے کہ جب چاہے،جسے چاہے اور جس طرح چاہے ماورائے عدالت زندگی کی قید سے آزاد کرا سکتی ہے۔ کیونکہ ماورائے آئین اقدامات یعنی جعلی پولیس مقابلے پولیس کلچر کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
کیا یہ غلط ہے کہ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں،جو بظاہر جمہوری کہلاتا ہے، مگرپولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مسولینی جیسی فسطائیت کی بدترین شکل اختیار کرچکے ہیں۔جہاں عدل وانصاف کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشارہِ انگشت کا محتاج بنادیا گیا ہے۔ کیا یہ جنگل کے قانون سے بھی بدتر انتظامی ڈھانچہ نہیں بن گیا ہے؟
اس تناظر میں یہ طے ہے کہ پاکستان میں پولیس سمیت انتظامی ڈھانچے میں بہتری کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں ہے، جب تک کہ سیاسی جماعتیں نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ سے نکل کر حقیقی جمہوری اقدار کی اہمیت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوجاتیں۔ کیونکہ پولیس سمیت دیگرانتظامی ڈھانچے اسی وقت بطور ایک Serviceکام کرسکتے ہیں، جب تک کہ ان اداروں میں سیاسی مداخلت کا راستہ بند نہیں کردیا جاتا۔دوسرے شراکتی جمہوریت کی افادیت کو پوری نیک نیتی کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کے علاوہ عدالتی نظام کی بھی نچلی سطح تک منتقلی نہیں کردی جاتی۔
اس کے علاوہ پارلیمان کو ایسے قوانین بنانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے، جوآئین کی حقوق انسانی کی شقوں سے متصادم ہوں۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ماورائے عدالت اقدامات کرنے پر اکسانے کا باعث ہوں ۔ ریاستی انتظامیہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیرقانونی اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے قوانین جن کی وجہ سے ان اداروں کی مناسب جوابدہی نہ ہو سکتی ہو، انھیں منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔
قصور میں معصوم زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کی واردات کے خلاف احتجاج کرنے والے ہجوم پر پولیس نے سیدھی گولیاں برسا کر تین شہریوں کی جان لے لی۔ تین برس پہلے ماڈل ٹائون لاہور میں پولیس نے ریاستی دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی اور 14 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ادھر کراچی میں کئی ہزار نوجوان بغیر مقدمہ چلائے اداروں کی تحویل میں ہیں ۔ ان میں سے ایک فیصد پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی ہے، حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اقوام متحدہ 2010 میں ایذارسانی کے ذریعے زیر حراست ملزمان سے اقبال جرم کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔اس کنونشن پر اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری دستخط بھی کرچکے ہیں۔
جمہوری ممالک میںپولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے Service کے طورپر تشکیل دیے جاتے ہیں، تاکہ عوام کی جان ومال کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ مختلف قانونی امور میں ان کی داد رسی کریں اور جرائم پر قابو پائیں۔ اس لیے ان معاشروں میں پولیس کا انتخاب مقامی سطح پر میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
مقامی لوگوں سے اس لیے انتخاب کیا جاتا ہے، تاکہ ایسے اہلکار بھرتی ہوسکیں، جواپنے علاقے کے لوگوں کی اجتماعی نفسیات اور طرز حیات کے بارے میں مکمل آگہی رکھتے ہوں، تاکہ عوام کی مناسب داد رسی ہوسکے ۔ یعنی ان معاشروں میں تھانے عوام کو قانونی سائبان (Protection) مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ پولیس کا اپنا انتظامی ڈھانچہ ضرور ہوتا ہے، لیکن انھیں ضلع کے میئر احکام کی تعمیل کا پابند بنایا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں عدلیہ بھی نچلی سطح تک Devolve ہونے کی وجہ سے زیادہ فعالیت اور مستعدی کے ساتھ عوام کو انصاف مہیا کرتی ہے۔
نوآبادیات وہ ریاستیں ہوتی ہیں، جہاں کسی دوسرے ملک کی حکمرانی ہو ۔ان ریاستوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے Force کے طور پر تشکیل دیے جاتے ہیں، تاکہ نوآبادیات پر حکمرانوں کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے ساتھ آزادی کی تحاریک سمیت ہر قسم کی شورشوں کو بزور طاقت کچلا جاسکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاج برطانیہ نے ہندوستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کرمنل قوانین کے ساتھ 1861 میں ایک پولیس آرڈر بھی نافذ کیا جس کے تحت پورے برٹش انڈیا میں پولیس فورس قائم کی گئی، لیکن انگریز ذہین حکمران تھا،وہ سمجھتا تھا کہ پولیس کو بیشک بطور فورس استعمال کیا جائے، لیکن بدنام اہلکار اس کی حکمرانی کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے ان اداروں میں بھرتی کے لیے اچھے خاندانی پس منظراور شفاف ذاتی کردارکو اہمیت دی جاتی تھی۔
اس کے برعکس ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں آئین اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو Mafia بنا دیا گیا ہے، جو سفاکانہ انداز میں اپنے ہی عوام کوکچلنے، لوٹنے اور ان میں دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حکمرانی پر قبائلی، جاگیردار اور مراعات یافتہ اشرافیہ قابض ہے۔ جس کی سیاسی طاقت کاانحصار پٹواری اور تحصیل دار کے بعد سب سے زیادہ تھانہ (یعنی پولیس) پر ہوتا ہے۔
یہ طبقات پولیس کواپنے کنٹرول میں رکھنے کی خاطر اس میں من پسند جرائم پیشہ اور بدکردار افراد بھرتی کراتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پولیس صرفPoliticiseہی نہیں ہوتی، بلکہ بدنام زمانہ مافیا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جس کے مظاہر آئے دن ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ پرویز مشرف دور میں نافذ کردہ پولیس آرڈرکو بیک جنبش قلم منسوخ کرکے1861کا نوآبادیاتی پولیس آرڈر بحال کرنے کے پس پشت یہی مائنڈ سیٹ کارفرما ہے۔
پاکستان میں گو کہ آج بھی برطانوی طرزکا پولیس نظام رائج ہے، لیکن مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد فیوڈل سیاستدانوں کو تمام انتظامی اداروں بالخصوص پولیس کے محکمے میں من مانیاں کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ یوں کوٹا سسٹم کے تحت کم علمی قابلیت اور معمولی ذہنی استعداد کے حامل افراد افسران بن گئے، جب کہ سفارش ، رشوت اور اثر و نفوذ کی بنیاد پر نچلے عملے کی بھرتی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
نتیجتاً پولیس عوام کے محافظ ادارے کے بجائے بدترین عفریت کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ جو حکمرانوں اور سیاسی بااثر طبقات کی انگلیوں پر ناچتی ہے اور ماورائے عدالت و قانون اقدامات سے بھی گریز نہیں کرتی۔کرپشن اور بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ پولیس کے بیشتر اہلکار اندرون اور بیرون ملک اربوں اور کروڑوں کی جائیدادوں اور سرمایے کے مالک ہیں۔
چونکہ اسمبلیوں میں وہ لوگ بیٹھے ہیں، جو خود بھی اقتدار و اختیار پر کنڈلی مارکر بیٹھنے کے عادی ہیں، اس لیے وہ کرمنل قوانین میں ایسی آئینی ترامیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ، جو نوآبادیاتی نظام سے بھی بد تر ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری 2015میں موجودہ پارلیمان نے بعض قوتوں کے دبائو میں آکر نو آبادیاتی دور کے پولیس ریمانڈ کے قانون میں تبدیلیاں کرکے اسے 14روز(پہلے 7روز پھر عدالت کی اجازت سے مزید 7روز کا اضافہ) سے بڑھا کر 90 روز کردیا۔ جس نے زیر حراست افراد پر تشدد اور ایذارسانی کے ذریعے اقبال جرم کرانے کے تصورکو مزید تقویت دیدی۔
یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے علاوہ خود آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد شہریوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیرہ دستیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس قانون کی وجہ سے کراچی کے ہزاروں افراد بغیر کسی عدالتی کاروائی کے اداروں کی تحویل میں ہیں۔
پے درپے رونما ہونے والے واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ عام شہری کی جان ومال پولیس کے رحم وکرم پر ہے۔وہ اس قدر طاقتور بنا دی گئی ہے کہ جب چاہے،جسے چاہے اور جس طرح چاہے ماورائے عدالت زندگی کی قید سے آزاد کرا سکتی ہے۔ کیونکہ ماورائے آئین اقدامات یعنی جعلی پولیس مقابلے پولیس کلچر کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
کیا یہ غلط ہے کہ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں،جو بظاہر جمہوری کہلاتا ہے، مگرپولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مسولینی جیسی فسطائیت کی بدترین شکل اختیار کرچکے ہیں۔جہاں عدل وانصاف کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشارہِ انگشت کا محتاج بنادیا گیا ہے۔ کیا یہ جنگل کے قانون سے بھی بدتر انتظامی ڈھانچہ نہیں بن گیا ہے؟
اس تناظر میں یہ طے ہے کہ پاکستان میں پولیس سمیت انتظامی ڈھانچے میں بہتری کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں ہے، جب تک کہ سیاسی جماعتیں نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ سے نکل کر حقیقی جمہوری اقدار کی اہمیت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوجاتیں۔ کیونکہ پولیس سمیت دیگرانتظامی ڈھانچے اسی وقت بطور ایک Serviceکام کرسکتے ہیں، جب تک کہ ان اداروں میں سیاسی مداخلت کا راستہ بند نہیں کردیا جاتا۔دوسرے شراکتی جمہوریت کی افادیت کو پوری نیک نیتی کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کے علاوہ عدالتی نظام کی بھی نچلی سطح تک منتقلی نہیں کردی جاتی۔
اس کے علاوہ پارلیمان کو ایسے قوانین بنانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے، جوآئین کی حقوق انسانی کی شقوں سے متصادم ہوں۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ماورائے عدالت اقدامات کرنے پر اکسانے کا باعث ہوں ۔ ریاستی انتظامیہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیرقانونی اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے قوانین جن کی وجہ سے ان اداروں کی مناسب جوابدہی نہ ہو سکتی ہو، انھیں منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔