توہین عدالت میر شکیل کو ہر سماعت پر حاضری کا حکم

رپورٹراحمد نورانی کے معافی نہ مانگنے پرجواب مسترد،غلط خبرپرنوٹس جاری

سعد رفیق، طلال، کرمانی کی تقاریربھی جمع، سننے کا وقت آگیا، سپریم کورٹ۔ فوٹو؛فائل

سپریم کورٹ نے میر شکیل الرحمن، میر جاوید الرحمن اور رپورٹر احمد نورانی کو ہر سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے نجی میڈیا گروپ جنگ و جیوکے مالک میر شکیل الرحمن، ایڈیٹرمیرجاویدالرحمن اور رپورٹر احمد نورانی کے خلاف توہین عدالت مقدمے میں کہاہے کہ توہین عدالت کے نوٹس کا مقصدکسی کو سزا دینا نہیں بلکہ عدلیہ کے وقار اور احترام کو برقرار رکھنا ہے، اگر ادارے کا احترام نہ رہے تو لوگوں کا اعتماد ختم ہوجائے گا، مرتکبین توہین عدالت کی طرف سے معافی مانگنے پرعدالت نے ہمیشہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ریمارکس فل بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران دیے۔

رپورٹر احمد نورانی کی طرف سے معافی نہ مانگنے پر انھیں2 ہفتے میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے استفسارکیاکہ مبینہ توہین عدالت کے ملزم عدالت میں موجود ہیں تووکیل ارشد چوہدری نے کہاکہ تینوں ملزمان موجود ہیں۔

عدالت نے میر شکیل الرحمن، میر جاوید الرحمن اور رپورٹر احمد نورانی کوحکم دیاکہ ہر سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے پاناماکیس کے دوران غلط رپورٹنگ اور جج کو فون کال کرنے کے معاملے پر توہین عدالت کے نوٹس پرکہاکہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما جے آئی ٹی کی نگرانی آئی ایس آئی کررہی تھی، یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے لیکن اس پر نوٹس نہیں ہوا۔

جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کے قیام اورمشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارروائی کی وڈیو ریکارڈنگ روکنے کی درخواست مسترد ہوئی تھی، اس حد تک رپورٹنگ درست ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ ججوں سے براہ راست رابطہ کرنے پر نوٹس ہوا جج سے رابطہ کرنا درست فعل نہیں۔ رپورٹر نے کہاکہ ان کی کوئی بدنیتی نہیں تھی، ماضی میں بھی ججوں سے رابطے کرنے کے ثبوت موجود ہیں۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ ماضی میں کچھ ہوا تو ہوا لیکن یہ عدالت ایک مختلف عدالت ہے۔


عدالت نے معافی مانگنے کا آپشن دیا تو رپورٹر نے کہاکہ وہ خودکو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں، جو ہوا اس پر افسوس ہے لیکن معافی نہیں مانگیںگے کیونکہ ان کی کوئی بدنیتی نہیں تھی۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ آپ پرکوئی زبردستی نہیں لیکن ہم آپ کو معاملہ ختم کرنے کا راستہ دے رہے ہیں، اس کیلیے قانون کے تحت لفظ معافی لکھنا لازمی ہے۔ معافی کا آپشن تسلیم نہ کرنے پر عدالت نے نوٹس کے جواب میں ان کا موقف مسترد کرتے ہوئے پاناما جے آئی ٹی کی نگرانی آئی ایس آئی کو دینے کی خبرکے معاملے میں بھی اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے عدالت کو بتایاکہ اخباری خبروں اورایک ٹیلی فون کال کرنے پر صحافی کے خلاف نوٹس لیا گیا۔ انھوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ طلال چوہدری، آصف کرمانی، خواجہ سعد رفیق کی تقاریر جمع کرادی گئی ہیں۔

جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ پاناما کیس میں تقریروںکو بعد میں دیکھنے کا کہاگیا تھا، شاید وقت آگیاہے ان کو سناجائے۔ عدالت میں جنگ گروپ کی خبر پڑھ کر سنائی گئی، جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ جنگ اخبار نے مستردکا لفظ غلط استعمال کیا جبکہ رپورٹر نے فاضل جج کے گھر عملے سے خبرکی تصدیق کیلیے فون کیا۔کیا رپورٹر باورچی سے خبر کی تصدیق چاہتا تھا؟

احمد نورانی کے جواب میں کہا گیاکہ ججز فون پر رپورٹرزکو ہدایات دیتے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صحافی جج کو فون کرسکتا ہے؟ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ جواب میںکہیں معافی نہیں مانگی گئی،کیا احمد نورانی غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ احمد نورانی نے کہاکہ عدالتی حکم کی تعمیل کروں گا۔

جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ آپ نے جواب میں افسوس کا اظہارکیا ہے، قانون کی زبان میں افسوس کی کوئی گنجائش نہیں، عدالت نے ہمیشہ معافی مانگنے پر لچک دکھائی ہے۔ عدالت نے مزید سماعت7 فروری تک ملتوی کردی۔

 
Load Next Story