میں تے رب کولوں منگدا او مینوں دے گا

اس قصے نے نہ صرف سب کو ہمہ تن گوش کردیا بلکہ پوری کلاس پر لرزہ بھی طاری کردیا


فائزہ یٰسین January 26, 2018
استاد محترم کی آنکھیں اس لمحے نم ہوچکی تھیں اور دل و دماغ گواہ بن چکے تھے کہ رب واقعی ویسا ہے جیسا گمان کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

PARIS: ایم فل ماس کمیونی کیشن کے ہمارےایک استادِ محترم نے ربِ کائنات پر یقین اور گمان کے بارے میں زندگی کا ایک حقیقی اور دلچسپ واقعہ سنایا کہ اس لمحے سے میں نے بدگمانی کے دروازے خود پر بند کردیئے ہیں۔

کمیونی کیشن تھیوریز پر لیکچر دیتے ہو ئے آنکھوں دیکھے حال کا جب ذکر چھڑا تو اس قصے نے نہ صرف سب کو ہمہ تن گوش کردیا بلکہ پوری کلاس پر حیرانگی و ششدر کا لرزہ بھی طاری کردیا۔

استادِ محترم خالد شیخ صاحب نے اپنے دیرینہ دوست کی زندگی کا اہم قصہ سنایا کہ ان کے صاحبِ حیثیت دوست نے زندگی کی بہت بہاریں تو تنہا گزار دیں۔ پھرزمانے کی گردش کے ساتھ ان کے دل و دماغ نے بھی گردش لے لی اور سر پر سہرا سجانے کا اٹل فیصلہ کرلیا۔ دوست صاحب اپنے دوستوں کی محفلوں میں اعلان کرنے لگے کہ وہ شادی کا لڈو کھانے کےلیے تیار ہوچکے ہیں لیکن چند شرائط پر کسی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

یاروں دوستوں نے ان شرائط کو جاننے میں گہری دلچسپی ظاہر کی تو دوست صاحب نے پُر اعتماد انداز میں فرمایا کہ لڑکی کا قد 5 فٹ 6 انچ ہونا چاہیے۔ خود دوست صاحب 7 فٹ کے قریب تھے۔ دوستوں نے عرض کیا یہ کونسی ناممکن بات ہے۔ مل جائے گی ایسی لڑکی۔ پھر دوسری شرط بیان کی کہ لڑکی ڈاکٹر ہونی چاہیے۔ دوستوں نے اس لمحے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس شرط کو بھی قابلِ عمل قرار دے دیا، جبکہ دوست صاحب خود لکھائی پڑھائی سے ناآشنا تھے۔ خیر، تیسری شرط بیان کی گئی کہ لڑکی کا رنگ گورا ہونا چاہیے۔ اس شرط کو سننے کے بعد دوستوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ شرارتیں کیں کیونکہ دوست صاحب تو سیاہی رنگت کے مالک تھے۔ دوستوں نے اس موقعے پر کہا کوئی اور بھی شرط رہ گئی ہے؟ تو دوست صاحب بولے ہاں! لڑکی کی دو کنال کی کوٹھی ہونی چاہیے۔ پتا بھی تو چلے کہ داماد کا سسرال کیسا ہے۔ اس شرط پر تمام دوستوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولے جا رے یار!۔تم تو اب بھی سنجیدہ نہیں ہو شادی کےلیے۔ دوستوں کا مضحکہ خیز ردعمل جاننے کے بعد دوست صاحب اس محفل سے اٹھ کھڑے ہو ئے اور بولے:

''میں تہاڈے کولوں تھوڑی منگدا، میں تے آودے رب کولوں منگدا، او مینوں دے گا!''

اسی گمان پر دوست صاحب کی زندگی کا پہیہ چلتا رہا اور اپنی شریکِ حیات کےلیے تلاش جاری رہی۔ گاہے گاہے جب بھی استاد محترم سے ملاقات ہوتی تو تب دوست صاحب کا اندازِ یقین پہلے سے زیادہ پختہ ہوتا: ''میں تے آودے رب کولوں منگداں، او مینوں دے گا۔''

تقریباً 8 ماہ کے بعد استاد صاحب کو دوست صاحب نے ایک ہوٹل میں آنے کی زبردست تاکید کی کہ فلاں دن، فلاں وقت تم وہاں آجانا۔ استاد محترم پہنچے اور جب دروازے سے اندار داخل ہوتے وقت اسٹیج پر نظر پڑی تو پتا چلا کہ دوست صاحب سہرا سجائے، شیروانی پہنے نشست پر براجمان ہیں، جنہوں نے استاد محترم کو دیکھتے ہی بلند آواز میں اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔

استاد محترم اسٹیج پر پہنچے تو برابر والی کرسی پر ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور بولے ''ہون سنا!'' استاد محترم مسکرائے اور شادی کی مبارکباد دینا چاہی تو دوست صاحب بولے ''ٹھہرجا! ابھی سن تو لے پوری کہانی۔'' برابر میں بیٹھی شریک حیات کو کہا کہ ذرا اٹھ کر سلام کرو میرے یار کو۔ تابعدار اہلیہ فوراً حکم بجا لائیں۔ اس لمحے دوست صاحب نے استاد محترم کے کان میں کہا: بے شک فیتہ لے کر ناپ لے، کُڑی ساڑھے پانچ فٹ کی ہے۔ پھر بولے رنگ تو دیکھ لیا اس کا۔ اب اس سے پوچھو کیا کرتی ہے اور گھر بار کیسا ہے۔ استاد محترم دوست صاحب کے ہاتھوں پھنس چکے تھے۔ انہیں بھی تابعداری کرنی پڑی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ دلہن صاحبہ لاہور کے سرکاری ہسپتال میں گائنی ڈاکٹر ہیں اور تین کنال کی کوٹھی میں رہائش پذیر تھیں جن کے والد صاحب کئی مربعوں کے مالک ہیں۔ اس دوران دوست صاحب ایک بار پھر پُراعتماد بلکہ غرور و فخر سے بھرپور لہجے میں بولے ''ہون سنا، میرے رب نے مینوں کیسا دِتّا؟''

استاد محترم کی آنکھیں اس لمحے نم ہوچکی تھیں اور دل و دماغ گواہ بن چکے تھے کہ رب واقعی ویسا ہے جیسا گمان کیا جائے، جیسا اس پر یقین کیا جائے، کیونکہ یقین سے مانگا گیا ناممکن بھی ملتا ضرور ہے۔

ہمیں یہ کہانی تو ڈرامائی انداز کی لگتی رہی۔ رونگٹے تو ہمارے بھی کھڑے ہوچکے تھے۔ ابھی جذبات قابو میں آئے ہی نہیں تھے کہ کہانی کا اختتام سن کر دل سکتے میں آگیا کہ دوست صاحب وفادار اہلیہ کے ساتھ خود بہت کم عرصہ وفا کرسکے۔ مسرت و سکون بھری زندگی کی بہاریں صرف 6 ماہ ہی دیکھ سکے اور اس کے بعد وہ اپنے اسی رب کے پاس چلے گئے جس کے بارے میں انہیں گمان تھا، یقین تھا کہ میں تے آودے رب کولوں منگداں، او مینوں دے گا۔

یہ تھا گمان اور یقین کا حقیقی سفر!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔