الیکشن 2018ء اپوزیشن کی ’’بھرپور‘‘ تیاریاں
سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کے ساتھ نورا کشتی کر رہی ہے۔
میرا پچھلا کالم ''حیران ہوں کہ جمہوریت خطرے میں کیوں پڑ جاتی ہے؟''کے حوالے سے امریکا میں میرے ایک دوست نے برملا اظہار کیا کہ '' آپ نے تو عمران خان سے بھی زیادہ پارلیمنٹ کو برا بھلا کہہ دیا۔ ایسے لگتا ہے جیسے پاکستان میں تمام برائیوں کی جڑ پارلیمنٹ اور اس سے جڑے اراکین ہیں۔''
میں چونکہ مختصر سے نجی دورے پر امریکا میں موجود ہوں تو میں نے اُسے ایک مثال دے کر سمجھانے کی حقیر سی کوشش کی کہ یہاں(امریکامیں) ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کر رہا ہے، جسے امریکیوں نے منتخب کر کے اس منصب پر بھیجا، پوری دنیا ماسوائے اسرائیل کے اسے سخت ناپسند کر رہی ہے۔ بلکہ امریکی عوام کی 72فیصد آبادی بھی ٹرمپ کی پالیسیوں سے متنفر ہورہی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ امریکا کے ''سسٹم'' میں کوئی فرق پڑا ہو،یہاں کسی نے کرپشن کرنے کا سوچا بھی ہویا اپنی ذمے داریوں سے بھاگنے کی کوشش کی ہو... ایسا اس لیے ہے کہ یہاں کے ادارے مضبوط ہیں، اداروں میں بیٹھے 99فیصد اراکین کا کرپشن سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے پاکستان میں شخصیت پرستی پروان چڑھتی ہے جس کا نقصان ہمیں اربوں ڈالر کی سالانہ کرپشن کی صورت میں اُٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان کے سیاستدان یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان میں بھوک، غربت، بے روزگاری چلتی رہنی چاہیے۔بیماری، بدامنی جاری رہنی چاہیے۔ پروٹوکول جاری رہنا چاہیے۔ملکی وسائل کی لوٹ مار جاری رہنی چاہیے۔حیدرآباد میں 150 نوکریوں کے لیے 25000 امیدوار والی روایت بھی جاری رہنی چاہیے۔ 100ارب ڈالر کا ریکارڈ جمہوری قرضہ، 17ارب ڈالر کا ریکارڈ تجارتی خسارہ، سوا 5لاکھ گریجوایٹ بے روزگار، پاکستان ان ملکوں میں چوتھے نمبر پر پہنچ چکا جن کے ڈیفالٹر ہونے کا خطرہ ہے، اسٹیل مل تا پی آئی اے جیسے ''جمہوری بھانڈے'' برائے فروخت اور پارلیمنٹ مقدس؟ایسا کیوں ہے؟ کیا جس کے گھر دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہ پارلیمنٹ اور اس کے مکینوں کو برا بھلا نہیں کہے گا؟
بہرکیف ہمارا آج کا موضوع یہ نہیں لیکن گزشتہ کالم کے حوالے سے روداد اس لیے پیش کی کہ دوستوں کو اپنے سیاستدانوں کی ''کارکردگی'' کا اندازہ ہوسکے۔ کیا اگلے پانچ سال یہی دوبارہ حکومت کرنے والے ہیں؟گزشتہ ہفتے کے مال روڈ لاہور کے شو کی بات کر لیں جتنا اس کا ہائپ تھا اس کے نزدیک بھی کچھ نہ ہوا۔
مجمع نسبتاً چھوٹا تھا، مال روڈکے شایان شان بالکل نہیں۔ دراصل لیڈران زیادہ تھے اور جب ایسا ہو تو نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے۔ اور یہ استعفوں کا جو مطالبہ اسٹیج سے آیا وہ تو بالکل ہی بے تکا تھا۔ ایسا آپشن کسی احتجاج یا تحریک کے آخر میں بروئے کار لایا جاتا ہے، جب حالات گرم ہو چکے ہوں اور بس آخری وار کی گنجائش رہ جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کے ساتھ نورا کشتی کر رہی ہے۔ ورنہ 40سے زیادہ پارٹیوں کے اجتماع میں کم از کم میں نے اتنا کم ہجوم نہیں دیکھا، ہم نے 70ء سے لے کر آج تک ہر تحریک دیکھی مگر جس بددلی کے ساتھ ہماری آج کی اپوزیشن چل رہی ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی... ہر پارٹی کا اپنا اپنا ''قبلہ '' ہے۔
قادری صاحب سب کو ایک پلیٹ فارم پر تو لے آئے مگر کوئی معذرت کے ساتھ ''برُا رونے سے چپ رہنا ہی بہتر ہوتا ہے'' ۔ کیوں کہ آج کی اپوزیشن میں سب ایک دوسرے سے بھی بدنیتی کے ساتھ آگے چل رہے ہیں۔میدان کے سارے کھلاڑی سخت کنفیوژن کا شکار ہیں۔ نواز شریف تو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیے گئے لیکن اس کے بعد کیا ہونا تھا یا کیا ہونا چاہیے تھا اس بارے ذہنوں میں کوئی نقشہ نہیں۔ نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں کارروائی چل رہی ہے، لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نتیجہ کیا ہو گا۔
اسحاق ڈار کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے اور باہر لندن میں کہیں پڑے ہیں۔ نواز شریف کے دونوں بیٹے بھی آرام سے لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں اور نواز شریف یہاں بیٹھے موقع پاتے ہی مختلف اداروں پہ تنقید کے گولے برسائے جا رہے ہیں۔اب ایسے میں اپوزیشن کا ایجنڈا کیا ہے؟ کچھ واضح نہیں، جو جماعتیں ایک اسٹیج پر اکٹھے نہ بیٹھ سکیں وہ حکومت کو ٹف ٹائم کیا دیں گی؟
آج جب 2018ء کا الیکشن سر پر آن کھڑا ہے تو ایسے میں اتحاد کا یہ عالم ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک صدرآصف علی زرداری اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کر رہے، دونوں سولو فلائنگ کی کوشش کر رہے ہیں، ایک دوسرے کی موجودگی کسی صورت برداشت نہیں ہورہی، سابق صدر زرداری فرما رہے ہیں کہ ''میں جب چاہوں حکومت کو نکال سکتا ہوں۔'' زرداری صاحب ایسا کب چاہیں گے؟
کسی کو معلوم نہیں، اُن کے نزدیک اگلا وزیراعظم ان کا بیٹا بلاول ہوگا۔جب کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں سب سے آگے دکھائی دے رہے ہیں، انھیں فی الحال یہ تک علم نہیں کہ اُن کی پارٹی اندرونی طور پر کس قدر خلفشار کا شکار ہے۔ ایک عرصے سے پارٹی کے اندر الیکشن بھی نہیں ہوئے، تنظیمی مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ عمران خان خود پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
رہی بات متحدہ مجلس عمل(نئی) اور جماعت اسلامی جیسی دیگر دوسری جماعتوں کی تو کسی کے پاس مقاصد نہیں ہیں، نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ مستقبل میں اُسے کیا کرنا ہے؟ حکومت کو ٹف ٹائم کیسے دینا ہے؟ لہٰذااس قسم کی ''بھرپور'' تیاری میں تو 2018ء کا الیکشن تو دور کی بات 2023ء کے الیکشن کی تیاری بھی نہیں کی جا سکتی... میرے خیال میں پاکستان کو اگر بچانا ہے تو مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ لیکن فی الحال عوام کی امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں کیوں کہ انھیں یہ علم ہو چکا ہے کہ شاید'' ان تلوں میں تیل نہیں ''!