پھر وہی کالا بچھو وہ بھی بیس گرام
سب کچھ وہی پرانا چل رہا تھا تاریخ اور تجارت دونوں اپنے آپ کو دہراتی ہیں۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تیری رہگزر کو میں
ہمیں رقیب کے در پر تو نہیں جانا پڑا لیکن ہم نے ایک طرح سے اپنا رقیب خود پیدا کرلیا اوروہ بھی علامہ بریانی عرف برڈ فلو جیسا گرگ باراں دیدہ سر دو گرم چشیدہ اور عملیات گزیدہ ۔ بلکہ بقول چشم گل چشم عرف سوائن فلو ماہر امراض پوشیدہ و پیچیدہ۔ہم ایک مرتبہ پہلے بھی اس سے مار کھا چکے ہیں جب ہمارا دل کنڈولیزا رائس کی زلف ناگرہ گیر بلکہ قینچی گیر میں اٹک گیا تھا اور ہم حافظ شیراز کے مقرر کردہ نرخ پر ساری دنیا اس پر وار دینے کو تیار تھے۔
حافظ شیرازی نے اپنے زمانے کی ایک ترک شیرازی کے صرف ایک '' خال ہندوش '' پر سمر قندو بخارا وار دیے تھے جس پر اسے تیمور سے ڈانٹ بھی سننا پڑی تھی۔اگر اس حساب سے صرف ایک''تل'' کی قیمت سمرقند وبخارا ہوسکتے ہیں تو ہماری آبنوسی حسینہ تو سر سے پیر تک ''ہندوش'' تھی دانتوں کو چھوڑ کر ۔ چنانچہ دنیا کے سارے شہر شاید کم بھی پڑ جاتے ۔لیکن ہر طرف سے مجبور ہو کر جب ہم نے علامہ کے مشہور معروف '' تعویذ حب'' کا سہارا لینا چاہا تو ایسی مار کھا گئے کہ مہینوں تک اپنے دل اور جیب کی چوٹیں سینکتے رہے ۔ لیکن یہ ہمارا پاگل دل بھی تو اپنی جگہ ایک پورا فتنہ ہے ۔
میں اور اک آفت کا ٹکڑا یہ دل وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اورآوارگی کا آشنا
جس طرح '' کرمے '' نامی دوست دنیا جہاں کی بلائیں لاکر فتح خان کے سرمنڈھ دیتا ہے اسی طرح ہمارا یہ پاگل دل بھی کبھی آرام سے نہیں بیٹھتا ۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر اس نے ہمیں بھٹکا دیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بڑی مصیبت میں پھنسا دیا ۔ کنڈولیزا رائس تو پھر بھی امریکا میں تھی جہاں پہنچنا اگرچہ دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اگر ہم '' نومن تیل '' کا بندوبست کر پاتے تو اس'' رادھا '' تک پہنچ بھی سکتے تھے لیکن اب کے اس کم بخت نے ایک ایسی جگہ ہمیں پھنسا دیا ہے کہ پشتو ٹپہ ہی گا سکتے ہیں کہ
زڑہ مے پہ داسے زائے کے بائیلو شو
چہ د کوہ قاف دغرہ نہ ئے دنگ دی دیوالونہ
یعنی میرا دل ایسی جگہ پھنس گیا جہاں کی دیواریں کوہ قاف سے اونچی ہیں بلکہ ایک اور ٹپہ بھی ہمیں یاد آرہا ہے عاشقی میں شاید حافظہ تیز ہو جاتا ہے سنا ہے چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے ۔ اس دوسرے ٹپے کے مطابق '' گھر تو تیرا نزدیک ہے لیکن کوچہ بہت دور ہے پہنچتے پہنچتے صبح ہو جاتی ہے آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ معاملہ یہیں پڑوس میں صرف واہگہ کے پار کا ہے اور اگر ہم ہوائی سفر کے متحمل ہو سکیں گے تو لاہور سے دہلی ایک گھنٹہ پندرہ منٹ کی مسافت پر ہے لیکن راستے میں رقیبوں کے پہرے اتنے سخت ہیں کہ اگر ہم کبوتر بھی بھیجنا چاہیں تو نہیں بھیج سکتے کیونکہ سنا ہے وہاں کبوتروں پر بھی سخت پابندی ہے ۔
نام اس کا ہم نہیں بتائیں گے کیونکہ ہم پہلے ہی رقیبوں کی کثرت کے مارے ہوئے ہیں اور ان کی تعداد میں اور زیادہ اضافہ نہیں کر سکتے ہا ں نشانیاں بتا سکتے ہیں لیکن نشانی تو وہی ہے جو ہماری بلکہ حافظ شیرازی کی بھی کمزوری تھی یعنی سیاہ پسند ی گویا
اپنے پردیسی کی یہی ہے نشانی
اکھیاں بلور کی شیشے کی جوانی
شیشہ ڈارک بھی تو ہوتا ہے اور سنگ مر مر کی بھی ایک قسم سیاہ ہوتی ہے دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ بھی کنڈولیزا کی طرح آج کل دنیا پر چھائی ہوئی ہے بس اس سے زیادہ نہیں۔مجبوری تھی اس لیے ایک مرتبہ پھر رقیب نہ سہی علامہ کے در پر جانا پڑا کیونکہ آج کل اس نے جو نیا '' تعویذ حُبّ'''' ڈرون '' کے نام سے لانچ کیا ہوا ہے اس کے بہت چرچے سننے میں آرہے ہیں بلکہ '' ڈرون '' کے ساتھ دلچسپی ہمیں ایک اور وجہ سے بھی ہے ہم سے اپنے پسندیدہ خان صاحب کی تنہائیاں دیکھی نہیں جا سکتیں کتنے افسوس کا مقام ہے کہ وہ تو پورے پاکستان کو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان بے حس پاکستانیوں کو دیکھیے کہ انھیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ پشتو کہاوت کے مطابق وہ ایک ''پر'' والا ہو کر بھی ان کے لیے اڑان بھر رہے ہیں۔یہ ہم نے ایک ' ' انصاف دار '' سے کہا بھی کہ تم کیسے انصاف دار ہو کہ اپنے منصف اعظم کے لیے ایک '' نصف '' تک تلاش نہیں کر سکتے یا اس کے نصف کو مکمل نہیں کر سکتے ۔ ویسے بھی انصاف ہو یا کچھ بھی اچھا ہو تو اس کی ابتدا اپنے گھر سے ہونی چاہیے ۔
خیر ان کے '' سوکھے دھانوں '' میں تو کچھ پانی کے چھینٹے پڑتے ہوئے سنتے ہیں کہ شاید جانب لندن سے ''بادل '' اٹھ کر جل تھل کر دے ۔ لیکن اپنا مسٔلہ بھی تو کوئی کم گھمبیر نہیں ہے ۔علامہ نے ہماری استدعا پر ایک مرتبہ پھر وہی کیا جو پہلے والے '' تھری ناٹ تھری '' تعویذ لکھنے کے موقع پر کیا تھا ۔ کہ اب میں اتنا بھی بے مروت نہیں ہوا ہوں کہ تم سے ہدیہ یا شکرانہ وصول کروں ؟ پہلے بھی ایسا کہہ کر ہم سے اس نے جو '' سامان مہیا '' کرنے کو کہا تھا وہ دس بار شکرانے سے زیادہ تھا لیکن وہی بات کہ '' گور'' مشکل ہے لیکن مردے کی تو مجبوری ہوتی ہے اور عاشق بھی تقریباً مردہ ہی ہوتا ہے۔
سب کچھ وہی پرانا چل رہا تھا تاریخ اور تجارت دونوں اپنے آپ کو دہراتی ہیں۔ بولے تعویذ میں '' للّٰہ فی اللہ '' لکھ دوں گا تم صرف ضروری سامان لاکر مجھے دو ۔عرض کیا کہ باقی سامان تو میں لادوں گا لیکن بچھوؤں کا ملنا ذرا مشکل ہوگا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے کراچی سے جو ''بچھو کش'' ہوا چلی تھی،اس کی وجہ سے عام قبروں میں تو کیا پٹواریوں، تھانیداروں اور دکانداروں کی قبروں میں بھی بچھو نا پید ہو گئے۔
علامہ بولے تمہیں بچھو لانا بھی نہیں ہے میرا مطلب ہے یہ عام کیٹگری کے بچھو جو مذکورہ لوگوں کی قبروں میں پائے جاتے ہیں تھری ناٹ تھری کے لیے درکار ہوتے تھے اور یہ '' ڈرون '' ہے اس کے لیے بچھو بھی خصوصی لانا ہوں گے کم از کم بیس گرام کے سات بچھو درکار ہوں گے۔ لازم تھا ہمارے دل کا بیٹھ جانا۔ بیس گرام کے بچھو وہ بھی پورے سات عدد ہمیں اپنے قریب ہونے کا اشارہ کرکے خود بھی ناقابل برداشت حد تک اپنا منہ ہمارے قریب لاکر بولے ۔ غم نہ کرو میں ہوں نا ۔ عام بچھو ختم ہو گئے ہوں گے لیکن یہ خاص بچھو جن مقامات پر پائے جاتے ہیں ان کو میں نے صیغہ راز میں رکھا ہوا ہے اور صرف اپنے انتہائی قریبی لوگوں کو بتاتا ہوں لیکن اس نے جن مقامات کی نشاندہی کی وہ پہلے سے بھی مشکل تھے' ٹھیک ہے کہ جو قبریں اس نے بتائی تھیں ان میں بیس گرام تو کیا پچاس گرام بلکہ اس سے بھی اوپر کلو کلو تک کے بچھو ہو سکتے تھے جو جسامت میں کچھوے سے بھی بڑے ہو سکتے ہیں لیکن بڑے اور خاص الخاص نسل کے ان بچھوؤں کی رہائش گاہوں تک پہنچنا کم از کم ہمارے لیے تو ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ ایسی قبریں ساری کی ساری پختہ ہوتی ہیں بلکہ ارد گرد زمین بھی کافی حد تک کنکریٹ کی ہوں گی۔
آپ خود ہی انصاف کیجیے ہم ایسی قبر کہاں تلاش کرتے جو کسی نامی گرامی لیڈر کی ہو جو ٹھیکیدار بھی رہا ہو وزیر بھی رہا ہو اور اپنے پیچھے سیاسی خاندان بھی چھوڑ گیا ہو۔ اب ہمیں صرف صبر کی ایک کالی سل تلاش کرنا ہے جسے اپنے دل پر رکھ سکیں۔
اے کاش جانتا نہ تیری رہگزر کو میں
ہمیں رقیب کے در پر تو نہیں جانا پڑا لیکن ہم نے ایک طرح سے اپنا رقیب خود پیدا کرلیا اوروہ بھی علامہ بریانی عرف برڈ فلو جیسا گرگ باراں دیدہ سر دو گرم چشیدہ اور عملیات گزیدہ ۔ بلکہ بقول چشم گل چشم عرف سوائن فلو ماہر امراض پوشیدہ و پیچیدہ۔ہم ایک مرتبہ پہلے بھی اس سے مار کھا چکے ہیں جب ہمارا دل کنڈولیزا رائس کی زلف ناگرہ گیر بلکہ قینچی گیر میں اٹک گیا تھا اور ہم حافظ شیراز کے مقرر کردہ نرخ پر ساری دنیا اس پر وار دینے کو تیار تھے۔
حافظ شیرازی نے اپنے زمانے کی ایک ترک شیرازی کے صرف ایک '' خال ہندوش '' پر سمر قندو بخارا وار دیے تھے جس پر اسے تیمور سے ڈانٹ بھی سننا پڑی تھی۔اگر اس حساب سے صرف ایک''تل'' کی قیمت سمرقند وبخارا ہوسکتے ہیں تو ہماری آبنوسی حسینہ تو سر سے پیر تک ''ہندوش'' تھی دانتوں کو چھوڑ کر ۔ چنانچہ دنیا کے سارے شہر شاید کم بھی پڑ جاتے ۔لیکن ہر طرف سے مجبور ہو کر جب ہم نے علامہ کے مشہور معروف '' تعویذ حب'' کا سہارا لینا چاہا تو ایسی مار کھا گئے کہ مہینوں تک اپنے دل اور جیب کی چوٹیں سینکتے رہے ۔ لیکن یہ ہمارا پاگل دل بھی تو اپنی جگہ ایک پورا فتنہ ہے ۔
میں اور اک آفت کا ٹکڑا یہ دل وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اورآوارگی کا آشنا
جس طرح '' کرمے '' نامی دوست دنیا جہاں کی بلائیں لاکر فتح خان کے سرمنڈھ دیتا ہے اسی طرح ہمارا یہ پاگل دل بھی کبھی آرام سے نہیں بیٹھتا ۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر اس نے ہمیں بھٹکا دیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بڑی مصیبت میں پھنسا دیا ۔ کنڈولیزا رائس تو پھر بھی امریکا میں تھی جہاں پہنچنا اگرچہ دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اگر ہم '' نومن تیل '' کا بندوبست کر پاتے تو اس'' رادھا '' تک پہنچ بھی سکتے تھے لیکن اب کے اس کم بخت نے ایک ایسی جگہ ہمیں پھنسا دیا ہے کہ پشتو ٹپہ ہی گا سکتے ہیں کہ
زڑہ مے پہ داسے زائے کے بائیلو شو
چہ د کوہ قاف دغرہ نہ ئے دنگ دی دیوالونہ
یعنی میرا دل ایسی جگہ پھنس گیا جہاں کی دیواریں کوہ قاف سے اونچی ہیں بلکہ ایک اور ٹپہ بھی ہمیں یاد آرہا ہے عاشقی میں شاید حافظہ تیز ہو جاتا ہے سنا ہے چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے ۔ اس دوسرے ٹپے کے مطابق '' گھر تو تیرا نزدیک ہے لیکن کوچہ بہت دور ہے پہنچتے پہنچتے صبح ہو جاتی ہے آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ معاملہ یہیں پڑوس میں صرف واہگہ کے پار کا ہے اور اگر ہم ہوائی سفر کے متحمل ہو سکیں گے تو لاہور سے دہلی ایک گھنٹہ پندرہ منٹ کی مسافت پر ہے لیکن راستے میں رقیبوں کے پہرے اتنے سخت ہیں کہ اگر ہم کبوتر بھی بھیجنا چاہیں تو نہیں بھیج سکتے کیونکہ سنا ہے وہاں کبوتروں پر بھی سخت پابندی ہے ۔
نام اس کا ہم نہیں بتائیں گے کیونکہ ہم پہلے ہی رقیبوں کی کثرت کے مارے ہوئے ہیں اور ان کی تعداد میں اور زیادہ اضافہ نہیں کر سکتے ہا ں نشانیاں بتا سکتے ہیں لیکن نشانی تو وہی ہے جو ہماری بلکہ حافظ شیرازی کی بھی کمزوری تھی یعنی سیاہ پسند ی گویا
اپنے پردیسی کی یہی ہے نشانی
اکھیاں بلور کی شیشے کی جوانی
شیشہ ڈارک بھی تو ہوتا ہے اور سنگ مر مر کی بھی ایک قسم سیاہ ہوتی ہے دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ بھی کنڈولیزا کی طرح آج کل دنیا پر چھائی ہوئی ہے بس اس سے زیادہ نہیں۔مجبوری تھی اس لیے ایک مرتبہ پھر رقیب نہ سہی علامہ کے در پر جانا پڑا کیونکہ آج کل اس نے جو نیا '' تعویذ حُبّ'''' ڈرون '' کے نام سے لانچ کیا ہوا ہے اس کے بہت چرچے سننے میں آرہے ہیں بلکہ '' ڈرون '' کے ساتھ دلچسپی ہمیں ایک اور وجہ سے بھی ہے ہم سے اپنے پسندیدہ خان صاحب کی تنہائیاں دیکھی نہیں جا سکتیں کتنے افسوس کا مقام ہے کہ وہ تو پورے پاکستان کو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان بے حس پاکستانیوں کو دیکھیے کہ انھیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ پشتو کہاوت کے مطابق وہ ایک ''پر'' والا ہو کر بھی ان کے لیے اڑان بھر رہے ہیں۔یہ ہم نے ایک ' ' انصاف دار '' سے کہا بھی کہ تم کیسے انصاف دار ہو کہ اپنے منصف اعظم کے لیے ایک '' نصف '' تک تلاش نہیں کر سکتے یا اس کے نصف کو مکمل نہیں کر سکتے ۔ ویسے بھی انصاف ہو یا کچھ بھی اچھا ہو تو اس کی ابتدا اپنے گھر سے ہونی چاہیے ۔
خیر ان کے '' سوکھے دھانوں '' میں تو کچھ پانی کے چھینٹے پڑتے ہوئے سنتے ہیں کہ شاید جانب لندن سے ''بادل '' اٹھ کر جل تھل کر دے ۔ لیکن اپنا مسٔلہ بھی تو کوئی کم گھمبیر نہیں ہے ۔علامہ نے ہماری استدعا پر ایک مرتبہ پھر وہی کیا جو پہلے والے '' تھری ناٹ تھری '' تعویذ لکھنے کے موقع پر کیا تھا ۔ کہ اب میں اتنا بھی بے مروت نہیں ہوا ہوں کہ تم سے ہدیہ یا شکرانہ وصول کروں ؟ پہلے بھی ایسا کہہ کر ہم سے اس نے جو '' سامان مہیا '' کرنے کو کہا تھا وہ دس بار شکرانے سے زیادہ تھا لیکن وہی بات کہ '' گور'' مشکل ہے لیکن مردے کی تو مجبوری ہوتی ہے اور عاشق بھی تقریباً مردہ ہی ہوتا ہے۔
سب کچھ وہی پرانا چل رہا تھا تاریخ اور تجارت دونوں اپنے آپ کو دہراتی ہیں۔ بولے تعویذ میں '' للّٰہ فی اللہ '' لکھ دوں گا تم صرف ضروری سامان لاکر مجھے دو ۔عرض کیا کہ باقی سامان تو میں لادوں گا لیکن بچھوؤں کا ملنا ذرا مشکل ہوگا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے کراچی سے جو ''بچھو کش'' ہوا چلی تھی،اس کی وجہ سے عام قبروں میں تو کیا پٹواریوں، تھانیداروں اور دکانداروں کی قبروں میں بھی بچھو نا پید ہو گئے۔
علامہ بولے تمہیں بچھو لانا بھی نہیں ہے میرا مطلب ہے یہ عام کیٹگری کے بچھو جو مذکورہ لوگوں کی قبروں میں پائے جاتے ہیں تھری ناٹ تھری کے لیے درکار ہوتے تھے اور یہ '' ڈرون '' ہے اس کے لیے بچھو بھی خصوصی لانا ہوں گے کم از کم بیس گرام کے سات بچھو درکار ہوں گے۔ لازم تھا ہمارے دل کا بیٹھ جانا۔ بیس گرام کے بچھو وہ بھی پورے سات عدد ہمیں اپنے قریب ہونے کا اشارہ کرکے خود بھی ناقابل برداشت حد تک اپنا منہ ہمارے قریب لاکر بولے ۔ غم نہ کرو میں ہوں نا ۔ عام بچھو ختم ہو گئے ہوں گے لیکن یہ خاص بچھو جن مقامات پر پائے جاتے ہیں ان کو میں نے صیغہ راز میں رکھا ہوا ہے اور صرف اپنے انتہائی قریبی لوگوں کو بتاتا ہوں لیکن اس نے جن مقامات کی نشاندہی کی وہ پہلے سے بھی مشکل تھے' ٹھیک ہے کہ جو قبریں اس نے بتائی تھیں ان میں بیس گرام تو کیا پچاس گرام بلکہ اس سے بھی اوپر کلو کلو تک کے بچھو ہو سکتے تھے جو جسامت میں کچھوے سے بھی بڑے ہو سکتے ہیں لیکن بڑے اور خاص الخاص نسل کے ان بچھوؤں کی رہائش گاہوں تک پہنچنا کم از کم ہمارے لیے تو ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ ایسی قبریں ساری کی ساری پختہ ہوتی ہیں بلکہ ارد گرد زمین بھی کافی حد تک کنکریٹ کی ہوں گی۔
آپ خود ہی انصاف کیجیے ہم ایسی قبر کہاں تلاش کرتے جو کسی نامی گرامی لیڈر کی ہو جو ٹھیکیدار بھی رہا ہو وزیر بھی رہا ہو اور اپنے پیچھے سیاسی خاندان بھی چھوڑ گیا ہو۔ اب ہمیں صرف صبر کی ایک کالی سل تلاش کرنا ہے جسے اپنے دل پر رکھ سکیں۔