عاشقان جمہوریت

کیا عوامی دولت کے لٹیرے قابل احترام ہوتے ہیں؟

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

آج کا سب سے گرما گرم موضوع پارلیمنٹ ہے حزب اقتدار اور حزب اختلاف پارلیمنٹ کی بے حرمتی کے خلاف لنگر لنگوٹ کس کر جمہوریت کے میدان میں ڈنڈ پیلتے نظر آرہے ہیں ۔ اس صورت حال کی وجہ عمران خان اور شیخ رشید کا وہ سخت لب و لہجہ ہے دونوں حضرات نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کی بات کرکے بجا طور پر جمہوریت کے عاشقین کو آسمان سر پر اٹھانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔

ہم ٹی وی کم ہی دیکھتے ہیں لیکن اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ جس دن عمران خان اور شیخ رشید قادری صاحب کی تحریک کے آغاز پر تقریر کر رہے تھے ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے عمران خان اور شیخ رشید ویسے تو جذباتی مقررین مانے جاتے ہیں لیکن 17 جنوری کو کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہے تھے اور اسی جذباتی فضا میں ان دونوں حضرات نے ہماری پارلیمنٹ کے خلاف گستاخی کرتے ہوئے پارلیمنٹ پر زوردار آواز میں لعنت بھیجنے کے اخلاقی اور پارلیمانی جرم کا ارتکاب کیا۔

اس جرأت رندانہ پر عاشقان جمہوریت کا مشتعل ہونا فطری تھا۔ سو یہ محترمین کچھ زیادہ ہی غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ حکمرانوں اور اپوزیشن کے اس مشترکہ جلال کے سامنے عمران خان اور شیخ رشید اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی طلب کریں گے لیکن دنیا حیران ہے کہ ایسا کرنے کے بجائے یہ فرما رہے ہیں کہ ہم تو لعنت سے بڑا لفظ استعمال کرنا چاہتے تھے شکر کرو کہ ہم نے لعنت جیسا چھوٹا لفظ استعمال کیا۔

یہ ایک شدید رویہ ہے لیکن ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اس رویہ کے پیچھے کون سی طاقت کارفرما ہے، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس انداز جرات کے پیچھے حق اور سچ کی طاقت ہے لیکن یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ اس گستاخی کے پیچھے سچ سے ملتی جلتی کوئی طاقت ضرور ہے۔

ساری دنیا میں جمہوریت کو نہ صرف ایک ترقی یافتہ سیاسی نظام مانا جاتا ہے بلکہ اس نظام کو عوام کا نمایندہ نظام مانا جاتا ہے اور اسی حوالے سے پارلیمنٹ کو بھی ایک مقدس ادارہ مانا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری پارلیمنٹ عوام کا نمایندہ ادارہ ہے؟

جب ہم عوام کی بات کرتے ہیں تو عوام سے مراد ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہوتے ہیں دیہی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ کسان اور ہاری ہوتے ہیں اہل قلم ہوتے ہیں، اہل دانش ہوتے ہیں، وکلا ہوتے ہیں، ڈاکٹر ہوتے ہیں، انجینئر ہوتے ہیں، صحافی ہوتے ہیں، ادیب ہوتے ہیں، شاعر ہوتے ہیں، فنکار ہوتے ہیں، چھوٹے تاجر اور کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔ کیا ان طبقات کا ایک نمایندہ حقیقی نمایندہ ہماری پارلیمنٹ میں ہے۔ یہ آج کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ پچھلے 70 سال سے ان عوام کا ایک بھی حقیقی نمایندہ پارلیمنٹ میں رہا ہے؟

اس کا جواب نفی مکمل نفی میں ہے تو پھرکون لوگ پارلیمنٹ میں رہتے ہیں؟ ہماری جمہوریت کو نیابتی جمہوریت کہا جاتا ہے اور اس نیابتی جمہوریت میں نہ صرف پارلیمنٹ میں بلکہ صوبائی اورمرکزی حکومتوں میں بھی اشرافیہ یعنی جاگیردار صنعتکار سرمایہ دار اور ان کے ہمنوا ہی موجود رہے ہیں کیا ایسی پارلیمنٹ کو عوامی اور جمہوری کہا جاسکتا ہے۔


کیا عوامی دولت کے لٹیرے قابل احترام ہوتے ہیں؟ کیا اس لٹیری کلاس پر مشتمل اداروں کو قابل احترام ادارے مانا جاسکتا ہے؟ پارلیمنٹ محض اینٹ گارے سے بنی ہوئی عمارت یا ادارے کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس میں موجود عوامی نمایندوں کا نام ہوتا ہے اگر عوامی نمایندے چور لٹیرے ہوں تو یہ ادارہ یعنی پارلیمنٹ قابل احترام رہتی ہے؟

عمران خان کہہ رہا ہے پارلیمنٹ میں جرائم پیشہ لوگ موجود ہیں۔ منی لانڈرنگ کرنے والے ہیں، کرپشن کا ارتکاب کرنے والے ہیں وہ بھی اربوں کھربوں کی، عمران خان سوال کر رہا ہے پارلیمنٹ جب 3 بلین کی منی لانڈرنگ کرنے والے ٹیکس چور اور فراڈ کرنے والے اور سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے والے شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کے لیے قانون سازی کرے تو کیا پارلیمنٹ کا تقدس بحال رہ سکتا ہے کیا ایسے ادارے پر لعنت بھیجنا غلط ہے؟

عمران خان ایک جذباتی اور بغیر لگی لپٹی کہہ دینے والا سیاستدان ہے ایسے سیاست دان کو کون پسند کرے گا۔ لیکن جب عمران خان یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ایک وزیر خارجہ کو دبئی کی ایک فرم میں لاکھوں روپے تنخواہ کے عوض ملازمت کرنا چاہیے؟ جب عمران خان سوال کرتا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو وزیر اعظم رہتے ہوئے اپنے سگے بیٹے کی بیرون ملک کمپنی میں ملازمت کرنا چاہیے خواہ وہ ملازمت بلا تنخواہ ہی کیوں نہ ہو جمہوری قدروں کے مطابق ہے؟

جب وہ سوال کرتا ہے کہ کیا ایک ملک کا وزیر اعظم اپنی بیٹی کے اکاؤنٹ میں 80 کروڑ وقت واحد میں ٹرانسفر کرسکتا ہے؟ جب وہ سوال کرتا ہے کہ ایک ملک کے وزیر اعظم اس کے بیٹوں بیٹیوں داماد پر اربوں کی کرپشن میں مقدمات زیر سماعت کیوں ہیں؟ جب وہ سوال کرتا ہے کہ 2014 میں 14 بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے اور سیکڑوں بے گناہوں کو زخمی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ جب وہ سوال کرتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کے بے گناہوں پر گولی چلانے کا حکم کس نے دیا؟

جب وہ سوال کرتا ہے کہ محترم وزرا وغیرہ نے غیر ملکوں میں اقامے کیوں لے رکھے ہیں؟ جب وہ سوال کرتا ہے کہ ڈرائیور پنوں نے 5 کروڑ ایک شخص کو کیسے بھجوائے؟جب وہ سوال کرتا ہے کہ وزیر اعظم کے ایک ڈرائیور نے 18 کروڑ کی بھاری رقم کیسے بھجوائی؟ جب وہ سوال کرتا ہے کہ کیا ایک وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر جھوٹ بولنا چاہیے؟ جب وہ سوال کرتا ہے کہ قوم کے 300 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کس نے کی؟ تو ان سوالوں کے جواب کیا جمہوریت میں تلاش کیے جاسکتے ہیں؟ کیا ان سوالوں کے جواب پارلیمنٹ کو دینا چاہیے؟

مسئلہ صرف آج کا نہیں بلکہ 70 سالوں سے جمہوریت کو نوچ کر کھانے والوں کا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمارے قانون ساز اداروں میں 70 سالوں کے دوران کروڑوں مزدوروں کا ایک بھی حقیقی نمایندہ موجود رہا ہے؟ کیا 70 سالوں کے دوران دیہی آبادی کے 60 فیصد سے زیادہ کسانوں کا ایک بھی حقیقی نمایندہ پارلیمنٹ میں رہا ہے۔ کیا 70 سالوں کے دوران وکیلوں ڈاکٹروں صحافیوں ادیبوں شاعروں فنکاروں کے نمایندے پارلیمنٹ میں رہے ہیں؟ اگر نہیں رہے تو پھر کیا پارلیمنٹ کو تقدس کا درجہ حاصل رہے گا؟

حضرت ابراہیم ؑ نے مقدس کعبہ کی بنیاد رکھی اس مقدس کعبہ کو بدبختوں نے بتوں کی آماجگاہ بنا کر اس کی بے حرمتی کی۔ یوں کعبہ کو بے توقیر بنادیا گیا جب حضور اکرمؐ تشریف لائے تو انھوں نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا، بتوں کو کعبے سے نکال کر کعبہ کا احترام بحال کیا۔ جب تک کعبہ بت خانہ بنا رہا اس کا اصل احترام نہ رہا، کیا پارلیمنٹ کو بے ایمانوں کرپٹ لوگوں سے خالی کیے بغیر محترم بنایا جاسکتا ہے؟ عمران خان سے دشمنی اس کی بے عزتی اس کے خلاف پروپیگنڈہ کا طوفان اٹھانے کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو بتوں سے پاک کرکے 70 سالہ روایتی اشرافیائی سیاست کے لیے خطرہ بن رہا ہے؟
Load Next Story