عدلیہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے سندھ اسمبلی
منتخب نمائندئوں سے قانون سازی کا حق چھینا جارہا ہے، چیف جسٹس
ISLAMABAD:
سندھ اسمبلی میں منگل کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر زبردست تنقید کی گئی جس کے تحت قانون توہین عدالت کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے وزرا نے نکتہ اعتراض پر خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور عوام کے منتخب نمائندوں سے قانون سازی کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستان کا آئین توڑنے میں مدد کی اور پھر از خود معافی مانگ لی ، ہمیں یہ معافی قبول نہیں ، انھیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور وہاں آکر وہ معافی مانگیں، شرجیل میمن نے ایوان سے سوال کیا کہ کیا افتخار چوہدری کی ازخود معافی قبول ہے تو ارکان نے باآواز بلند کہا ''نہیں ، نہیں''۔
شرجیل میمن نے پھر ایوان سے پوچھا کہ افتخار چوہدری نے آئین توڑا ہے تو کیا کٹہرے میں لایا جائے ؟ اس پر پھر ارکان نے باآواز بلند کہا ''ہاں، ہاں لایا جائے '' ، سینئر وزیر پیر مظہرالحق نے کہا کہ کچھ لوگوں کو اگر قانون سازی کرنے کا شوق ہے تو وہ الیکشن لڑیں اور پارلیمنٹ میں آئیں ، صوبائی وزیر رفیق انجینئر نے کہا کہ عدلیہ اپنے دائرے میں رہ کرکام کرے ، عدلیہ اگر غلط فیصلے کرے گی تو عوام اس کیخلاف اٹھ کھڑے ہوںگےْ
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے نکتہ اعتراض پربات کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف نے سندھ اسمبلی کو تالے لگوائے تھے اور اب ایک اور حلقہ پاکستان کی تمام اسمبلیوں کو تالے لگوانا چاہتا ہے، انھوں نے کہا کہ ہم سے قانون سازی کا حق کوئی نہیں چھین سکتا ، ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں، پی سی او کے تحت نہیں آئے۔
انھوں نے کہا کہ جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی ہے اس پر عدالتوں کے ذریعے شب خون مارا جاتا ہے یا جوڈیشل مارشل لا لگایا جاتا ہے ، پیپلز پارٹی کو آج تک عدلیہ سے انصاف نہیں ملا، نواز شریف عدالتوں میں گئے تو انھیں انصاف مل گیا، شرجیل میمن نے کہا کہ میں بھی پارلیمنٹ کی ہی بات کر رہا ہوں ،جب ڈکٹیٹر کی دھاندلی والی اسمبلی تھی تو اس نے ایل ایف او پاس کیا اس کی 17 ویں ترمیم کی ان ہی ججوں نے توثیق کی، ان ہی ججوں نے پرویز مشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی، کیا یہ اقدام آئین توڑنے کے مترادف نہیں ہے اور کیا اس اقدام پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا نہیں ملنی چاہیے ؟۔
انھوں نے کہا کہ میں کسی کی تضحیک نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی کا تمسخر اڑائوں گا ، اگر میں غلط بات کر رہا ہوں تو مجھے عدالتیں بلائیں ، چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پاکستان کے آئین کو توڑنے میں مدد کی، پھر ازخود معافی مانگی ، اس طرح کی معافی کسی عام شہری کو تو نہیں ملتی ، میں پاکستان کا ایک عام شہری ہوں ، میں نے انھیں معاف نہیں کیا ہے، احتساب ہوگا تو سب کا ہوگا ، اگر پیپلز پارٹی کا احتساب ہوگا تو پھر دوسری جماعتوں کا احتساب ہوگا اور ججوں کا بھی احتساب ہوگا۔
شرجیل میمن نے ایوان کو ایک اخباری تراشہ دکھایا اور کہا کہ یہ خبر چھپی تھی کہ سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف انکوائری بند کرادی ، اس پر ایوان میں شیم شیم کے نعرے لگائے گئے ، شرجیل میمن نے کہا کہ اگر یہ خبر غلط ہے تو اخبار کو بند کردیا جائے، یہ انکوائری بند کرانے کا یہ جواز پیش کیاگیا کہ ارسلان افتخار عزت دار فیملی سے تعلق رکھتا ہے ،کیا دوسرے لوگ عزت دار نہیں ہوتے، سینئر وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے کہا کہ یہ جوکچھ کیا جا رہا ہے ، اس کے بجائے صاف کہہ دیا جائے کہ ہمیں جمہوریت نہیں چاہیے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھائی نے ملک میں ممکنہ سنگین حالات کی نشاندہی کی ہے، مجھے خدشہ ہے کہ ان کی شروعات کی جا رہی ہے، الطاف حسین کی یہ بات بجا ہے کہ ہم سب کو ایک ہو کر اس سازش کو ناکام بنانا ہے ، آج 1971ء والی صورت حال ہے، 1971ء میں بھی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نہیں مانا گیا تھا اور آج بھی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نہیں مانا جا رہا، ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر سید سردار احمد نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا پورا اختیار حاصل ہے۔
الطاف حسین نے کل واضح طور پر کہا تھا کہ ملک سنگین حالات سے گزر رہا ہے ، پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات درپیش ہیں، لہٰذا اداروں کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہیے، انھوں نے کہا کہ بالادستی نہ پارلیمنٹ کی ہے اور نہ ہی عدلیہ کی ، بالادستی صرف آئین کو حاصل ہے ،صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ یہ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے ، انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا بیٹا کاروبار کرتا ہے اور کاروباری ایڈریس چیف جسٹس ہائوس کا دیتا ہے، کیا میں اپنے کاروبار کا ایڈریس سندھ اسمبلی یا چیف منسٹر ہائوس دے سکتا ہوں ؟، جو لوگ الٹا ہم سیسوال کر رہے ہیں وہ ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔
اسپیکرنثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ریاست کے تین ستون مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں، باقی دوستون مقننہ کو جواب دہ ہیں ، اس میں کوئی بحث نہیں ہے کہ کون سا ادارہ بالادست ہے، صوبائی وزیر رفیق انجینئر نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل66 ہم منتخب نمائندوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ ہم اسمبلی میں کوئی بھی بات کرسکتے ہیں اور ہماری بات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، ، عدلیہ کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
اسپیکر نثار احمد کھوڑو نے ایوان کا آرٹیکل66 پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ارکان اسمبلی جو بات اسمبلی میں کریں گے اس کیخلاف کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکتا اس پر ارکان نے ڈیسک بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس بدھ کی صبح تک ملتوی کردیا ۔
سندھ اسمبلی میں منگل کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر زبردست تنقید کی گئی جس کے تحت قانون توہین عدالت کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے وزرا نے نکتہ اعتراض پر خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور عوام کے منتخب نمائندوں سے قانون سازی کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستان کا آئین توڑنے میں مدد کی اور پھر از خود معافی مانگ لی ، ہمیں یہ معافی قبول نہیں ، انھیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور وہاں آکر وہ معافی مانگیں، شرجیل میمن نے ایوان سے سوال کیا کہ کیا افتخار چوہدری کی ازخود معافی قبول ہے تو ارکان نے باآواز بلند کہا ''نہیں ، نہیں''۔
شرجیل میمن نے پھر ایوان سے پوچھا کہ افتخار چوہدری نے آئین توڑا ہے تو کیا کٹہرے میں لایا جائے ؟ اس پر پھر ارکان نے باآواز بلند کہا ''ہاں، ہاں لایا جائے '' ، سینئر وزیر پیر مظہرالحق نے کہا کہ کچھ لوگوں کو اگر قانون سازی کرنے کا شوق ہے تو وہ الیکشن لڑیں اور پارلیمنٹ میں آئیں ، صوبائی وزیر رفیق انجینئر نے کہا کہ عدلیہ اپنے دائرے میں رہ کرکام کرے ، عدلیہ اگر غلط فیصلے کرے گی تو عوام اس کیخلاف اٹھ کھڑے ہوںگےْ
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے نکتہ اعتراض پربات کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف نے سندھ اسمبلی کو تالے لگوائے تھے اور اب ایک اور حلقہ پاکستان کی تمام اسمبلیوں کو تالے لگوانا چاہتا ہے، انھوں نے کہا کہ ہم سے قانون سازی کا حق کوئی نہیں چھین سکتا ، ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں، پی سی او کے تحت نہیں آئے۔
انھوں نے کہا کہ جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی ہے اس پر عدالتوں کے ذریعے شب خون مارا جاتا ہے یا جوڈیشل مارشل لا لگایا جاتا ہے ، پیپلز پارٹی کو آج تک عدلیہ سے انصاف نہیں ملا، نواز شریف عدالتوں میں گئے تو انھیں انصاف مل گیا، شرجیل میمن نے کہا کہ میں بھی پارلیمنٹ کی ہی بات کر رہا ہوں ،جب ڈکٹیٹر کی دھاندلی والی اسمبلی تھی تو اس نے ایل ایف او پاس کیا اس کی 17 ویں ترمیم کی ان ہی ججوں نے توثیق کی، ان ہی ججوں نے پرویز مشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی، کیا یہ اقدام آئین توڑنے کے مترادف نہیں ہے اور کیا اس اقدام پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا نہیں ملنی چاہیے ؟۔
انھوں نے کہا کہ میں کسی کی تضحیک نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی کا تمسخر اڑائوں گا ، اگر میں غلط بات کر رہا ہوں تو مجھے عدالتیں بلائیں ، چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پاکستان کے آئین کو توڑنے میں مدد کی، پھر ازخود معافی مانگی ، اس طرح کی معافی کسی عام شہری کو تو نہیں ملتی ، میں پاکستان کا ایک عام شہری ہوں ، میں نے انھیں معاف نہیں کیا ہے، احتساب ہوگا تو سب کا ہوگا ، اگر پیپلز پارٹی کا احتساب ہوگا تو پھر دوسری جماعتوں کا احتساب ہوگا اور ججوں کا بھی احتساب ہوگا۔
شرجیل میمن نے ایوان کو ایک اخباری تراشہ دکھایا اور کہا کہ یہ خبر چھپی تھی کہ سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف انکوائری بند کرادی ، اس پر ایوان میں شیم شیم کے نعرے لگائے گئے ، شرجیل میمن نے کہا کہ اگر یہ خبر غلط ہے تو اخبار کو بند کردیا جائے، یہ انکوائری بند کرانے کا یہ جواز پیش کیاگیا کہ ارسلان افتخار عزت دار فیملی سے تعلق رکھتا ہے ،کیا دوسرے لوگ عزت دار نہیں ہوتے، سینئر وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے کہا کہ یہ جوکچھ کیا جا رہا ہے ، اس کے بجائے صاف کہہ دیا جائے کہ ہمیں جمہوریت نہیں چاہیے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھائی نے ملک میں ممکنہ سنگین حالات کی نشاندہی کی ہے، مجھے خدشہ ہے کہ ان کی شروعات کی جا رہی ہے، الطاف حسین کی یہ بات بجا ہے کہ ہم سب کو ایک ہو کر اس سازش کو ناکام بنانا ہے ، آج 1971ء والی صورت حال ہے، 1971ء میں بھی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نہیں مانا گیا تھا اور آج بھی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نہیں مانا جا رہا، ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر سید سردار احمد نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا پورا اختیار حاصل ہے۔
الطاف حسین نے کل واضح طور پر کہا تھا کہ ملک سنگین حالات سے گزر رہا ہے ، پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات درپیش ہیں، لہٰذا اداروں کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہیے، انھوں نے کہا کہ بالادستی نہ پارلیمنٹ کی ہے اور نہ ہی عدلیہ کی ، بالادستی صرف آئین کو حاصل ہے ،صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ یہ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے ، انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا بیٹا کاروبار کرتا ہے اور کاروباری ایڈریس چیف جسٹس ہائوس کا دیتا ہے، کیا میں اپنے کاروبار کا ایڈریس سندھ اسمبلی یا چیف منسٹر ہائوس دے سکتا ہوں ؟، جو لوگ الٹا ہم سیسوال کر رہے ہیں وہ ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔
اسپیکرنثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ریاست کے تین ستون مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں، باقی دوستون مقننہ کو جواب دہ ہیں ، اس میں کوئی بحث نہیں ہے کہ کون سا ادارہ بالادست ہے، صوبائی وزیر رفیق انجینئر نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل66 ہم منتخب نمائندوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ ہم اسمبلی میں کوئی بھی بات کرسکتے ہیں اور ہماری بات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، ، عدلیہ کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
اسپیکر نثار احمد کھوڑو نے ایوان کا آرٹیکل66 پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ارکان اسمبلی جو بات اسمبلی میں کریں گے اس کیخلاف کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکتا اس پر ارکان نے ڈیسک بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس بدھ کی صبح تک ملتوی کردیا ۔