حصولِ رزقِ حلال مگر کیسے

رسول اللہ ﷺ جنہیں اللہ مالک الملک نے ساری انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔


رسول اللہ ﷺ جنہیں اللہ مالک الملک نے ساری انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ فوٹو: فائل

لوگوں کی ایک کثیر تعداد کا گمان یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی پابندی رزق میں کمی کا سبب ہے، اس سے زیادہ تعجب اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ کچھ بہ ظاہر دین دار لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ معاشی خوش حالی اور آسودگی کے حصول کے لیے کسی حد تک اسلامی تعلیمات سے چشم پوشی کرنا ضروری ہے۔

یہ نادان لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا باخبر ہونے کے باوجود اس بات کو فراموش کرچکے ہیں کہ کائنات کے مالک و خالق اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین میں جہاں اُخروی معاملات میں رشد و ہدایت کار فرما ہے، وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہ نمائی کی گئی ہے۔ جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کو سرفراز و سربلند کرنا ہے، اسی طرح اس دین کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھی نازل فرمایا کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہوکر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔

جناب رسول اللہ ﷺ جنہیں اللہ مالک الملک نے ساری انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ وہ سب سے زیادہ جو دعا اللہ تعالیٰ سے کرتے، اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کا سوال ہوتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ کی سب سے زیادہ دعا یہ تھی، مفہوم: '' اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔'' ( بخاری)

کسبِ معاش کے معاملے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے بنی نو ع انسان کو حیرانی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے نہیں چھوڑا۔ بل کہ کتاب و سنت میں رزق کے حصول کے اسباب کو خوب وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے۔ اگر انسانیت ان اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر مضبوطی سے تھام لے اور صحیح انداز میں اس سے استفادہ کرے تو اللہتعالیٰ جو (الرزاق ذوالقوۃالمتین ) یعنی بہت زیادہ رزق عطا کرنے والا اور بہت زیادہ قوت والا ہے، لوگوں کے لیے ہر جانب سے رزق کے دروازے کھول دے۔ آسمان سے ان پر خیر و برکات نازل فرما دے اور زمین سے ان کے لیے گوناگوں اور بیش بہا نعمتیں اگلوئے۔ جن اسباب کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے رزق طلب کیا جاتا ہے، ان میں ایک اہم سبب اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار و توبہ، رزق کے حصول کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔حضرت نوع علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: '' پس میں نے کہا! اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے اور تمہارے اموال اور اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔'' (سورہ نوح )

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی کا سوال کرنے کے ذریعے سے رزق اور بارش طلب کی جاتی ہے۔ (القرطبی )

حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : '' اگر تم اللہ کے حضور توبہ کرو، اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اس کی اطاعت کرو تو وہ تم پر رزق کی فراوانی فرما دے گا۔ آسمان سے باران رحمت نازل فرمائے گا۔ زمین سے خیر و برکت اگلوائے گا، زمین سے کھیتی کو اُگلوائے گا، جانوروں کو دودھ مہیا کرے گا، تمہیں اموال اور اولاد عطا فرمائے گا، قسم قسم کے میوہ جات والے باغات عطا فرمائے گا اور ان باغوں کے درمیان نہریں جاری کرے گا۔'' (ابن کثیر)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے کے لیے انہی آیات کریمہ میں بیان کردہ بات پر عمل کیا۔ حضرت مطرف امام شعبیؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارش طلب کرنے کے لیے لوگوں کے ساتھ باہر نکلے۔ اللہتعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنے کے سوا انہوں نے کچھ بات نہ کی اور واپس پلٹ آئے۔ ان کی خدمت میں عرض کیا گیا '' ہم نے آپ کو بارش طلب کرتے ہوئے نہیں سنا۔'' فرمانے لگے: '' میں نے اللہ تعالیٰ سے آسمان کے ان ستاروں کے ساتھ بارش طلب کی ہے جن کے ذریعے بارش حاصل کی جاتی ہے۔'' یعنی استغفار کے ذریعے بارش حاصل ہوتی ہے اور میں نے استغفار کے ذریعے اللہتعالیٰ سے بارش حاصل کرنے کے لیے فریاد کی ہے۔امام حسن بصریؒ کے پاس چار اشخاص آئے، ہر ایک نے اپنی اپنی مشکل بیان کی۔ ایک نے قحط سالی کی، دوسرے نے تنگ دستی کی، تیسرے نے اولا د نہ ہونے کی، چوتھے نے اپنے باغ کی خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے چاروں اشخاص کو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کی تلقین کی۔ آپ سے عرض کی گئی کے چار اشخاص الگ الگ شکایت لے کر آئے اور آپ نے ان سب کوایک ہی بات کا حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کریں۔ امام حسن بصریؒ نے جواب دیا: میں نے انہیں اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں بتائی، (میں نے تو انہیں اسی بات کا حکم دیا ہے جو بات رب و رحیم و کریم نے سورہ نوح میں بیان فرمائی ) پھر آپ نے مذکورہ آیت تلاوت کی۔توبہ و استغفار حصول رزق کا اہم سبب ہے اس پر درج ذیل حدیث ایک روشن دلیل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' جس نے کثرت سے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، اللہ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دے گا۔ ہر مشکل سے نکال دے گا، اور اس کو وہا ں سے رزق مہیا فرمائے گا، جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔'' (المسند )

اس حدیث پاک میں جناب رسول اللہ ﷺ نے کثرت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے والوں کو تین ثمرات و فوائد حاصل ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور ان تین میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ سب سے بڑی قوت و طاقت کے مالک اللہ ال رزّاق اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائے گا، جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔

اے رزقِ حلال کے متلاشیو! کثرت سے استغفار و توبہ کرو۔ اپنے گناہوں سے دور ہوجاؤ، اپنی سیاہ کاریوں پر ندامت کے آنسو بہاؤ اور اس بات کا عزم کرلو کہ آیندہ ساری زندگی ان گناہوں کے قریب نہیں بھٹکوں گا، اور اس بات کا خاص طور سے دھیان رکھو کہ استغفار و توبہ صرف زبان تک ہی نہ رہے، دل کی ندامت اور اصلاح اعمال کی کوشش کے بغیر زبانی استغفار و توبہ جھوٹوں اور دغا بازوں کی عادت ہے اور اللہتعالیٰ کے ہاں ایسے استغفار و توبہ کی کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں