ابوظہبی امی اور میں

ہمارے ہاں جب ایک ماں مرجاتی ہے تو پھر اس کی کنواری بیٹیوں کی زندگی کے فیصلے خاندان والے کرنے کیلئے اکٹھے ہوجاتے ہیں


حرا رفیق January 26, 2018
یہاں کے تپتے اور سنسان ریگستانوں میں بچھے، سڑکوں کے جال پر برسوں تک اپنی کار دوڑاتے مجھے لگتا تھا کہ امی کے جانے کے بعد میں کشش ثقل سے آزاد تو ہوگئی ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ابوظہبی... کتنا ہمدرد، اور کتنا نفیس سا لگتا تھا سننے میں، جب کالج کے زمانوں میں کبھی کوئی دوست بتاتی تھی کہ وہ گرمیوں کی چھٹیاں وہاں گزار کر آئی ہے۔ 2013 میں امی کینسر سے لڑ رہی تھیں اور ان کی فوج میں بس دو بیٹیاں ہی تھیں۔ بڑی بیٹی امی کی زندگی میں ہی شادی شدہ، صاحب اولاد، اور سسرال جیسے رشتوں کی مالکن بن چکی تھی۔ لیکن میں ایسے سب رشتوں سے آزاد، بس امی کو لے کر روز کینسر کا ہمالیہ سر کرنے کی کوشش کرتی تھی۔

ستمبر 2013 میں بالآخر امی وہ جنگ ہارگئیں اور فیصلہ کینسر کے حق میں ہوگیا۔ جس رفتار سے امی میری زندگی سے چپ چاپ گئیں، کچھ ملتی جلتی رفتار سے مجھ سے پاکستان بھی چھوٹ گیا۔ اللہ کے حکم سے میں اپنا رزق لینے ابوظہبی پہنچ گئی اور لوگ کہتے رہ گئے کہ میں نے ''گھر چھوڑ دیا ہے۔''

ہمارے ہاں جب ایک ماں مر جاتی ہے تو پھر اس کی کنواری بیٹیوں کی زندگی کے فیصلے خاندان والے کرنے کیلئے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ میں چونکہ ایسی خاندانی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی تھی، سو میں ان بیٹیوں میں سے ثابت نہ ہوئی جو سرِتسلیم خم کرکے پوری عمر رشتے نبھاتی ہیں۔ زیادہ تشریح میں جاؤں تو میں اچھی اور نیک لڑکی نہیں تھی۔ لیکن جب خریدا ہوا مال ہی گم ہوجائے تو رسیدوں کا کیا فائدہ؟ امی نہیں رہیں تو وہ گھر، ایک مکان بن کر رہ گیا تھا؛ اور ویسے بھی میں زندگی کو صرف شادی کرکے ''سیٹل'' (settle) ہوجانے سے بہت زیادہ دیکھتی تھی۔

میں نے کبھی سماج کے صحیح یا غلط کی عزت نہیں کی تھی اور ہمیشہ اپنی ہی رُول بک فالو کی تھی۔ وقت نے جب ابوظہبی پہنچادیا تو میں کسی رہبر کی تلاش میں تھی تاکہ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرلوں اوراس کی راہبری میں پتا لگا لوں کہ پردیس میں ایک انسان، دوسرے انسان سے کیا چاہتا ہے؟ لوگ کیوں اپنا دیس چھوڑ کر پردیس میں آ بیٹھتے ہیں؟ اور کیا چیز انہیں پردیس میں باندھ کر رکھتی ہے؟

چھوٹی سڑکیں، چھوٹے سگنل، خاموش سمندر، سنسان ریگستان، چھوٹی بلند عمارات، امیری، غریبی، جوانی، بڑھاپا، جم خانے، کلبز، ہوٹلز، تعلیمی ادارے، شاپنگ مالز، شدید گرمی اور ہر دو قدم پر چائے خانوں کے علاوہ اب میں بھی اس شہر کی ایک شہری تھی۔

یہاں کے تپتے اور سنسان ریگستانوں میں بچھے، سڑکوں کے جال پر برسوں تک اپنی کار دوڑاتے مجھے لگتا تھا کہ امی کے جانے کے بعد میں کشش ثقل سے آزاد تو ہوگئی ہوں لیکن اس آزادی سے ایک بے سمتی پیدا ہوگئی ہے جس سے میرے اندر اور باہر کا توازن نہیں بن پا رہا۔ سو اپنے اندر کے اس دباؤ کو کم کےلیے میں چھٹی والے دنوں میں اپنی کار میں بیٹھ کر ریگستان کی غیر آباد سڑکوں سے بار بار گزرتی اور وہاں کے چھوٹے غریب چائے خانوں سے بکثرت چائے پیتی۔

ضرورت پڑنے پر دوبئی سے ابوظہبی آنے والی شیخ زائد روڈ پر کار روک کر ADNOC پیٹرول اسٹیشن پر سوجاتی اور جب اگلے روز آنکھ کھلتی تو اپنی عزت و آبرو سلامت پاکر چائے پیتی اور سفر کی کامیابی کی خوشی مناتی۔ یہ ریگستانی سفر مجھے کبھی بھی نہ تھکا پایا تھا لیکن میری ذات کا اندرونی سفر مجھے چور چور کر دیتا تھا۔

عرب امارات کے سارے ریگستان چھاننے اور پیٹرول اسٹیشنز پر تھکاوٹ اتار کر میں جان چکی تھی کہ مجھے ہر جگہ اپنے آپ سے ہی لڑنا تھا۔ باقی چہروں سے میرا کوئی لینا دینا نہیں تھا اور یہ میری ہی جنگ تھی۔ ان سفروں پر اکیلے نکلتے ہوئے مجھے کبھی کسی دوست کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی اور مجھے میری عرب اور انڈین روم میٹس کہنے لگیں تھیں:

we can see that you are very comfortable with your loneliness so how come you will fall in love for your life partner


یہ سن کر میرے ہر طرف ریل گاڑیاں چلنے لگتیں اور مجھے لگتا کہ ابھی ایک ایکسیڈنٹ ہوگا اور میری کھوپڑی پاش پاش ہوجائے گی۔ ایسی باتیں مجھے اور زیادہ چائے پینے اور قطب شمالی والے ملکوں کی طرف نکلنے پر اکساتیں۔

تھوڑے عرصے بعد ہی مجھ میں یہ سمجھ آگئی کہ کچھ لوگ معاشرے کے مطابق زندگی نہیں گزارتے اور ''its OK'' جیسے کچھ جانور جنگل میں رہ کر بھی جنگل کے قانون کی پاسداری نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو نہ خوشی کی تلاش ہوتی ہےاور نہ ضرورت۔ بس دیس بہ دیس بارشیں برساتے رہتے ہیں۔

میری ذات کا یہ سفر ابھی جاری ہے، یہ تو صرف نقطہ آغاز تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں