بہادر چور
ایسے چراخ بکف چور ڈاکو ہم پاکستانی خوب جانتے پہچانتے ہیں اور ہمیں ان کا طویل تجربہ ہے۔
آج کل اس بات کا شورو غل ہے کہ ملک میں لاقانونیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ جس میں خود قانون کے رکھوالے بھی شامل ہو چکے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب ڈاکے چوری کی خبریں پڑھنے کو نہ ملیں اس وجہ سے ہم پاکستانی اور حکمران بھی ان دنوں بہت مصروف ہیں اور ہماری سب سے بڑی مصروفیت یہ ہے کہ اگر کسی رات کو گھر پر کوئی ڈاکہ نہیں پڑا اور آپ معہ اہل خانہ صبح خیریت سے بیدار ہوئے ہیں تو پھر یہ فکر لاحق ہو گئی کہ دن کے وقت آپ اپنی حفاظت کس طرح کر سکتے ہیں۔
آج کل دن کے وقت بھی ان دنوں وہی کچھ ہو تا ہے جو کبھی صرف رات کو ہوا کرتا تھا یعنی جو ڈاکے پہلے صرف رات کو پڑتے تھے وہ اب دن کے وقت بھی پڑتے ہیں۔ ہمارے نئے زمانے کے چور اور ڈاکو آرام پسند اور اپنی نیند میں خلل ڈالے بغیر جو کام دن میں ہو سکتا ہے اس کو رات کے وقت کیوں کریں اور اس طرح اپنے آپ کو بے آرام کریں۔ ایک زمانے میں چوری کی واردات کو نقب زنی کہا جاتا تھا، یعنی رات کے وقت چور کسی دیوار میں سوراخ کر کے کسی گھر میں گھس جاتے تھے اور چوری کا مال لے کر اسی سوراخ سے یعنی نقب سے باہر نکل جاتے تھے ۔ گھر والے صبح بیدار ہوتے تو نقب دیکھ کر گھر کا سامان سنبھالتے اور پتہ چلتا کہ کتنی چوری ہوئی ہے۔
اس کے بعد پولیس کا کام شروع ہو جاتا تھا جو اپنے روائیتی طریقہ کار سے تفتیش کرتی اور مدعی کو اس کا مزید بوجھ برداشت کرنا پڑتا۔ بھلے وقتوں میں ایک نقب زن کے بیٹے نے شکایتی لہجے میں کہا کہ ابا بہشتی رات بھر نقب لگاتا رہا، دیوار بہت مضبوط تھی، رات کے پچھلے پہر جا کر دیوار میں اتنا سوارخ بنا کہ وہ گھر کے اندر داخل ہو سکا لیکن گھر میں داخل ہونے کے بعد اس نے دیکھا کہ گھر والا تہجد پڑھ رہا ہے جو ابا مرحوم کے کھٹکے سے خبردار ہو گیا اور اس نے ابا کو پکڑ لیا۔ پرانے زمانے میں چوروں کے پاس چھری چاقو کا اسلحہ ہوتا تھا، اب جدید دور میں پستول عام ہے۔ آپ کے پاس گھر میں کتنا بھی اسلحہ کیوں نہ ہو وہ اس ڈاکو کے سامنے بے کار ہو جاتا ہے جو پستول ہاتھ میں لیے آپ کے سر پر پہنچ جاتا ہے۔
اگر وہ صرف گھر کے مال و متاع پر راضی ہو جائے تو اس کا شکریہ اور مہربانی ورنہ آپ نے اگر مزاحمت کی بھیانک غلطی کر لی تو ڈاکو کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے گا اور وہ آپ کو ٹھکانے لگا دے گا۔ آج کل کے ڈاکو بھی فرمائشی ہو گئے ہیں اور واردات کے دوران جدید اشیاء کا مطالبہ کرتے ہیں۔ البتہ جدید ٹیلیفون جب سے ان کے وبال جان بنے ہیں تب سے سڑک پر موبائل چھیننے کی وارداتوں میں کمی واقع ہوئی ہے کہ اس جدید ٹیلی فون سے یہ پکڑے جاتے ہیں۔
جب سے بینکوں نے مختلف قسموں کے کارڈ روپے پیسے کے لین دین کے لیے متعارف کرائے ہیں لوگوں نے اپنی جیبوں میں نقد رقم رکھنا کم کر دی ہے، اتنی ہی رکھتے ہیں کہ اگر کسی ڈاکو سے ٹاکرا ہو جائے تو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ زندگی کی گاڑی ایسے ہی ہچکولے کھاتے ہوئے چل رہی ہے۔
ڈاکوں اور چوری کی خبریں بلاناغہ ہر روز پڑھتے ہیں ایسی خبریں پڑھ کر شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ آپ ابھی تک اس بلا سے محفوظ ہیں۔ ڈاکے کی واردات عموماً مختصر ہوتی ہے اور ڈاکو اس کو جلد از جلد نپٹانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آج کل کے ماڈرن اور نڈر ڈاکو گھر والوں کو کسی محفوظ مقام پر بند کر کے بعض اوقات فریج کی تلاشی لے کر کھانے پینے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور تسلی سے پیٹ پوجا کر کے جاتے ہیں۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے اب تو آتے ہیں ہلکا پھلکا قیمتی سامان سمیٹا، گھر والوں سے چابیاں لے کر نقدی اور اگر خوش قسمتی سے اصلی زیورات مل گئے تو اٹھا کر چلتے بنے۔ جب سے نقلی زیورات کی ریل پیل ہوئی ہے ڈاکو بھی اکثر اوقات دھوکا کھا جاتے ہیں اور بعد میں ان کی تقسیم کے وقت شرمندہ ہوتے ہوں گے۔ لیکن ایک دوسری قسم کے ڈاکو زیادہ دیدہ دلیری سے کام لیتے ہیں انھی کے لیے کسی نے کہا ہے کہ کس قدر
بہادر چور ہے کہ ہاتھ میں چراغ رکھتا ہے
'چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد'
ایسے چراخ بکف چور ڈاکو ہم پاکستانی خوب جانتے پہچانتے ہیں اور ہمیں ان کا طویل تجربہ ہے۔ ہمارے ہاں امن و امان کی صورتحال ہمیشہ ہی بہت خراب رہی ہے سنتے ہیں کہ جب پاکستان بنا تھا تو چوروں نے چوری چھوڑ دی تھی اور رشوت خوروں نے رشوت۔ ہمارے سیاستدان حکمرانوں کے اندر بھی ایمان اور پاکستان کی محبت کی رتی موجود تھی اور وہ بدعنوان نہیں تھے۔ جب حکمران خود بدعنوان نہ ہو اور بد عنوانی روکنے کا خواہشمند بھی ہو تو پھر نیچے حالات بہتر رہتے ہیں۔ پاکستان کی ابتداء کے دنوں میں تو نیچے کے لوگ بھی پاکستان کا حیا کرتے تھے اور سرکار اور سول دونوں میں نظم و ضبط قائم تھا۔
اس پرانے زمانے کے ایک حکمران سے مدتوں بعد میں نے ایک بار پوچھا کہ ان دنوں شکایت کی جاتی ہے کہ وزیر کی نہیں چلتی آپ کے زمانے میں کیا ہوتا تھا۔ اس کا جواب تھا اور یہ جواب وزیرانہ رعب میں تھا کہ وزیر کی حکم عدولی کی کوئی گنجائش نہیں تھی حکم خود بولتا تھا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی لالچ اور مفاد نہیں یہ حکمرانی کی ضرورت تھی اور اس کی تکمیل لازم ہے۔ لیکن یہ سنہرا دور جلد ہی گزر گیا۔ وہ دن ہوا ہو گئے اور ہم لاء اینڈ آرڈر کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے۔
جس میں اب تک پھنسے چلے آرہے ہیں باوجود ہر ممکن کوششوں کے ہمارے لاء اینڈ آرڈر کا سب سے بنیادی ادارہ پولیس ٹھیک ہونے کو تیار نہیں گو کہ مختلف حکومتوں نے اس کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ کیا گیا۔ تھانے کا نظام بہتر بنایا گیا لیکن ہم دل و دماغ بدلنے میں ناکام رہے اور پرانوں کے ساتھ نئے آنے والے بھی انھی میں ہی رچ بس گئے اور پھر اوپر سے مستزاد یہ کہ ہم نے جب چاہا پولیس کو اپنے مقاصد کے استعمال کیا۔ کبھی اپنی حفاظت کے نام پر اور کبھی اپنے پروٹوکول پر عوام کو بغیر حفاظت اور پروٹوکول کے بے یار مدد گار چھوڑ دیا گیا جس کی سزا وہ روز بھگت رہے ہیں اور لٹ رہے ہیں۔
آج کل دن کے وقت بھی ان دنوں وہی کچھ ہو تا ہے جو کبھی صرف رات کو ہوا کرتا تھا یعنی جو ڈاکے پہلے صرف رات کو پڑتے تھے وہ اب دن کے وقت بھی پڑتے ہیں۔ ہمارے نئے زمانے کے چور اور ڈاکو آرام پسند اور اپنی نیند میں خلل ڈالے بغیر جو کام دن میں ہو سکتا ہے اس کو رات کے وقت کیوں کریں اور اس طرح اپنے آپ کو بے آرام کریں۔ ایک زمانے میں چوری کی واردات کو نقب زنی کہا جاتا تھا، یعنی رات کے وقت چور کسی دیوار میں سوراخ کر کے کسی گھر میں گھس جاتے تھے اور چوری کا مال لے کر اسی سوراخ سے یعنی نقب سے باہر نکل جاتے تھے ۔ گھر والے صبح بیدار ہوتے تو نقب دیکھ کر گھر کا سامان سنبھالتے اور پتہ چلتا کہ کتنی چوری ہوئی ہے۔
اس کے بعد پولیس کا کام شروع ہو جاتا تھا جو اپنے روائیتی طریقہ کار سے تفتیش کرتی اور مدعی کو اس کا مزید بوجھ برداشت کرنا پڑتا۔ بھلے وقتوں میں ایک نقب زن کے بیٹے نے شکایتی لہجے میں کہا کہ ابا بہشتی رات بھر نقب لگاتا رہا، دیوار بہت مضبوط تھی، رات کے پچھلے پہر جا کر دیوار میں اتنا سوارخ بنا کہ وہ گھر کے اندر داخل ہو سکا لیکن گھر میں داخل ہونے کے بعد اس نے دیکھا کہ گھر والا تہجد پڑھ رہا ہے جو ابا مرحوم کے کھٹکے سے خبردار ہو گیا اور اس نے ابا کو پکڑ لیا۔ پرانے زمانے میں چوروں کے پاس چھری چاقو کا اسلحہ ہوتا تھا، اب جدید دور میں پستول عام ہے۔ آپ کے پاس گھر میں کتنا بھی اسلحہ کیوں نہ ہو وہ اس ڈاکو کے سامنے بے کار ہو جاتا ہے جو پستول ہاتھ میں لیے آپ کے سر پر پہنچ جاتا ہے۔
اگر وہ صرف گھر کے مال و متاع پر راضی ہو جائے تو اس کا شکریہ اور مہربانی ورنہ آپ نے اگر مزاحمت کی بھیانک غلطی کر لی تو ڈاکو کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے گا اور وہ آپ کو ٹھکانے لگا دے گا۔ آج کل کے ڈاکو بھی فرمائشی ہو گئے ہیں اور واردات کے دوران جدید اشیاء کا مطالبہ کرتے ہیں۔ البتہ جدید ٹیلیفون جب سے ان کے وبال جان بنے ہیں تب سے سڑک پر موبائل چھیننے کی وارداتوں میں کمی واقع ہوئی ہے کہ اس جدید ٹیلی فون سے یہ پکڑے جاتے ہیں۔
جب سے بینکوں نے مختلف قسموں کے کارڈ روپے پیسے کے لین دین کے لیے متعارف کرائے ہیں لوگوں نے اپنی جیبوں میں نقد رقم رکھنا کم کر دی ہے، اتنی ہی رکھتے ہیں کہ اگر کسی ڈاکو سے ٹاکرا ہو جائے تو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ زندگی کی گاڑی ایسے ہی ہچکولے کھاتے ہوئے چل رہی ہے۔
ڈاکوں اور چوری کی خبریں بلاناغہ ہر روز پڑھتے ہیں ایسی خبریں پڑھ کر شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ آپ ابھی تک اس بلا سے محفوظ ہیں۔ ڈاکے کی واردات عموماً مختصر ہوتی ہے اور ڈاکو اس کو جلد از جلد نپٹانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آج کل کے ماڈرن اور نڈر ڈاکو گھر والوں کو کسی محفوظ مقام پر بند کر کے بعض اوقات فریج کی تلاشی لے کر کھانے پینے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور تسلی سے پیٹ پوجا کر کے جاتے ہیں۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے اب تو آتے ہیں ہلکا پھلکا قیمتی سامان سمیٹا، گھر والوں سے چابیاں لے کر نقدی اور اگر خوش قسمتی سے اصلی زیورات مل گئے تو اٹھا کر چلتے بنے۔ جب سے نقلی زیورات کی ریل پیل ہوئی ہے ڈاکو بھی اکثر اوقات دھوکا کھا جاتے ہیں اور بعد میں ان کی تقسیم کے وقت شرمندہ ہوتے ہوں گے۔ لیکن ایک دوسری قسم کے ڈاکو زیادہ دیدہ دلیری سے کام لیتے ہیں انھی کے لیے کسی نے کہا ہے کہ کس قدر
بہادر چور ہے کہ ہاتھ میں چراغ رکھتا ہے
'چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد'
ایسے چراخ بکف چور ڈاکو ہم پاکستانی خوب جانتے پہچانتے ہیں اور ہمیں ان کا طویل تجربہ ہے۔ ہمارے ہاں امن و امان کی صورتحال ہمیشہ ہی بہت خراب رہی ہے سنتے ہیں کہ جب پاکستان بنا تھا تو چوروں نے چوری چھوڑ دی تھی اور رشوت خوروں نے رشوت۔ ہمارے سیاستدان حکمرانوں کے اندر بھی ایمان اور پاکستان کی محبت کی رتی موجود تھی اور وہ بدعنوان نہیں تھے۔ جب حکمران خود بدعنوان نہ ہو اور بد عنوانی روکنے کا خواہشمند بھی ہو تو پھر نیچے حالات بہتر رہتے ہیں۔ پاکستان کی ابتداء کے دنوں میں تو نیچے کے لوگ بھی پاکستان کا حیا کرتے تھے اور سرکار اور سول دونوں میں نظم و ضبط قائم تھا۔
اس پرانے زمانے کے ایک حکمران سے مدتوں بعد میں نے ایک بار پوچھا کہ ان دنوں شکایت کی جاتی ہے کہ وزیر کی نہیں چلتی آپ کے زمانے میں کیا ہوتا تھا۔ اس کا جواب تھا اور یہ جواب وزیرانہ رعب میں تھا کہ وزیر کی حکم عدولی کی کوئی گنجائش نہیں تھی حکم خود بولتا تھا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی لالچ اور مفاد نہیں یہ حکمرانی کی ضرورت تھی اور اس کی تکمیل لازم ہے۔ لیکن یہ سنہرا دور جلد ہی گزر گیا۔ وہ دن ہوا ہو گئے اور ہم لاء اینڈ آرڈر کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے۔
جس میں اب تک پھنسے چلے آرہے ہیں باوجود ہر ممکن کوششوں کے ہمارے لاء اینڈ آرڈر کا سب سے بنیادی ادارہ پولیس ٹھیک ہونے کو تیار نہیں گو کہ مختلف حکومتوں نے اس کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ کیا گیا۔ تھانے کا نظام بہتر بنایا گیا لیکن ہم دل و دماغ بدلنے میں ناکام رہے اور پرانوں کے ساتھ نئے آنے والے بھی انھی میں ہی رچ بس گئے اور پھر اوپر سے مستزاد یہ کہ ہم نے جب چاہا پولیس کو اپنے مقاصد کے استعمال کیا۔ کبھی اپنی حفاظت کے نام پر اور کبھی اپنے پروٹوکول پر عوام کو بغیر حفاظت اور پروٹوکول کے بے یار مدد گار چھوڑ دیا گیا جس کی سزا وہ روز بھگت رہے ہیں اور لٹ رہے ہیں۔