خدائی دعویٰ
یہ انکساری ہی تو ہے کہ پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کا جواب ایک مسکراہٹ کے علاوہ کیا دیا۔
DUBAI:
وہ جو دعویدار تھے کہ ''وہ لوہے کے چنے ہیں'' اب اپنے لہجے کی شکستگی کے ساتھ شاکی ہیں کہ کوئی اس انداز میں مخاطب ہے کہ انھیں گمان ہو رہا ہے کہ وہ ''خدا کے لہجے میں بول رہا ہے'' ان کی شکایت اپنی جگہ ان کے لہجے میں موجود فریاد بھی اپنی جگہ لیکن خدا کے لہجے میں تو وہ بول رہے تھے، جو پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کررہے تھے خدا کے لہجے میں بولنے کا انداز تو ان کا تھا جو کہتے تھے کہ ''جب تک بے نظیرکے بچوں کو ننگے پیر فٹ پاتھ پر نہیں چلاؤںگا، چین سے نہیں بیٹھوںگا '' وہ بھی تو خدا کے لہجے میں بول رہے تھے جو فون پر فرمائش کرتے تھے کہ ''زیادہ سے زیادہ سزا دینی ہے'' خدا کا لہجہ تو انھوں نے اپنایا تھا جو کہتے رہے کہ ''جب بھی بے نظیر پارٹی کا نام سنتا ہوں تو میرا خون کھول اٹھتا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کے ٹوٹے ٹوٹے کر دوں'' خدا کے لہجے میں تو وہ بھول رہے تھے جو ناخن تراشنے اور پر کاٹنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔
لہجے کا یہ حتمی پن اور انداز کا یہ طریقہ اس لیے تھا کہ وہ حاشیہ بردار رہے خوشامدی رہے اس کے جو زمین پر خدا بن بیٹھا تھا جس کا یہ طریقہ تھا کہ وہ مخالفین کو جھوٹے کیسوں میں ملوث کرکے خادم کے ذریعے پھانسی چڑھوانا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر ناصر بلوچ، ایاز سموں، اسی طرح رزاق جھرنا، عثمان غنی اور حمید بلوچ سمیت کتنے ہی نوجوان اس زمینی خدا کی فرعونیت کا شکار ہوئے محکوم عدالتوں سے سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوانوں کو بے مجرم و خطا پچاس پچاس برس کی سزائیں دلوانا، گوٹھ طیب تھیم جیسے کئی گوٹھوں کو مسمار کرنا، نوجوان شریف پڑھنے والے لوگوں پر بکتر بند گاڑیاں چڑھادینے سے لے کر جوانوں کی پشت پر 82482 کوڑے برسانا یہ خدائی دعویٰ نہیں تو اور کیا ہے۔ مدرسہ فرعونیت کے فارغ التحصیل کو ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ یہ سب ہیں۔
یہ جو آج کسی کو یہ گمان گزر رہا ہے کہ وہ ''خدا کے لہجے میں بھول رہا ہے'' در اصل وہ قوت ہے جو میرے خدا نے اسے دی ہے۔ اس خدا نے دی ہے جس نے اسے وہ صبر کی قوت دی تھی کہ جس نے گیارہ برس جیل کی صعوبت برداشت کی لیکن کوئی معافی نامہ دے کر ملک سے فرار نہیں ہوا جس کی زبان کاٹی گئی لیکن نہ اس نے اف کی اور نہ ججز کو برا بھلا کہا۔ اسے وہ قوت بھی رب کعبہ نے دی کہ اس نے اپنے غم کو طاقت میں بدل کر اپنے بچوں کی ماں کی لاش کے سامنے بیٹھ کر اس نے بھڑکتی آگ کو ''پاکستان کھپے'' کے الفاظ سے ٹھنڈا کیا۔
یہ عزت بھی اسی عزتوں کے دینے والے نے دی کہ اسے مملکت خداداد پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچایا اور اس طرح پہنچا کہ اس نے اس عہدے کی توقیر میں وہ اضافہ کیا جو اس سے پہلے کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا ۔ اپنے اختیارات کو کسی اور کے حوالے کرنے کا حوصلہ بھی اسی نے دیا جو غائب بھی اور حاضر بھی، اسی ذات نے یہ عزم بھی دیا جو نیتوں کا جاننے والا ہے کہ آمروں اور حاشیہ برداروں کی ان تمام شقوں کو ختم کردیا جائے جس نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، لوگ اسے اٹھارویں ترمیم کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن الزام عائد کرنے والے دل پر ہاتھ رکھ کرکہیں کہ کیا یہ ایک شخص کا خواب نہیں تھا، بالکل ان خوابوں کی طرح جسے لوگ سی پیک اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن کہتے ہیں۔
کون سے خدشات اور دھمکیاں نہیں رہی ہوںگی کہ بڑی طاقتوں کے معتوب ملک ایران سے معاہدہ نہ ہو لیکن اس ذات نے حوصلہ دیا جو یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ میں حوصلہ دیتا رہتا رہا اور وہی حوصلہ تھا جس نے ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کروایا اور کیوں نہ ہوتا وہ معاہدہ بھی جس سے ملک کے ہر غریب کی امیدیں وابستہ ہیں ۔گوادر کی بندرگاہ کو سنگا پور سے واپس لے کر چین کے حوالے کرنا اور سی پیک کی تفصیلات طے کرنے کے لیے بار بار چین جانا اور بڑی طاقت کی ہر دھمکی کو خاطر میں نہ لانے کی ہمت یونہی آگئی جس ذات نے قلیل لشکر کو ہزاروں کے لشکروں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا۔
اسی ذات نے اس وقت کو للکارنے کا حوصلہ دیا جو دنیا بھر میں ایک غنڈے کی طرح دندناتا رہا تھا۔ جس نے لیبیا، شام، لبنان، عراق اور افغانستان کو روند دیا جو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتا رہا جو لاطینی امریکا کے ایک چھوٹے سے ملک کے صدارتی محل پر اپنے ہیلی کاپٹر اتارتا ہے اور صدر کو اغوا کرکے اپنے ملک لے آتا ہے یہ حوصلہ کہ طاقت کے نشے میں چور ملک کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ایسا سبق سکھایا جائے کہ وہ معافی مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ اس سے راہداری کی سہولتیں واپس لینا، ان سے شمسی ایئرپورٹ واپس لینے کا حوصلہ کرنا، صرف اس لیے ممکن ہوسکا کہ ایمان اس ذات پر تھا جس نے موت کا دن اور وقت مقررکر رکھا ہے اور کسی کی یہ طاقت نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی کرسکے۔
یہ طاقت بھی اس نے دی کہ قاتلوں کے خلاف ایسا آپریشن کیا کہ ان علاقوں کو خالی کروایا۔ 800 سے زائد ریڈیو اسٹیشن بند کروائے وہ سوات جہاں پاکستان کا جھنڈا لہرانا گناہِ عظیم تھا وہاں پاکستان کا پرچم لہرایا، خوف زدہ ڈرپوک اور ذاتی مفاد کو ترجیح دینے والوں نے یوٹرن لے کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل نہیں ہونے دیا لیکن یہ حوصلہ اپنی جگہ قائم رہا کہ قاتل کو کھل کر قاتل کہا اس ادراک کے باوجود کہ دہشت گرد انتخابات میں کیا رول ادا کرسکتے ہیں لیکن بیانیہ میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس وقت بھی نہیں جب مفاد پرست خود کو دہشت گردوں کا ہم نوا کہہ رہے تھے ان کو شہید قرار دے رہے تھے اپنے اور دہشت گردوں کے نظریات کو ایک کہہ رہے تھے۔
انھیں بچھڑا بھائی قرار دیتے ہوئے انھیں اپنے دفاتر دینے کی بات کررہے تھے تاکہ اقتدارکے قریب تو ہوسکیں لیکن وہ جنھیں اپنے موقف کی سچائی پر یقین تھا ان کی بات سب کو ایک بہت بڑے نقصان کے بعد ہی سہی لیکن ان سب کو یوٹرن لینا پڑا جن کی زبانیں یہ کہتے نہیں تھکتی تھیں کہ ''انھیں اپنے کیے کی سزا مل رہی ہے کہ یہ مذاکرات کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ ''درندوں سے مذاکرت ممکن ہی نہیں'' آج خود کو لوہے کے چنے کہنے والوں کو خدا کے لہجے میں بولتا محسوس ہوا ہے۔
ان سے صرف اتنا عرض ہے کہ جسے وہ خدا کا لہجہ قرار دے رہے ہیں۔ وہ رجز ہے جس میں اپنی اس طاقت اور قوت کا اظہار ہوتا ہے جو خدا کی عطا کردہ ہوتی ہے وہ رجز جس میں مخالف کو خبردارکیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ضد چھوڑ دے وہ رجز جس میں اعلان ہوتا ہے کہ اگر تم اپنی ہٹ دھرمی سے پیچھے نہ ہٹے تو رب المشرقین و رب المغربین کی عنایت کو وہ طاقت سے نہیں فنا کردیںگے، ایسا ہی رجز انھوں نے پوچھا تھا کہ وہ اعلان جنگ تھا قاتلوں، غلط کاروں، دھن پرستوں اور لٹیروں کے خلاف یہ رجز تھا ان کے خلاف جو اداروں پر الزامات لگانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح الزام لگایا جارہاہے کہ وہ ''خدا کے لہجے میں بول رہے ہیں'' اس میں اتنی انکساری ہے کہ اس نے اپنے بچوں کو ننگے پیر چلانے کا دعویٰ کرنے والے کو پیر میں گر کر معافی مانگنے والے کو یہ کہہ کر اٹھایا تھا کہ کسی کے پیر میں گرنا انسانیت کی توہین ہے۔
میں نے معاف کیا میرے خدا نے معاف کیا۔ اس کی انکساری یہ ہے کہ آج تک اس نے پلٹ کر انھیں بھی جواب نہیں دیا جنھوں نے الزامات لگانے اور اس کا بغیر ثبوت پروپیگنڈا کرنے کی کوئی حد نہیں چھوڑی۔ یہ انکساری ہی تو ہے کہ پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کا جواب ایک مسکراہٹ کے علاوہ کیا دیا۔ یہ قانون فطرت ہے کہ ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے اور شاید اس لیے ہوتی ہے کہ ظلم کرنے والا کسی لمحے باز آجائے لیکن جب ایسا نہیں ہوتا اور تکبر میں ڈوبا شخص خود کو ناقابل تسخیر سمجھ کر لوہے کا چنا سمجھنے لگتا ہے تو قانون فطرت حرکت میں آتا ہے اور سچ کی جیت شروع ہوجاتی ہے۔
کبھی اس کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ وہ جو بیوہ اور بیٹی کو آخری دیدار سے محروم کرتا ہے اس کے اپنے لواحقین بھی آخری دیدار نہیں کرپاتے اور کبھی اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ مخالفین بھی کہنے لگتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری ۔ اگلی باری پھر زرداری، شیرکا شکاری زرداری۔