آگے کیا ہونے والا ہے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات
حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی 850 سال قبل کی گئیں پیش گوئیاں۔
نوٹ: قارئین کرام! گزشتہ ہفتے اس موضوع پر لکھے گئے مضمون کو بہت پسند کیا گیا لیکن بیشتر قارئین نے تشنگی باقی رہ جانے کا گلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مضمون میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی پیش گوئیوں کے اشعار کی مزید تفصیل ان تک پہنچائی جائے۔ سو، موجودہ مضمون گزشتہ سے پیوستہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اولیاء کرام اور صوفیاء عظام جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں، ان پر کب اور کس وقت جلال وجمال کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب اور کیسے وہ حالت وجد میں آتے ہیں اور کب مکاشہ اور مشاہدہ اور الہام یا القاء کے ذریعے ان پر غیب کے پردے کھلتے ہیں اور کس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو مستقبلمیں جھانکنے کا اعلیٰ و ارفع روحانی مرتبہ عطا کرتے ہیں۔ ایسے بے شمار سوالات اور بہت زیادہ کرید سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ؐ نے انسان کو منع فرمایا ہے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ نے اپنی پیش گوئیوں کے قصیدے میں ''پیداشود'' (پیدا ہوگا) کی ردیف میں خصوصی طور پر برصغیر پاک و ہند میں رونما ہونے والے غیر معمولی حالات و واقعات سے پردہ اٹھایا ہے۔ مگر اب انھوں نے ویرانہ، زاہدانہ اور فاتحانہ وغیرہ قافیہ کے ذریعے زیادہ وسعت اور وضاحت کے ساتھ برصغیر پاک و ہند اور ملحقہ علاقہ جات میں پیش آنے والے واقعات کو ایسے بیباکانہ طور پر بیان کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں
رازے کہ گفتہ ام من، درے کہ سفتہ ام من
باشد برائے نصرت اسناد غائبانہ
ترجمہ: وہ راز جو میں بیان کرچکا ہوں اور وہ موتی جو میں پرو چکا ہوں، یہ ایک غیبی سند ہے۔ یہ میں نے اس لیے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی یقینا مدد کریں گے۔
عجلت اگر بخواہی، نصرت اگر بخواہی
کن پیروی خدا را در قول قدسیانہ
ترجمہ: اگر تو عجلت چاہتا ہے اور اللہ کی مدد چاہتا ہے تو خدا کے لیے اللہ کے نیک بندوں کے اقوال کی پیروی کر۔
گزشتہ مضمون میں 1971ء تک کے حالات مفصل بیان کیے گئے تھے۔ اب اس سے آگے کا احوال حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کے پیشن گوئیوں کے قصیدے کی رو سے پیش خدمت ہے۔
از اہل حق نہ بینی درآں زماں کسے را
دز دان و رہزنے را بر سر نہند عمامہ
ترجمہ: تو اس وقت کسی کو اہل حق نہ دیکھے گا۔ لوگ ''چور'' اور ''ڈاکوئوں'' کے سر پر دستار رکھیں گے۔
یہ شعر بھی حال یعنی موجودہ دور سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات بات اشارہ و کنایہ میں کہی جاتی ہے۔ یہ شعر بھی زمانہ حال یعنی موجودہ دور کے بارے میں ہوسکتا ہے۔
بر مومنان غربی شد فضل حق ہویدا
آید بدست ایثاں مردان کار دانہ
ترجمہ: مغرب (پاکستان) کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل ظاہر ہوگا۔ ان کے ہاتھ کام چلانے والے آدمی آجائیں گے۔ موجودہ دور میں پاکستان میں کوئی ایسی غیر معمولی شخصیت یا دیانتدار سیاستدان تو پیدا نہیں ہوا جسے خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔ مذکورہ شعر کے مطابق قوم کے ہاتھ حقیقتاً اگر کوئی کام چلانے والا آدمی آیا ہے تو وہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی ہیں۔ جنھیں تمام قوم اپنا قومی ہیرو ماننے پر متفق ہے۔ کسی نے بجا کہا ہے کہ اگر قائداعظم نے پاکستان بنایا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان بچایا۔ آج اگر دشمن ہم پر حملے کی جرأت نہیں کررہا تو اس کی واحد وجہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بنایا ہوا ایٹم بم ہے جس سے پاکستان دنیا کے 192 ممالک میں ساتوں ایٹمی طاقت کے طور پر ابھر آیا۔
بینی تو پند معروف پنہاں شود در عالم
سازند حیلہ افسوں نامش نہند نظامہ
ترجمہ: نیک کام کرنے کی نصیحت دنیا میں چھپ جائے گی۔ دھوکہ بازی اور فسوں سازی کے حربوں اور ہتھکنڈوں کا نام نظام حکومت رکھ لیں گے۔
آزمائے ہوئے پیشہ ور سیاستدانوں اور حکمرانوں نے آج کل ''نظام حکومت'' بدلنے کے نت نئے پرکشش فقروں سے عوام کو ایک بار پھر دھوکہ دینے اور لوٹنے کی حکمت عملی پر کام شروع کررکھا ہے۔
گردو ریاء سروج در شرق و غرب ہر سو
فسق و فجور باشد منظور خاص و عامہ
ترجمہ: مشرق اور مغرب میں ہر طرف ر یاء کاری رواج پاجائے گی۔ عام و خاص لوگوں کے لیے فسق و فجور منظور خاطر ہوگا۔
بعداز تذلیل شاں از رحمت پروردگار
نصرت و امداد از ہمسائیگاں پیدا شود
ترجمہ: ان کی ذلت کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے نصرت اور امداد پڑوسی ممالک سے ظاہر ہوگی۔
لشکر منگول آید از شمال بہرعون
فارس و عثمان، ہمچارہ گراں پیدا شود
ترجمہ: منگول لشکر شمال کی جانب سے مدد کے لیے آئے گا۔ ایران (فارس) والے اور ترکی (عثمان) والے بھی مدد گار ثابت ہوں گے۔
ایں ہمہ اسباب عظمت بعد حج گرود پدید
نصرتے ازغیب چوں برمومناں پیدا شود
ترجمہ: کامیابی کے یہ تمام اسباب حج کے بعد ظاہر ہوں گے۔ جب مسلمانوں کو غیب سے مدد اور نصرت آن پہنچے گی۔
قدرت حق میکند غالب چناں مغلوب دا
از عمق بینم کہ مسلم کامراں پیدا شود
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی قدرت سے مغلوب کو غالب کردے گا۔ میں گہری نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان فاتح اور کامران ہوں گے۔
تاریخ دان دنیا کی تقریباً تمام قوموں کو چار بڑی اقوام یعنی آیہ، منگولیہ، حبشیہ اور یورپسیہ کی مختلف ذیلی شاخیں سمجھتے ہیں۔ اہل یورپ گورے اور سرخ و سفید ہوا کرتے ہیں۔ اہل حبشہ سیاہ رنگ کے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ تر افریقہ میں آباد ہیں۔ اہل آریہ سے مراد ہندوستان، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے لوگ ہیں جبکہ اہل منگولیہ چین اور انڈونیشیا کے باشندگان ہیں۔ لہٰذا گزرے ہوئے شعر میں پاکستان کی مدد کے لیے شمال کی طرف سے آنے والا ''لشکر منگول'' چائنا ہی کی فوج کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ پیشن گوئیوں کے مذکورہ قصیدے کے سینکڑوں اشعار دستیاب نہیں ہیں، اس لیے بعض مقامات پر عدم تسلسل اور خلاء محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا بعض اشعار کا آگے پیچھے ہوجانا خارج از امکان نہیں، اسی لیے واقعات کی ترتیب میں جابجا بگاڑ کا شبہ ہوتا ہے۔
پانصد ہوفتار ہجری بوچوں ایں گفتہ شد
قادر مطلق چنیں خواہد چناں پیدا شود
ترجمہ: جب یہ اشعار کہے گئے تو اس وقت 570 ہجری بمطابق 1174 عیسوی ہے۔ لہٰذا خدائے بزرگ و برتر اس طرح چاہتے ہیں اور اسی طرح ظاہر ہوگا۔
چوں شود در دور آنہا جور و بدعت را رواج
شاہ غربی بہرو فعش خوش عناں پیدا شود
ترجمہ: جب اس کے دور میں ظلم اور بدعت رواج پاجائے گا تو غرب کا بادشاہ ان کو دفاع کرنے کے لیے حکومت کی اچھی باگ ڈور سنبھالنے والا پیدا ہوگا۔
قاتل کفار خواہد شد شہ شیر علی
حامئی دین محمدؐ پاسباں پیدا شود
ترجمہ: شیر علی شاہ کافروں کو قتل کرنے والا ہوگا اور سید المرسیلینؐ و خاتم النّبیین حضرت محمد ﷺ کے دین کی حمایت کرنے والا ہوگا اور ملک کے پاسبان کے طور پر ظاہر ہوگا۔
گو ابھی تک اس نام کی معروف شخصیت سامنے نہیں آئی لیکن شاید مستقبل میں ظاہر ہو۔
بعدآں شود چوں شورش درملک ہند پیدا
فتنہ فساد برپا بر ارض شرکانہ
ترجمہ: اس کے بعد ہندوستان کے ملک میں ایک شورش ظاہر ہوگی۔ مشرکانہ سرزمین پر فتنہ و فساد برپا ہوگا۔
درحسین خلفشارے قومے کہ بت پرستاں
برکلمہ گویاں جابر از قہر ہندوانہ
ترجمہ: اس خلفشار کے وقت بت پرست قوم کلمہ گو مسلمانوں پر اپنے ہندوانہ قہر و غضب کے ذریعے جابر ہوں گے۔
بہر میانت خود از سمت کج شمالی
آید برائے فتح امداد و غائبانہ
ترجمہ: اپنی مدد کے لیے شمال مشرق کی طرف سے فتح حاصل کرنے کے لیے غائبانہ امداد آئے گی۔
آلات حرب و لشکر دا کار جنگ ماہر
باشد سہیم مومن بے حد و بیکرانہ
ترجمہ: جنگی ہتھیار اور جنگی کارروائی کا ماہر لشکر آئے گا، جس سے مسلمانوں کو زبردست اور بے حساب تقویت پہنچے گی۔
عثمان و عرب و فارس ہم مومنان اوسط
از جذبۂ اعانت آیند والہانہ
ترجمہ: ترکی، عرب، ایران اور مشرق وسطیٰ والے امداد کے جذبے سے دیوانہ وار آئیں گے۔
اعراب نیز آیند از کوہ و دشت وہاموں
سیلاب آتشیں شد از ہر طرف روانہ
ترجمہ: نیز پہاڑوں، بیابانوں اور صحرائوں سے عرب بھی آئیں گے۔ آگ والا سیلاب ہر طرف رواں دواں ہوگا۔
چترال، نانگاپربت، باسین، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ
ترجمہ: چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا۔
یکجا شوند عثمان ہم چنیاں و ایران
فتح کنند انیاں کل ہند غازیانہ
ترجمہ: ترکی، چین اور ایران والے باہم یکجا ہوجائیں گے۔ یہ سب تمام ہندوستان کو غازیانہ طور سے فتح کرلیں گے۔
غلبہ کنند ہمچوں مور و ملخ شباشب
حقا کہ قوم مسلم گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کرلیں گے۔ میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ مسلمان قوم فاتح ہوگی۔
کابل خروج سازد و قتل اہل کفار
کفار چپ وراست سازند بسے بہانہ
ترجمہ: اہل کابل بھی کافروں کے قتل کرنے کے لیے نکل آئیں گے۔ کافر لوگ دائیں بائیں بہانہ سازی کریں گے۔
ازغازیان سرحد لرز و زمین چو مرقد
بہر حصول مقصد آیند والہانہ
ترجمہ: سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی۔ وہ مقصد کے حصول کے لیے دیوانہ وار آئیں گے۔
از خاص و عام آیند جمع تمام گردند
درکار آں فزایند صد گونہ غم فزانہ
ترجمہ: عام و خاص سب کے سب لوگ جمع ہوجائیں گے۔ اس کام میں سینکڑوں قسم کے غم کی زیادتی ہوگی۔
اس شعر کا غازیانہ، دلیرانہ اور فاتحانہ انداز سے کفار کے خلاف جہاد میں کامیابی کی نشانیوں کے باوجود ایک نامعلوم ''غم'' کے لیے تمام سلمانوں کا باہم جمع ہونا تشویشناک نظر آتا ہے۔
بعداز فریضۂ حج پیش از نماز فطرہ
از دست رفتہ گیوند از ضبط غاصبانہ
ترجمہ: فریضۂ حج کے بعد اور عیدالفطر کی نماز سے پہلے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقے کو حاصل کرلیں گے جو انہوں نے غاصبانہ ضبط کیا ہوا تھا۔
رود اٹک نہ سدبار از خون اہل کفار
پرمے شودبر یکبار جریان جاریانہ
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہوگا۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی پیش گوئی کا ہر شعر جہاں ایک ایک باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں مستقبل کے بارے میں ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو ظاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف 45 میل دور دریائے اٹک کے کنارے تک کیسے آپہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ کے پی کے، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار کی مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھر دریائے اٹک تک کفار پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ میدان جنگ آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔
پنجاب، شہر لاہور، کشمیر ملک منصور
دو آب، شہر بجنور گیرند، غالبانہ
ترجمہ: پنجاب، شہر لاہور، ملک کشمیر نصرت شد، دریائے گنگا اور دریائے جمنا کا علاقہ اور بجنور شہر پر مسلمان غالبانہ قبضہ کرلیں گے۔
اس شعر میں مذکور صوبے، علاقے اور شہروں کے نام بالواسطہ طور پر نہ صرف دریائے اٹک کے خونیں معرکہ میں مسلمانوں کی فتح کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ دشمن کو پیچھے دھکیلتے ہوئے پنجاب، لاہور، کشمیر اور ہندوستان کے اندر دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے درمیان دو آبہ کا وسیع علاقہ اور مشہور شہر بجنور پر مسلمانوں کا غالبانہ قبضہ ظاہر کرتے ہیں۔ انشاء اللہ۔
بعداز عقب ایں کار مغلوب اہل کفار
مسرور فوج جرار باشند فاتحانہ
ترجمہ: اس کام کے بعد کافر مغلوب ہوجائیں گے اور مسلمانوں کی جری افواج فتح حاصل کرکے خوش ہوجائیں گے۔
ایں غزوہ تابہ شش ماہ پیوستہ ہم بشرہا
مسلم بفضل اللہ گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ لڑائی چھ ماہ تک انسانوں کے بیچ چلتی رہے گی۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے فاتح ہوں گے۔
خوش می شود مسلمان از لطف و فضل یزداں
خالق نماید اکرم از لطف خالقانہ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمان خوش ہوجائیں گے۔ اللہ پاک خالقانہ لطف و کرم فرمائیں گے۔
کشتہ شوند جملہ بدخواہ دین و ایمان
کل ہند پاک باشد از سم ہندوانہ
ترجمہ: دین اور ایمان کے جملہ بدخواہ لوگ قتل کردیئے جائیں گے۔ تمام ہندوستان ہندوئوں کی علمداری سے پاک ہوجائے گا۔
یوں حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ نے اپنی پیشن گوئیوں کے قصیدے میں پاکستان کے مسلمانوں کو یہ خوش خبری سنائی ہے کہ کچھ مصیبتوں، پریشانیوں اور خراب حالات کے بعد بالآخر فتح حق اور سچ کی ہوگی اور باطل ناکام و نامراد ہوکر شکست کا مزا چکھے گا اور مغلوب ہوجائے گا۔ ۔ انشا ء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب۔
اولیاء کرام اور صوفیاء عظام جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں، ان پر کب اور کس وقت جلال وجمال کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب اور کیسے وہ حالت وجد میں آتے ہیں اور کب مکاشہ اور مشاہدہ اور الہام یا القاء کے ذریعے ان پر غیب کے پردے کھلتے ہیں اور کس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو مستقبلمیں جھانکنے کا اعلیٰ و ارفع روحانی مرتبہ عطا کرتے ہیں۔ ایسے بے شمار سوالات اور بہت زیادہ کرید سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ؐ نے انسان کو منع فرمایا ہے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ نے اپنی پیش گوئیوں کے قصیدے میں ''پیداشود'' (پیدا ہوگا) کی ردیف میں خصوصی طور پر برصغیر پاک و ہند میں رونما ہونے والے غیر معمولی حالات و واقعات سے پردہ اٹھایا ہے۔ مگر اب انھوں نے ویرانہ، زاہدانہ اور فاتحانہ وغیرہ قافیہ کے ذریعے زیادہ وسعت اور وضاحت کے ساتھ برصغیر پاک و ہند اور ملحقہ علاقہ جات میں پیش آنے والے واقعات کو ایسے بیباکانہ طور پر بیان کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں
رازے کہ گفتہ ام من، درے کہ سفتہ ام من
باشد برائے نصرت اسناد غائبانہ
ترجمہ: وہ راز جو میں بیان کرچکا ہوں اور وہ موتی جو میں پرو چکا ہوں، یہ ایک غیبی سند ہے۔ یہ میں نے اس لیے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی یقینا مدد کریں گے۔
عجلت اگر بخواہی، نصرت اگر بخواہی
کن پیروی خدا را در قول قدسیانہ
ترجمہ: اگر تو عجلت چاہتا ہے اور اللہ کی مدد چاہتا ہے تو خدا کے لیے اللہ کے نیک بندوں کے اقوال کی پیروی کر۔
گزشتہ مضمون میں 1971ء تک کے حالات مفصل بیان کیے گئے تھے۔ اب اس سے آگے کا احوال حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کے پیشن گوئیوں کے قصیدے کی رو سے پیش خدمت ہے۔
از اہل حق نہ بینی درآں زماں کسے را
دز دان و رہزنے را بر سر نہند عمامہ
ترجمہ: تو اس وقت کسی کو اہل حق نہ دیکھے گا۔ لوگ ''چور'' اور ''ڈاکوئوں'' کے سر پر دستار رکھیں گے۔
یہ شعر بھی حال یعنی موجودہ دور سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات بات اشارہ و کنایہ میں کہی جاتی ہے۔ یہ شعر بھی زمانہ حال یعنی موجودہ دور کے بارے میں ہوسکتا ہے۔
بر مومنان غربی شد فضل حق ہویدا
آید بدست ایثاں مردان کار دانہ
ترجمہ: مغرب (پاکستان) کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل ظاہر ہوگا۔ ان کے ہاتھ کام چلانے والے آدمی آجائیں گے۔ موجودہ دور میں پاکستان میں کوئی ایسی غیر معمولی شخصیت یا دیانتدار سیاستدان تو پیدا نہیں ہوا جسے خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔ مذکورہ شعر کے مطابق قوم کے ہاتھ حقیقتاً اگر کوئی کام چلانے والا آدمی آیا ہے تو وہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی ہیں۔ جنھیں تمام قوم اپنا قومی ہیرو ماننے پر متفق ہے۔ کسی نے بجا کہا ہے کہ اگر قائداعظم نے پاکستان بنایا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان بچایا۔ آج اگر دشمن ہم پر حملے کی جرأت نہیں کررہا تو اس کی واحد وجہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بنایا ہوا ایٹم بم ہے جس سے پاکستان دنیا کے 192 ممالک میں ساتوں ایٹمی طاقت کے طور پر ابھر آیا۔
بینی تو پند معروف پنہاں شود در عالم
سازند حیلہ افسوں نامش نہند نظامہ
ترجمہ: نیک کام کرنے کی نصیحت دنیا میں چھپ جائے گی۔ دھوکہ بازی اور فسوں سازی کے حربوں اور ہتھکنڈوں کا نام نظام حکومت رکھ لیں گے۔
آزمائے ہوئے پیشہ ور سیاستدانوں اور حکمرانوں نے آج کل ''نظام حکومت'' بدلنے کے نت نئے پرکشش فقروں سے عوام کو ایک بار پھر دھوکہ دینے اور لوٹنے کی حکمت عملی پر کام شروع کررکھا ہے۔
گردو ریاء سروج در شرق و غرب ہر سو
فسق و فجور باشد منظور خاص و عامہ
ترجمہ: مشرق اور مغرب میں ہر طرف ر یاء کاری رواج پاجائے گی۔ عام و خاص لوگوں کے لیے فسق و فجور منظور خاطر ہوگا۔
بعداز تذلیل شاں از رحمت پروردگار
نصرت و امداد از ہمسائیگاں پیدا شود
ترجمہ: ان کی ذلت کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے نصرت اور امداد پڑوسی ممالک سے ظاہر ہوگی۔
لشکر منگول آید از شمال بہرعون
فارس و عثمان، ہمچارہ گراں پیدا شود
ترجمہ: منگول لشکر شمال کی جانب سے مدد کے لیے آئے گا۔ ایران (فارس) والے اور ترکی (عثمان) والے بھی مدد گار ثابت ہوں گے۔
ایں ہمہ اسباب عظمت بعد حج گرود پدید
نصرتے ازغیب چوں برمومناں پیدا شود
ترجمہ: کامیابی کے یہ تمام اسباب حج کے بعد ظاہر ہوں گے۔ جب مسلمانوں کو غیب سے مدد اور نصرت آن پہنچے گی۔
قدرت حق میکند غالب چناں مغلوب دا
از عمق بینم کہ مسلم کامراں پیدا شود
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی قدرت سے مغلوب کو غالب کردے گا۔ میں گہری نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان فاتح اور کامران ہوں گے۔
تاریخ دان دنیا کی تقریباً تمام قوموں کو چار بڑی اقوام یعنی آیہ، منگولیہ، حبشیہ اور یورپسیہ کی مختلف ذیلی شاخیں سمجھتے ہیں۔ اہل یورپ گورے اور سرخ و سفید ہوا کرتے ہیں۔ اہل حبشہ سیاہ رنگ کے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ تر افریقہ میں آباد ہیں۔ اہل آریہ سے مراد ہندوستان، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے لوگ ہیں جبکہ اہل منگولیہ چین اور انڈونیشیا کے باشندگان ہیں۔ لہٰذا گزرے ہوئے شعر میں پاکستان کی مدد کے لیے شمال کی طرف سے آنے والا ''لشکر منگول'' چائنا ہی کی فوج کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ پیشن گوئیوں کے مذکورہ قصیدے کے سینکڑوں اشعار دستیاب نہیں ہیں، اس لیے بعض مقامات پر عدم تسلسل اور خلاء محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا بعض اشعار کا آگے پیچھے ہوجانا خارج از امکان نہیں، اسی لیے واقعات کی ترتیب میں جابجا بگاڑ کا شبہ ہوتا ہے۔
پانصد ہوفتار ہجری بوچوں ایں گفتہ شد
قادر مطلق چنیں خواہد چناں پیدا شود
ترجمہ: جب یہ اشعار کہے گئے تو اس وقت 570 ہجری بمطابق 1174 عیسوی ہے۔ لہٰذا خدائے بزرگ و برتر اس طرح چاہتے ہیں اور اسی طرح ظاہر ہوگا۔
چوں شود در دور آنہا جور و بدعت را رواج
شاہ غربی بہرو فعش خوش عناں پیدا شود
ترجمہ: جب اس کے دور میں ظلم اور بدعت رواج پاجائے گا تو غرب کا بادشاہ ان کو دفاع کرنے کے لیے حکومت کی اچھی باگ ڈور سنبھالنے والا پیدا ہوگا۔
قاتل کفار خواہد شد شہ شیر علی
حامئی دین محمدؐ پاسباں پیدا شود
ترجمہ: شیر علی شاہ کافروں کو قتل کرنے والا ہوگا اور سید المرسیلینؐ و خاتم النّبیین حضرت محمد ﷺ کے دین کی حمایت کرنے والا ہوگا اور ملک کے پاسبان کے طور پر ظاہر ہوگا۔
گو ابھی تک اس نام کی معروف شخصیت سامنے نہیں آئی لیکن شاید مستقبل میں ظاہر ہو۔
بعدآں شود چوں شورش درملک ہند پیدا
فتنہ فساد برپا بر ارض شرکانہ
ترجمہ: اس کے بعد ہندوستان کے ملک میں ایک شورش ظاہر ہوگی۔ مشرکانہ سرزمین پر فتنہ و فساد برپا ہوگا۔
درحسین خلفشارے قومے کہ بت پرستاں
برکلمہ گویاں جابر از قہر ہندوانہ
ترجمہ: اس خلفشار کے وقت بت پرست قوم کلمہ گو مسلمانوں پر اپنے ہندوانہ قہر و غضب کے ذریعے جابر ہوں گے۔
بہر میانت خود از سمت کج شمالی
آید برائے فتح امداد و غائبانہ
ترجمہ: اپنی مدد کے لیے شمال مشرق کی طرف سے فتح حاصل کرنے کے لیے غائبانہ امداد آئے گی۔
آلات حرب و لشکر دا کار جنگ ماہر
باشد سہیم مومن بے حد و بیکرانہ
ترجمہ: جنگی ہتھیار اور جنگی کارروائی کا ماہر لشکر آئے گا، جس سے مسلمانوں کو زبردست اور بے حساب تقویت پہنچے گی۔
عثمان و عرب و فارس ہم مومنان اوسط
از جذبۂ اعانت آیند والہانہ
ترجمہ: ترکی، عرب، ایران اور مشرق وسطیٰ والے امداد کے جذبے سے دیوانہ وار آئیں گے۔
اعراب نیز آیند از کوہ و دشت وہاموں
سیلاب آتشیں شد از ہر طرف روانہ
ترجمہ: نیز پہاڑوں، بیابانوں اور صحرائوں سے عرب بھی آئیں گے۔ آگ والا سیلاب ہر طرف رواں دواں ہوگا۔
چترال، نانگاپربت، باسین، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ
ترجمہ: چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا۔
یکجا شوند عثمان ہم چنیاں و ایران
فتح کنند انیاں کل ہند غازیانہ
ترجمہ: ترکی، چین اور ایران والے باہم یکجا ہوجائیں گے۔ یہ سب تمام ہندوستان کو غازیانہ طور سے فتح کرلیں گے۔
غلبہ کنند ہمچوں مور و ملخ شباشب
حقا کہ قوم مسلم گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کرلیں گے۔ میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ مسلمان قوم فاتح ہوگی۔
کابل خروج سازد و قتل اہل کفار
کفار چپ وراست سازند بسے بہانہ
ترجمہ: اہل کابل بھی کافروں کے قتل کرنے کے لیے نکل آئیں گے۔ کافر لوگ دائیں بائیں بہانہ سازی کریں گے۔
ازغازیان سرحد لرز و زمین چو مرقد
بہر حصول مقصد آیند والہانہ
ترجمہ: سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی۔ وہ مقصد کے حصول کے لیے دیوانہ وار آئیں گے۔
از خاص و عام آیند جمع تمام گردند
درکار آں فزایند صد گونہ غم فزانہ
ترجمہ: عام و خاص سب کے سب لوگ جمع ہوجائیں گے۔ اس کام میں سینکڑوں قسم کے غم کی زیادتی ہوگی۔
اس شعر کا غازیانہ، دلیرانہ اور فاتحانہ انداز سے کفار کے خلاف جہاد میں کامیابی کی نشانیوں کے باوجود ایک نامعلوم ''غم'' کے لیے تمام سلمانوں کا باہم جمع ہونا تشویشناک نظر آتا ہے۔
بعداز فریضۂ حج پیش از نماز فطرہ
از دست رفتہ گیوند از ضبط غاصبانہ
ترجمہ: فریضۂ حج کے بعد اور عیدالفطر کی نماز سے پہلے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقے کو حاصل کرلیں گے جو انہوں نے غاصبانہ ضبط کیا ہوا تھا۔
رود اٹک نہ سدبار از خون اہل کفار
پرمے شودبر یکبار جریان جاریانہ
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہوگا۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی پیش گوئی کا ہر شعر جہاں ایک ایک باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں مستقبل کے بارے میں ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو ظاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف 45 میل دور دریائے اٹک کے کنارے تک کیسے آپہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ کے پی کے، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار کی مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھر دریائے اٹک تک کفار پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ میدان جنگ آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔
پنجاب، شہر لاہور، کشمیر ملک منصور
دو آب، شہر بجنور گیرند، غالبانہ
ترجمہ: پنجاب، شہر لاہور، ملک کشمیر نصرت شد، دریائے گنگا اور دریائے جمنا کا علاقہ اور بجنور شہر پر مسلمان غالبانہ قبضہ کرلیں گے۔
اس شعر میں مذکور صوبے، علاقے اور شہروں کے نام بالواسطہ طور پر نہ صرف دریائے اٹک کے خونیں معرکہ میں مسلمانوں کی فتح کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ دشمن کو پیچھے دھکیلتے ہوئے پنجاب، لاہور، کشمیر اور ہندوستان کے اندر دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے درمیان دو آبہ کا وسیع علاقہ اور مشہور شہر بجنور پر مسلمانوں کا غالبانہ قبضہ ظاہر کرتے ہیں۔ انشاء اللہ۔
بعداز عقب ایں کار مغلوب اہل کفار
مسرور فوج جرار باشند فاتحانہ
ترجمہ: اس کام کے بعد کافر مغلوب ہوجائیں گے اور مسلمانوں کی جری افواج فتح حاصل کرکے خوش ہوجائیں گے۔
ایں غزوہ تابہ شش ماہ پیوستہ ہم بشرہا
مسلم بفضل اللہ گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ لڑائی چھ ماہ تک انسانوں کے بیچ چلتی رہے گی۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے فاتح ہوں گے۔
خوش می شود مسلمان از لطف و فضل یزداں
خالق نماید اکرم از لطف خالقانہ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمان خوش ہوجائیں گے۔ اللہ پاک خالقانہ لطف و کرم فرمائیں گے۔
کشتہ شوند جملہ بدخواہ دین و ایمان
کل ہند پاک باشد از سم ہندوانہ
ترجمہ: دین اور ایمان کے جملہ بدخواہ لوگ قتل کردیئے جائیں گے۔ تمام ہندوستان ہندوئوں کی علمداری سے پاک ہوجائے گا۔
یوں حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ نے اپنی پیشن گوئیوں کے قصیدے میں پاکستان کے مسلمانوں کو یہ خوش خبری سنائی ہے کہ کچھ مصیبتوں، پریشانیوں اور خراب حالات کے بعد بالآخر فتح حق اور سچ کی ہوگی اور باطل ناکام و نامراد ہوکر شکست کا مزا چکھے گا اور مغلوب ہوجائے گا۔ ۔ انشا ء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب۔