بچے اور بلوغت تعلیم
اب جہاں تک اس پروگرام میں دی گئی تعلیم کا سوال ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ بہت ابتدائی نوعیت کی معلوم ہوتی ہے۔
اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں روز بہت سی خبریں ملتی ہیں۔ ایسی بہت سی خبریں جن سے ہم دل چسپی رکھتے ہیں اور بہت سی ایسی بھی جن کے بارے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ انھی تینوں ذرائعِ ابلاغ سے ہمیں گذشتہ دنوں میں بار بار بچوں کے جنسی تشدد کا شکار ہونے کی خبریں ملیں۔
ان خبروں میں بالخصوص اُن علاقوں کا بھی ذکر تواتر سے کیا گیا جہاں یہ افسوس ناک واقعات پیش آئے۔ جنسی تشدد کے بعد پنجاب کی معصوم بچی زینب کا قتل ہمارے یہاں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ ایسے گھناؤنے جرائم اس سے پہلے نہ جانے کتنی بار ہوچکے ہیں۔ کاش ہوتا، لیکن افسوس کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں تھا۔ کچھ ہی دن بعد خیبر پختون خوا کی عاصمہ کا واقعہ رپورٹ ہوا۔ اس کے بعد سندھ سے ایسے ہی واقعے کی خبر آئی۔ غرضے کہ ایک کے بعد دوسرا ویسا ہی بہیمانہ عمل۔ درندگی کے یکے بعد دیگرے مظاہرے۔ افسوس صد افسوس۔ یہاں سب سے پہلے ہمیں جس بات کو سمجھ لینا چاہیے وہ یہ کہ ایسا کوئی بھی واقعہ خواہ قصور میں ہو یا ایبٹ آباد میں، دادو، حیدرآباد، کراچی میں ہو یا لاہور، ملتان مانسہرہ، کوئٹہ یا پشاور میں- اُسے صوبے کے تعلق سے نہیں، بلکہ انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
صوبے کے کھاتے میں ڈال کر ایسے واقعات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہایت گھٹیا بات ہے۔ یہ ہمارا اجتماعی اور قومی مسئلہ ہے۔ اس کے سدِباب کے لیے ہمیں اپنے اجتماعی شعور کو بروے کار لانا اور قومی سطح کے اقدامات کرنے چاہییں، نہ کہ ان واقعات کو بنیاد بناکر ایک گروہ دوسرے کو نیچا دکھائے اور ایک صوبہ دوسرے کو ہدف بنائے۔ اگر ہمارے یہاں ایسے واقعات کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی روش عام ہوگئی تو پھر جرائم پر قابو پانا مشکل نہیں، خدانخواستہ ناممکن ہوجائے گا۔ اس لیے کہ پھر اہلِ سیاست و اقتدار مجرموں کا تعاقب کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے تعاقب میں لگ جائیں گے۔
زینب کے واقعے پر اس کے عزیزواقارب اور علاقے کے افراد نے جس طرح غم و غصے کا اظہار کیا، وہ بھی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بہت بار ایسے ہی ردِعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ البتہ اس واقعے اور اس کے بارے میں سامنے آنے والے احتجاج کو ہمارے پرنٹ میڈیا ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ الیکٹرونک اور خصوصاً سوشل میڈیا نے جو توجہ دی، جس طرح فوکس کیا اور موضوعِ گفتگو بنایا اور اُس کے نتیجے میں جس طرح ملک کے مختلف علاقوں اور طبقوں میں گفتگو کا در کھلا، وہ کچھ الگ نوعیت کا واقعہ ہے۔ مثال کے طور پر اس ضمن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا، بلکہ کچھ معروف شخصیات نے اپنے کم عمری کے ایسے ہی اذیت ناک تجربات کا بھی کھلے لفظوں میں ذکر کیا۔ چناںچہ اس پر اجتماعی رائے یہی سامنے آئی کہ ایسے واقعات کو بے عزتی کے خوف سے دبانا اور چھپانا درست نہیں۔ اس سے مجرمانہ ذہنیت کو تقویت ملتی ہے اور اس کی روک تھام کا عمل شروع نہیں ہوپاتا۔ اس سارے اظہار اور ردِعمل کا لہجہ نمایاں طور سے غم و غصے کو ظاہر کرتا ہے، جو بے جا ہرگز نہیں ہے۔
یہ کہنا کہ اس احتجاج کی لے اس قدر اونچی اور اثر انگیز تھی کہ اس نے ایوانِ اقتدار کے کنگرے ہلا دیے، سراسر سادگی کی بات ہوگی۔ اس لیے کہ حوصلے اور سچائی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ حکومتی سطح پر اس مسئلے کی ساری گونج دراصل اہلِ سیاست کی مرہونِ منّت ہے۔ یہ بات ہرگز ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سیاسی حلقوں کی اس ردِعمل میں شرکت قومی نہیں، بلکہ ذاتی مفاد کے لیے تھی۔
اس کے اسباب بھی بہت واضح تھے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری طرز سیاست ان دنوں جو نقشہ پیش کررہی ہے، وہ خود نقار خانے کا منظر ہے۔ جہاں زینب اور عاصمہ جیسی بچیوں کی زندگی اور موت کا ماجرا اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا جتنی نقارخانے میں طوطی کی ہوتی ہے۔ ہماری سیاست اگر اس نوع کے واقعات کو خلوص اور ایمان داری سے دیکھنا اور توجہ دینا سیکھ جاتی تو آئے دن قوم کی ان پھول سی بچیوں کی جان اور آبرو کا یہ تماشا بننا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس دفعہ بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر جن سیاسی افراد اور گروہوں نے آوازہ بلند کیا، اُن کا مقصد بنیادی طور پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ووٹ بینک کا تحرک رہا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے بہت چھان پھٹک کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے جو نکات اٹھائے گئے اور جس طرح کے بیانات دیے گئے، اگر صرف اُن پر ذرا سا غور کیا جائے تو فوراً اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے بولنے والے کہاں سے بول رہے تھے اور کیا بول رہے تھے۔
خیر، سیاست کو تو رکھیے ایک طرف۔ ہمارے یہاں تو یہ اس وقت ایک حمام کا سا نظارہ پیش کررہی ہے جہاں سب ایک ہی حلیے اور ایک سے حال میں نظر آتے ہیں۔ ہاں، اس معاملے میں عدلیہ کا ردِعمل اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے حوصلہ بڑھتا ہے کہ ملکی نظام اور قومی استحکام کا یہ تیسرا ستون اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے اور بحران کی اس صورتِ حال میں اپنے کردار سے غافل نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جس طرح عوامی غصے، احتجاج اور ردِعمل کا اظہار ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ امید افزا ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک اور قوم کی اصلاح کا عمل اُس وقت تک اوّل تو شروع نہیں ہوتا اور اگر کسی نہ کسی طور سے شروع ہو بھی جائے تو نتیجہ خیز نہیں ہوتا، جب تک کہ اُس کے پس منظر میں اجتماعی شعور کارفرما نہ ہو۔ اس لیے کہ اجتماعی شعور صرف اُس ضرورت کا اظہار نہیں کرتا جو گروہِ افراد میں پائی جاتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اُس ارادے کا بھی مظہر ہوتا ہے جو اس ضرورت کے پورا کرنے کے لیے کسی قوم کے افراد کے اندر مجموعی طور پر پایا جاتا ہے۔ یہی ارادہ قوم کے افراد کے اجتماعی مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تبدیلی اور اصلاح کے اہداف اور ذرائع کا تعین کرتا ہے۔ ان کے لیے حکمتِ عملی بناتا اور اقدامات کرتا ہے۔ یہ اجتماعی شعور ہی ہوتا ہے جو افراد کے حقوق اور ان کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے اور قومی بقا اور استحکام کی نگہ داری بھی کرتا ہے۔
معصوم بچوں کے بہیمانہ استحصال اور وحشیانہ قتل پر جس قومی سطح کے ردِعمل کا اظہار کیا گیا، وہ اصل میں اسی لیے امید افزا ہے کہ اُس میں اجتماعی شعور کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ اس اجتماعی شعور نے دو ٹوک اور غیر مشروط رائے کا اظہار کیا ہے۔ چناںچہ اس سے ہمیں دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ پہلی یہ کہ سیاست دانوں کے سارے ہتھکنڈوں کے باوجود ہمارا قومی طرزِ احساس نہ صرف قائم ہے، بلکہ قومی اور انسانی سطح کے ہر معاملے کو اسی طرح دیکھتا ہے جیسا کہ دیکھا جانا چاہیے۔ سیاسی محاذوں پر ہونے والی دھما چوکڑی نے لسانی، علاقائی، گروہی اور ثقافتی سطح پر اُس کو متأثر نہیں کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اب تک اس میں کوئی ایسی دراڑ نہیں پڑ سکی جو ہمارے انسانی رویوں کو بدل سکے، جس کے نتیجے میں ہمارے یہاں علاقائی، لسانی، گروہی یا کہ صوبائی تعصب کا اظہار ہونے لگے۔ قومی شعور کا یہ رویہ یقینا خوش کن اور حوصلہ افزا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہم ایک تہذیبی معاشرہ ہیں۔ ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار کا اپنا ایک نظام اور اثر کا ایک دائرہ ہے۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسی اقدار کے تحت معاشرے میں کچھ چیزیں ممنوعات یا ٹیبوز بن جاتی ہیں۔ ان ٹیبوز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ بڑے سے بڑے مسائل کے باوجود لوگ ان کے بارے میں زبان کھولنے اور رائے دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کو عزت خاک میں ملانے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا لوگ ساری عمر اپنی روح کے زخموں کو خاموشی سے اندر ہی اندر سہلانا یا اُن کا ناسور بن جانا گوارا کرلیتے ہیں، لیکن اُن کا اظہار کرکے مداوا پانے پر آمادہ نہیں ہوا کرتے۔
ویسے تو یہ دنیا کے سارے روایتی معاشروں کا مسئلہ سمجھا گیا ہے، لیکن خاص طور پر ہم جیسے معاشرے جہاں اب بھی خاندانی اور گروہی نظام اپنا ایک دائرۂ اثر رکھتا ہے، وہاں اس طرح کے مسائل کی صورتِ حال بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ تأثر کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔
ان میں سے ایک اہم اور نہایت تکلیف دہ وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسے الم ناک سانحات کو بیان کرنے والے لوگوں کے لیے وقتی طور پر تو بے شک ہم دردی کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن بعد میں انھیں اپنی سماجی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات کا بھی بہت زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغرب کے تو کئی ایک معاشرے نشاۃِ ثانیہ کے بعد سے ہی ایسی تبدیلیوں سے گزرنے لگے تھے کہ پھر آگے چل کر اُن کے یہاں ایسے ٹیبوز کی گنجائش ہی ختم ہوتی چلی گئی۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ معاشرے ٹیبوز سے تو بڑی حد تک چھٹکارا پاگئے، لیکن اس چکر میں انھوں نے اپنے اخلاقی و سماجی اقدار کے نظام کو تبدیلی کی ہواؤں کے جس رُخ پر لا چھوڑا تھا، اُس نے تقدیس اور تحریم کے تصورات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع جس پر سرسری انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ یوں بھی ہم اس وقت صرف اپنے معاشرے اور اس کے ایک بڑے مسئلے پر بات کررہے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ نصف صدی اور خصوصاً اڑھائی تین عشروں میں ہمارے سماج میں بھی ایک بڑی تبدیلی کا موسم اپنے رنگ بکھیرتا چلا گیا ہے۔ اکیس ویں صدی میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے رویوں اور مزاج کے بدلنے میں بہت نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس تبدیلی کا ایک طرح سے کسی قدر اندازہ حالیہ دنوں میں زینب کے واقعے کے ردِعمل سے بھی واضح طور پر کیا جاسکتا ہے۔
اس موضوع پر گفتگو کے پہلو تو بہت سے ہوسکتے ہیں، لیکن وہ پہلو جو ثانوی درجے کے نظر آتے ہیں، انھیں چھوڑ کر ہمیں ایک بنیادی مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت اور اہمیت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ زینب کے واقعے پر بات کرتے ہوئے ایسے مسائل کی روک تھام کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے، ان کے ضمن میں یہ بھی کہا گیا کہ ہمارے یہاں اسکول کی سطح پر بچوں کو وہ تعلیم دی جانی چاہیے جو اُن میں جنسی استحصال کا شعور پیدا کرے تاکہ وہ ایسے حادثات کا شکار نہ ہوں، یا اگر کبھی ایسی کوئی صورت پیدا ہو تو اپنا دفاع کرسکیں یا مدد کے لیے لوگوں کو بلاسکیں۔ اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے، وہ ضرور کیا جانا چاہیے۔ ویسے دیکھیے تو بچوں کی جنسی تعلیم کا یہ سوال ہمارے یہاں کچھ عرصے پہلے سے اٹھایا جارہا ہے، لیکن اس بار بہت شدومد سے سامنے آیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہم سب نے اجتماعی طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ بچوں کی جنسی تعلیم لازمی طور سے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوگی۔
اس رائے کا اظہار سوشل میڈیا پر بیانات اور ویڈیو کلپ کے ذریعے بھی کیا گیا ہے، جو ویڈیو کلپ آئے ان میں معروف ہندوستانی اداکار عامر خان کا ایک کلپ سب سے زیادہ وائرل ہوا جس میں وہ بچوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور اسی موضوع پر انھیں تعلیم دے رہے ہیں۔ اس تعلیم کے لیے جدید آلات کے تصویری ذرائع سے بھی مدد لی گئی تھی تاکہ ابلاغ کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکے اور بعض ایسی باتیں جنھیں لفظوں میں بیان کرنا دشوار ہے، وہ بھی سمجھائی جاسکیں۔ اس پروگرام میں شریک بچوں کی عمریں پانچ ساڑھے پانچ سال سے لے کر تیرہ ساڑھے تیرہ برس تک بتائی گئیں۔ پروگرام کا اسکرپٹ اچھا تھا اور عامر خان نے اس کو نبھایا بھی ذمے داری اور سلیقے سے۔
اب جہاں تک اس پروگرام میں دی گئی تعلیم کا سوال ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ بہت ابتدائی نوعیت کی معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ بتایا گیا کہ جسم کے تین حصے بہت پرائیویٹ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انھیں آپ کی ماں اور باپ کے سوا کوئی اور نہیں چھو سکتا۔ ہاں ڈاکٹر چھو سکتا ہے، لیکن اس وقت بھی یہ ضروری ہے کہ آپ اکیلے نہ ہوں، بلکہ آپ کی ماں یا باپ میں سے کوئی ضرور ساتھ ہوگا۔ تعلیم کی یہ کوشش اور اس کے عقب میں موجود سماجی بہتری کی خواہش اور خلوص سب کچھ قابلِ قدر ہے۔ تاہم اس نوعیت کی سادہ اور ابتدائی تعلیم سے یہ توقع کرنا کہ بچوں پر جنسی تشدد کا راستہ روک دیا گیا، سراسر سادگی کے مترادف ہوگا۔ اس حقیقت کے اعتراف کے بعد اب سوال یہ ہے کہ تو پھر کیا اس سے اوپر کی سطح کے پروگرام کرکے بچوں کو جنسی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے یا کیا جانا چاہیے؟
ہوا یہ ہے کہ بچوں کی جنسی تعلیم کا سوال سوشل میڈیا ہی کا سب سے اہم موضوع نہیں بنا، بلکہ ان دنوں الیکٹرونک میڈیا پر بھی یہی بات بار بار کہی گئی۔ شاید ہی کوئی ٹی وی چینل ایسا ہو جس پر اس موضوع کو ٹاک شوز میں نہ اٹھایا گیا ہو۔ یہی نہیں، بلکہ یہ ہر ٹاک شو کا سب سے اہم موضوع بن گیا تھا اور آدھے سے زیادہ وقت یہی زیرِ بحث نظر آتا تھا۔ گفتگو کی اسی گرماگرمی میں سب نے یہ فرض کرلیا کہ اس مسئلے کا سب سے اہم اور بہتر حل یہی ہے۔ ویسے تو سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا، ہمارا مزاج یہ ہے کہ ایک بھیڑ چال شروع ہوجاتی ہے۔ ہر آدمی ایک ہی طرح سے چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے اور ملتے جلتے تأثرات ہی سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ مسئلہ زیرِ بحث کے دوسرے پہلو بھی توجہ طلب ہوسکتے ہیں، اور یہ کہ جب تک کسی مسئلے کے سارے زاویے سامنے نہ رکھے جائیں، اُسے بہتر طور پر سمجھنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس کا جامع حل نکالا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے۔)
ان خبروں میں بالخصوص اُن علاقوں کا بھی ذکر تواتر سے کیا گیا جہاں یہ افسوس ناک واقعات پیش آئے۔ جنسی تشدد کے بعد پنجاب کی معصوم بچی زینب کا قتل ہمارے یہاں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ ایسے گھناؤنے جرائم اس سے پہلے نہ جانے کتنی بار ہوچکے ہیں۔ کاش ہوتا، لیکن افسوس کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں تھا۔ کچھ ہی دن بعد خیبر پختون خوا کی عاصمہ کا واقعہ رپورٹ ہوا۔ اس کے بعد سندھ سے ایسے ہی واقعے کی خبر آئی۔ غرضے کہ ایک کے بعد دوسرا ویسا ہی بہیمانہ عمل۔ درندگی کے یکے بعد دیگرے مظاہرے۔ افسوس صد افسوس۔ یہاں سب سے پہلے ہمیں جس بات کو سمجھ لینا چاہیے وہ یہ کہ ایسا کوئی بھی واقعہ خواہ قصور میں ہو یا ایبٹ آباد میں، دادو، حیدرآباد، کراچی میں ہو یا لاہور، ملتان مانسہرہ، کوئٹہ یا پشاور میں- اُسے صوبے کے تعلق سے نہیں، بلکہ انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
صوبے کے کھاتے میں ڈال کر ایسے واقعات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہایت گھٹیا بات ہے۔ یہ ہمارا اجتماعی اور قومی مسئلہ ہے۔ اس کے سدِباب کے لیے ہمیں اپنے اجتماعی شعور کو بروے کار لانا اور قومی سطح کے اقدامات کرنے چاہییں، نہ کہ ان واقعات کو بنیاد بناکر ایک گروہ دوسرے کو نیچا دکھائے اور ایک صوبہ دوسرے کو ہدف بنائے۔ اگر ہمارے یہاں ایسے واقعات کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی روش عام ہوگئی تو پھر جرائم پر قابو پانا مشکل نہیں، خدانخواستہ ناممکن ہوجائے گا۔ اس لیے کہ پھر اہلِ سیاست و اقتدار مجرموں کا تعاقب کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے تعاقب میں لگ جائیں گے۔
زینب کے واقعے پر اس کے عزیزواقارب اور علاقے کے افراد نے جس طرح غم و غصے کا اظہار کیا، وہ بھی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بہت بار ایسے ہی ردِعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ البتہ اس واقعے اور اس کے بارے میں سامنے آنے والے احتجاج کو ہمارے پرنٹ میڈیا ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ الیکٹرونک اور خصوصاً سوشل میڈیا نے جو توجہ دی، جس طرح فوکس کیا اور موضوعِ گفتگو بنایا اور اُس کے نتیجے میں جس طرح ملک کے مختلف علاقوں اور طبقوں میں گفتگو کا در کھلا، وہ کچھ الگ نوعیت کا واقعہ ہے۔ مثال کے طور پر اس ضمن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا، بلکہ کچھ معروف شخصیات نے اپنے کم عمری کے ایسے ہی اذیت ناک تجربات کا بھی کھلے لفظوں میں ذکر کیا۔ چناںچہ اس پر اجتماعی رائے یہی سامنے آئی کہ ایسے واقعات کو بے عزتی کے خوف سے دبانا اور چھپانا درست نہیں۔ اس سے مجرمانہ ذہنیت کو تقویت ملتی ہے اور اس کی روک تھام کا عمل شروع نہیں ہوپاتا۔ اس سارے اظہار اور ردِعمل کا لہجہ نمایاں طور سے غم و غصے کو ظاہر کرتا ہے، جو بے جا ہرگز نہیں ہے۔
یہ کہنا کہ اس احتجاج کی لے اس قدر اونچی اور اثر انگیز تھی کہ اس نے ایوانِ اقتدار کے کنگرے ہلا دیے، سراسر سادگی کی بات ہوگی۔ اس لیے کہ حوصلے اور سچائی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ حکومتی سطح پر اس مسئلے کی ساری گونج دراصل اہلِ سیاست کی مرہونِ منّت ہے۔ یہ بات ہرگز ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سیاسی حلقوں کی اس ردِعمل میں شرکت قومی نہیں، بلکہ ذاتی مفاد کے لیے تھی۔
اس کے اسباب بھی بہت واضح تھے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری طرز سیاست ان دنوں جو نقشہ پیش کررہی ہے، وہ خود نقار خانے کا منظر ہے۔ جہاں زینب اور عاصمہ جیسی بچیوں کی زندگی اور موت کا ماجرا اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا جتنی نقارخانے میں طوطی کی ہوتی ہے۔ ہماری سیاست اگر اس نوع کے واقعات کو خلوص اور ایمان داری سے دیکھنا اور توجہ دینا سیکھ جاتی تو آئے دن قوم کی ان پھول سی بچیوں کی جان اور آبرو کا یہ تماشا بننا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس دفعہ بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر جن سیاسی افراد اور گروہوں نے آوازہ بلند کیا، اُن کا مقصد بنیادی طور پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ووٹ بینک کا تحرک رہا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے بہت چھان پھٹک کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے جو نکات اٹھائے گئے اور جس طرح کے بیانات دیے گئے، اگر صرف اُن پر ذرا سا غور کیا جائے تو فوراً اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے بولنے والے کہاں سے بول رہے تھے اور کیا بول رہے تھے۔
خیر، سیاست کو تو رکھیے ایک طرف۔ ہمارے یہاں تو یہ اس وقت ایک حمام کا سا نظارہ پیش کررہی ہے جہاں سب ایک ہی حلیے اور ایک سے حال میں نظر آتے ہیں۔ ہاں، اس معاملے میں عدلیہ کا ردِعمل اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے حوصلہ بڑھتا ہے کہ ملکی نظام اور قومی استحکام کا یہ تیسرا ستون اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے اور بحران کی اس صورتِ حال میں اپنے کردار سے غافل نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جس طرح عوامی غصے، احتجاج اور ردِعمل کا اظہار ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ امید افزا ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک اور قوم کی اصلاح کا عمل اُس وقت تک اوّل تو شروع نہیں ہوتا اور اگر کسی نہ کسی طور سے شروع ہو بھی جائے تو نتیجہ خیز نہیں ہوتا، جب تک کہ اُس کے پس منظر میں اجتماعی شعور کارفرما نہ ہو۔ اس لیے کہ اجتماعی شعور صرف اُس ضرورت کا اظہار نہیں کرتا جو گروہِ افراد میں پائی جاتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اُس ارادے کا بھی مظہر ہوتا ہے جو اس ضرورت کے پورا کرنے کے لیے کسی قوم کے افراد کے اندر مجموعی طور پر پایا جاتا ہے۔ یہی ارادہ قوم کے افراد کے اجتماعی مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تبدیلی اور اصلاح کے اہداف اور ذرائع کا تعین کرتا ہے۔ ان کے لیے حکمتِ عملی بناتا اور اقدامات کرتا ہے۔ یہ اجتماعی شعور ہی ہوتا ہے جو افراد کے حقوق اور ان کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے اور قومی بقا اور استحکام کی نگہ داری بھی کرتا ہے۔
معصوم بچوں کے بہیمانہ استحصال اور وحشیانہ قتل پر جس قومی سطح کے ردِعمل کا اظہار کیا گیا، وہ اصل میں اسی لیے امید افزا ہے کہ اُس میں اجتماعی شعور کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ اس اجتماعی شعور نے دو ٹوک اور غیر مشروط رائے کا اظہار کیا ہے۔ چناںچہ اس سے ہمیں دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ پہلی یہ کہ سیاست دانوں کے سارے ہتھکنڈوں کے باوجود ہمارا قومی طرزِ احساس نہ صرف قائم ہے، بلکہ قومی اور انسانی سطح کے ہر معاملے کو اسی طرح دیکھتا ہے جیسا کہ دیکھا جانا چاہیے۔ سیاسی محاذوں پر ہونے والی دھما چوکڑی نے لسانی، علاقائی، گروہی اور ثقافتی سطح پر اُس کو متأثر نہیں کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اب تک اس میں کوئی ایسی دراڑ نہیں پڑ سکی جو ہمارے انسانی رویوں کو بدل سکے، جس کے نتیجے میں ہمارے یہاں علاقائی، لسانی، گروہی یا کہ صوبائی تعصب کا اظہار ہونے لگے۔ قومی شعور کا یہ رویہ یقینا خوش کن اور حوصلہ افزا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہم ایک تہذیبی معاشرہ ہیں۔ ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار کا اپنا ایک نظام اور اثر کا ایک دائرہ ہے۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسی اقدار کے تحت معاشرے میں کچھ چیزیں ممنوعات یا ٹیبوز بن جاتی ہیں۔ ان ٹیبوز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ بڑے سے بڑے مسائل کے باوجود لوگ ان کے بارے میں زبان کھولنے اور رائے دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کو عزت خاک میں ملانے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا لوگ ساری عمر اپنی روح کے زخموں کو خاموشی سے اندر ہی اندر سہلانا یا اُن کا ناسور بن جانا گوارا کرلیتے ہیں، لیکن اُن کا اظہار کرکے مداوا پانے پر آمادہ نہیں ہوا کرتے۔
ویسے تو یہ دنیا کے سارے روایتی معاشروں کا مسئلہ سمجھا گیا ہے، لیکن خاص طور پر ہم جیسے معاشرے جہاں اب بھی خاندانی اور گروہی نظام اپنا ایک دائرۂ اثر رکھتا ہے، وہاں اس طرح کے مسائل کی صورتِ حال بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ تأثر کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔
ان میں سے ایک اہم اور نہایت تکلیف دہ وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسے الم ناک سانحات کو بیان کرنے والے لوگوں کے لیے وقتی طور پر تو بے شک ہم دردی کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن بعد میں انھیں اپنی سماجی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات کا بھی بہت زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغرب کے تو کئی ایک معاشرے نشاۃِ ثانیہ کے بعد سے ہی ایسی تبدیلیوں سے گزرنے لگے تھے کہ پھر آگے چل کر اُن کے یہاں ایسے ٹیبوز کی گنجائش ہی ختم ہوتی چلی گئی۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ معاشرے ٹیبوز سے تو بڑی حد تک چھٹکارا پاگئے، لیکن اس چکر میں انھوں نے اپنے اخلاقی و سماجی اقدار کے نظام کو تبدیلی کی ہواؤں کے جس رُخ پر لا چھوڑا تھا، اُس نے تقدیس اور تحریم کے تصورات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع جس پر سرسری انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ یوں بھی ہم اس وقت صرف اپنے معاشرے اور اس کے ایک بڑے مسئلے پر بات کررہے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ نصف صدی اور خصوصاً اڑھائی تین عشروں میں ہمارے سماج میں بھی ایک بڑی تبدیلی کا موسم اپنے رنگ بکھیرتا چلا گیا ہے۔ اکیس ویں صدی میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے رویوں اور مزاج کے بدلنے میں بہت نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس تبدیلی کا ایک طرح سے کسی قدر اندازہ حالیہ دنوں میں زینب کے واقعے کے ردِعمل سے بھی واضح طور پر کیا جاسکتا ہے۔
اس موضوع پر گفتگو کے پہلو تو بہت سے ہوسکتے ہیں، لیکن وہ پہلو جو ثانوی درجے کے نظر آتے ہیں، انھیں چھوڑ کر ہمیں ایک بنیادی مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت اور اہمیت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ زینب کے واقعے پر بات کرتے ہوئے ایسے مسائل کی روک تھام کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے، ان کے ضمن میں یہ بھی کہا گیا کہ ہمارے یہاں اسکول کی سطح پر بچوں کو وہ تعلیم دی جانی چاہیے جو اُن میں جنسی استحصال کا شعور پیدا کرے تاکہ وہ ایسے حادثات کا شکار نہ ہوں، یا اگر کبھی ایسی کوئی صورت پیدا ہو تو اپنا دفاع کرسکیں یا مدد کے لیے لوگوں کو بلاسکیں۔ اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے، وہ ضرور کیا جانا چاہیے۔ ویسے دیکھیے تو بچوں کی جنسی تعلیم کا یہ سوال ہمارے یہاں کچھ عرصے پہلے سے اٹھایا جارہا ہے، لیکن اس بار بہت شدومد سے سامنے آیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہم سب نے اجتماعی طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ بچوں کی جنسی تعلیم لازمی طور سے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوگی۔
اس رائے کا اظہار سوشل میڈیا پر بیانات اور ویڈیو کلپ کے ذریعے بھی کیا گیا ہے، جو ویڈیو کلپ آئے ان میں معروف ہندوستانی اداکار عامر خان کا ایک کلپ سب سے زیادہ وائرل ہوا جس میں وہ بچوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور اسی موضوع پر انھیں تعلیم دے رہے ہیں۔ اس تعلیم کے لیے جدید آلات کے تصویری ذرائع سے بھی مدد لی گئی تھی تاکہ ابلاغ کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکے اور بعض ایسی باتیں جنھیں لفظوں میں بیان کرنا دشوار ہے، وہ بھی سمجھائی جاسکیں۔ اس پروگرام میں شریک بچوں کی عمریں پانچ ساڑھے پانچ سال سے لے کر تیرہ ساڑھے تیرہ برس تک بتائی گئیں۔ پروگرام کا اسکرپٹ اچھا تھا اور عامر خان نے اس کو نبھایا بھی ذمے داری اور سلیقے سے۔
اب جہاں تک اس پروگرام میں دی گئی تعلیم کا سوال ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ بہت ابتدائی نوعیت کی معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ بتایا گیا کہ جسم کے تین حصے بہت پرائیویٹ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انھیں آپ کی ماں اور باپ کے سوا کوئی اور نہیں چھو سکتا۔ ہاں ڈاکٹر چھو سکتا ہے، لیکن اس وقت بھی یہ ضروری ہے کہ آپ اکیلے نہ ہوں، بلکہ آپ کی ماں یا باپ میں سے کوئی ضرور ساتھ ہوگا۔ تعلیم کی یہ کوشش اور اس کے عقب میں موجود سماجی بہتری کی خواہش اور خلوص سب کچھ قابلِ قدر ہے۔ تاہم اس نوعیت کی سادہ اور ابتدائی تعلیم سے یہ توقع کرنا کہ بچوں پر جنسی تشدد کا راستہ روک دیا گیا، سراسر سادگی کے مترادف ہوگا۔ اس حقیقت کے اعتراف کے بعد اب سوال یہ ہے کہ تو پھر کیا اس سے اوپر کی سطح کے پروگرام کرکے بچوں کو جنسی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے یا کیا جانا چاہیے؟
ہوا یہ ہے کہ بچوں کی جنسی تعلیم کا سوال سوشل میڈیا ہی کا سب سے اہم موضوع نہیں بنا، بلکہ ان دنوں الیکٹرونک میڈیا پر بھی یہی بات بار بار کہی گئی۔ شاید ہی کوئی ٹی وی چینل ایسا ہو جس پر اس موضوع کو ٹاک شوز میں نہ اٹھایا گیا ہو۔ یہی نہیں، بلکہ یہ ہر ٹاک شو کا سب سے اہم موضوع بن گیا تھا اور آدھے سے زیادہ وقت یہی زیرِ بحث نظر آتا تھا۔ گفتگو کی اسی گرماگرمی میں سب نے یہ فرض کرلیا کہ اس مسئلے کا سب سے اہم اور بہتر حل یہی ہے۔ ویسے تو سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا، ہمارا مزاج یہ ہے کہ ایک بھیڑ چال شروع ہوجاتی ہے۔ ہر آدمی ایک ہی طرح سے چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے اور ملتے جلتے تأثرات ہی سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ مسئلہ زیرِ بحث کے دوسرے پہلو بھی توجہ طلب ہوسکتے ہیں، اور یہ کہ جب تک کسی مسئلے کے سارے زاویے سامنے نہ رکھے جائیں، اُسے بہتر طور پر سمجھنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس کا جامع حل نکالا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے۔)