مجھے سنجیدہ اداکاری پسند نہیں عالیہ بھٹ

یہ پذیرائی ایک بار مل جائے تو پھر یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے، اداکارہ

یہ پذیرائی ایک بار مل جائے تو پھر یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے، اداکارہ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
عالیہ بھٹ بولی وڈ کی وہ اداکارہ ہے جس کی حالیہ فلم '' اڑتا پنجاب'' بہت کام یاب رہی ہے۔ عالیہ کسی سے ڈرتی نہیں اور سب کے بارے میں بہت کھل کر بات کرتی ہے۔

آج کل عالیہ بھٹ ایک نئی مشکل سے دوچار ہیں، پچھلے دنوں وہ امرتسر سے ممبئی آرہی تھی کہ راستے میں اس نے ایئر لائن کا کھانا کھالیا جس کی وجہ سے وہ فوڈ پوائزننگ کا شکار ہوگئی اور مشکلات میں گھر گئی۔ مزید مشکل یہ کہ اس نے متعدد ٹی چینلز کو، متعدد میگزینز کو اور کئی ایک فلم سازوں کو ملنے کو وقت بھی دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ خاصی الجھن میں رہی۔ پھر بھی اس نے پوری توانائی اور توجہ کے ساتھ تمام وعدے پورے کیے اور سب سے ملاقاتیں کیں۔

عالیہ بھٹ ایک ایسی لڑکی ہے جو ہر وقت ہنستی مسکراتی رہتی ہے اور باوجود بہت زیادہ مصروف ہونے کے وہ خود کو بالکل کمپوز رکھتی ہے۔ نہ کبھی تھکی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور نہ پریشان۔

اس خوش مزاج اسٹار کا حال ہی میں لیا جانے والا ایک انٹرویو قارئین کے لیے پیش ہے:

٭آپ نے اپنی دوسری فلم ''ہائی وے'' میں تو اپنی پرفارمینس کا ایک انوکھے انداز میں رنگ جمایا، مگر ''اُڑتا پنجاب'' میں آنے اپنی لاجواب اداکاری سے اپنے ناقدین کے منہ بند کردیے۔ اس فلم میں آپ کا اصل ٹیلنٹ دکھائی دیا۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

عالیہ: یہ وہ چیز ہے جس کی ہر فن کار کو ضرورت ہوتی ہے، وہ اسی تعریف کا خواہش مند ہوتا ہے۔ یہ پذیرائی ایک بار مل جائے تو پھر یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے، کبھی ختم نہ ہو۔ میرے کام کی تعریف سبھی نے کی، عامر خان سے لے کر امیتابھ بچن تک ہر ایک نے میرے کام کر سراہا، مجھے مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ لیکن اصل تعریف تو عام آدمی نے کی تھی، وہ ایسے کہ جب میں امرتسر جارہی تھی تو بہت سے لوگ جن میں کئی کسان بھی شامل تھے، میرے پاس آئے اور انہوں نے ''اڑتا پنجاب'' کے بارے میں مجھ سے باتیں کیں اور اس میں میرے کام کی خوب تعریف کی۔ ایک شو کے لیے مجھے کسانوں سے رابطہ کرنا پڑا تو ایک کسان نے مجھ سے کہا تھا:''عالیہ بھٹ! میں نے اڑتا پنجاب کے بارے میں سنا ہے کہ اس فلم میں ایک اہم مسئلہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس فلم نے بہت شور مچایا ہے بھئی!'' ظاہر ہے مجھے یہ سب سن کر بہت اچھا لگا۔

میں نے بھی ''اڑتا پنجاب'' میں دل سے کام کیا تھا اور عام فلم بینوں کی تعریف ہمارے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ہوتی ہے جو میرے خیال میں مجھے مل گیا۔

٭آپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ ''ہائی وے'' نے تمہارا کردار بالکل مختلف تھا جس میں آپ اپنے اصل روپ میں دکھائی دی تھیں، مگر ''اڑتا پنجاب'' میں تو آپ نے کمال کردیا جس میں آپ نے ایک بالکل مختلف کردار ادا کیا ہے جس نے سبھی کو حیران کردیا ہے۔ کیا کہیں گی؟

عالیہ: اس فلم کی شوٹنگ کے دوران میں نے خود کو بالکل بدل دیا تھا، میں نے اپنا آئی فون تک نظرانداز کردیا تھا جو میرے لیے ایک مشکل کام تھا، میں نے ایک سادہ سا فون لیا تھا جس میں انٹرنیٹ بھی نہیں تھا، یہ فون میں نے صرف اپنی فیملی اور قریبی دوستوں سے رابطے میں رہنے کے لیے رکھا تھا۔ میں اس میں خود کو ایک بالکل بدلی ہوئی لڑکی کے طور پر پیش کرنا چاہتی تھی۔ ہوٹل میں پیدل چل کر اوپر والے فلورز تک جاتی تھی، لفٹ بالکل استعمال نہیں کرتی تھی اور خود کو بالکل عام لڑکی دکھانا چاہتی تھی۔

٭اچھا تو فلم کی شوٹنگ کے بعد کیا کرتی تھیں؟

عالیہ: میرے اندر یہ صلاحیت قدرتی طور پر پائی جاتی ہے کہ جب میرا کام پورا ہوجاتا ہے تو میں فوری طور پر خود کو اپنے نارمل ماحول میں لے آتی ہوں۔ گویا میری حقیقی دنیا اور فن کارانہ دنیا میں زیادہ فاصلے نہیں ہیں، میں خود کو لمحوں میں ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں لے جاتی ہوں۔ ہر روز کام کی تکمیل کے بعد میں خوش اور مطمئن ہوتی تھی کہ میں نے اپنی ذمہ داری نبھادی۔

٭اڑتا پنجاب کی کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے جس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی اور بعد میں اسے منشیات کا عادی بھی بنادیا گیا تھا۔ یہ موضوع تو اچھا نہیں تھا، آپ نے یہ فلم کیسے قبول کرلی؟

عالیہ: جب ہم کوئی فلم کرتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ یہ موضوع اچھا ہے یا برا، کام تو کام ہوتا ہے اور ہمیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم ہر طرح کا کام کرسکتے ہیں، بس اسی لیے میں نے یہ فلم قبول کی تھی۔ یہ فلم کرکے مجھے بہت خوشی ہوئی، سبھی لوگوں نے اس میں میرے کام کو بہت سراہا۔ ویسے بھی مجھے سنجیدہ کام پسند نہیں، میں اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق ہنستا کھیلتا رول چاہتی ہوں، پہلے آپ اپنے فلم بینوں کو خوب ہنسائیں اور پھر انہیں رلائیں تو مزہ آجاتا ہے۔

٭آپ کرینہ کپور کو بہت پسند کرتی ہیں اور اس کا اظہار بھی کھلم کھلا کرتی رہتی ہو، اب تو لوگ تمہیں اگلی بیبو (کرینہ کپور) کہنے لگے ہیں۔ کیسا لگتا ہے؟

عالیہ: کرینہ کپور ایک ٹیلنٹڈ ایکٹریس ہے جب کہ میں تو ابھی سیکھ رہی ہوں، میرا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ وہ بہت بڑی اداکارہ ہیں اور میں ابھی تک سیکھنے کے مراحل سے گزر رہی ہوں۔

٭سنا ہے آپ اپنے سیٹ پر ہمیشہ وقت پر پہنچتی ہیں، کبھی دیر سے نہیں جاتیں؟ اس کی کیا وجہ ہے؟

عالیہ: میں نہیں چاہتی کہ میرے ڈائریکٹر، پروڈیوسر یا میرے ساتھی فن کار میرے بارے میں یہ سوچنے لگیں کہ میں وقت پر پہنچنے کی عادی نہیں ہوں اور پھر وہ اس پر میرے بارے میں ناپسندیدہ ریمارکس بھی دیں، اس لیے میں نے شروع سے ہی یہ طریقہ اپنایا ہے کہ میں کبھی دیر سے نہ پہنچوں، تاکہ کسی کو کچھ کہنے یا اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے۔

٭آپ کو اداکاری کی طرف کس چیز نے مائل کیا؟

عالیہ: کہانیوں نے، جب میں بچی تھی تب بھی مجھے تصوراتی کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ حالاں کہ میرا بچپن تنہا گزرا۔ مگر پھر بھی میں زندگی سے بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ بس پھر میں اداکاری کی طرف راغب ہوگئی اور میں نے اسے بہ طور پروفیشن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ اپنے اندر کی تنہائی اور اکیلا پن ختم کرسکوں۔


٭آپ نے بہت چھوٹی عمر میں کئی اچھی فلمیں دے دیں، جب کہ اس عمر میں تو اکثر اداکارائیں چلنا سیکھتی ہیں۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اگر آپ اتنی جلدی کام یابیاں حاصل کرتی گئیں تو بہت جلد زوال کی طرف چلی جائیں گی؟

عالیہ: اکثر لوگ میرے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں، مگر میرا خیال اس کے برعکس ہے۔ اس فلم انڈسٹری میں بہت گنجائش ہے، یہاں اچھا خاصا اسکوپ ہے، یہاں فن کی ہر قسم کھپ سکتی ہے اور وہ کھپ رہی ہے۔ اس انڈسٹری میں تو مواقع کی بھرمار ہے، جب کہ میں نے ابھی آدھا راستہ بھی طے نہیں کیا ہے، ایک لمبا راستہ پڑا ہے۔ اس لیے مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔

کالاکنڈی
٭فلم کے نمایاں اداکار:
سیف علی خان، کنال رائے کپور، دیپک ڈوبریال، وجے راز، اکشے اوبرائے، سوبھیتا ڈھولی پالا اور امیرا دستور

٭ہدایت کار: اکشت ورما

اس فلم میں بنیادی کردار سیف علی خان کا ہے، اور فلم کا ٹائٹل مراٹھی لفظKaala-Kaandi ہے جس کے معنیٰ ہیں: کوئی ایسا کام جو ٹھیک انداز سے نہیں کیا جارہا ہے یا پھر اسے نہایت خوف ناک انداز سے غلط پیش کیا جارہا ہے۔

اور جیسا کہ اس کا نام بتارہا ہے، اس فلم کا پہلا فریم ہی بار بار یہ یاد دلا رہا ہے کہ کوئی بھی چیز اس کے کرداروں کے حساب سے ٹھیک نہیں ہوسکتی۔

یہ فلم اس سال ریلیز ہورہی ہے اور یہ باکس آفس پرایک طرف تو انوراگ کیشوو کی '' مکا باز'' سے ٹکرائے گی اور دوسری جانب یہ زرین خان اور کرن کندرا کی ایک ہارر فلم '1921' سے بھی مقابلہ کرے گی۔

Kaalakaandi نامی اس بلیک کامیڈی کی ہدایات اکشت ورما نے دی ہیں جو ''ڈیلی بیلی'' کے اسکرپٹ رائٹر تھے۔

یہ فلم ممبئی کے روایتی پس منظر میں بنائی گئی ہے جس میں بہت سے پُراسرار کردار دکھائے گئے ہیں جو آدھی رات کے بعد بیدار ہوتے ہیں، یہ چیز اس شہر کی وہ زندگی دکھاتی ہے جس کے بارے میں پہلے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔

پوری فلم تین متوازی کہانیوں کے گرد گھومتی ہے اور یہ تینوں کہانیاں ممبئی کی ایک تاریک رات میں جنم لیتی ہیں جب شہر میں بارش ہورہی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تینوں کہانیوں کا ایک دوسری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلی کہانی ریلین (سیف علی) کی ہے جو ایک ادھیڑ عمر انسان ہے اور جس نے اپنی زندگی میں نہ تو کبھی تمباکو نوشی کی ہے اور نہ ہی شراب استعمال کی ہے، مگر اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ معدے کے سرطان میں مبتلا ہے اور اس کی زندگی کے چند ماہ ہی بچے ہیں۔

دوسری کہانی ایک لڑکی سوبھیتا ڈھولی پال کی ہے جو قتل کے ایک کیس میں پھنس گئی ہے اور تیسری کہانی دو جزوقتی گینگسٹرز دیپک ڈوبریال اور وجے راز کے گرد گھومتی ہے جو قتل کے ایک کیس میں پھنس چکے ہیں۔ بنیادی طور پر اس فلم کا مرکزی کردار سیف علی خان ہے اور یہ بلاشبہہ اس کے کیریئر کی بہترین فلم ہوگی۔

جب سیف کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک خوف ناک بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے اور یہ کہ اس کے پاس بہت کم وقت بچا ہے تو وہ اپنی باسکٹ نکالتا ہے جس میں سے وہ تیزاب سے بنائی گئی ایک گولی نکالتا ہے۔

پھر وہ ایک ڈیٹ پر جاتا ہے، اپنے بھائی کی شادی کے موقع پر عجیب سا لباس زیب تن کرتا ہے اور عجیب وغریب حرکتیں کرتا ہے۔ اس کی یہ حرکتیں دیکھ کر ایک شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس طرح کی حرکتیں کرکے خود کو ہر غم سے بچانا چاہتا ہے۔ لیکن اس فلم میں اصل اسٹار کا کردار دیپک ڈوبریال کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس نے بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک جزوقتی گینگسٹر کے کردار میں خود کو منوالیا ہے۔

اس فلم کی کاسٹ میں جو جو اداکار شامل ہیں، ان سبھی نے سیف علی خان اور دیپک ڈوبریال کو چھوڑ کر فلم کی کہانی کو خاصا سہارا دیا ہے اور اپنے کرداروں سے بھرپور انصاف کیا ہے جیسے وجے راج، اکشے اوبرائے اور کنال رائے کپور۔

فلم کی اداکارائیں سبھی اچھی ہیں اور انہوں نے اسکرین پر خوب جادو جگایا ہے چاہے وہ ایشا تلوار ہو جس نے فلم میں سیف کی محبوبہ کا کردار ادا کیا ہے اور چاہے وہ سوبھیتا ڈھولی پال ہو جس نے ایک آزاد خیال عورت کا کردار نبھایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اداکارہ امیرا دستور بھی خوب رہی جس نے فلم میں اکشے اوبرائے کی حسین و جمیل منگیتر کا کردار نبھایا ہے۔

اس فلم کے پس منظر میں خاص طور بارش کی آواز فلم کے سحر کو اور بھی بڑھادیتی ہے اور اس کی وجہ سے فلم کے ہر منظر میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔

تاہم یہ فلم فلم بینوں پر کوئی بھی ٹھوس تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی بلکہ ایسے ہی ختم ہوگئی کہ فلم بین خود ہی اس فلم کے اختتام کا اندازہ لگالیں اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھ لیں۔ اس فلم کا پلاٹ کسی تھرلر کی طرح کھلتا رہتا ہے اور اس میں ہیومر دکھائی نہیں دیتا۔

اس فلم کو دیکھا جائے یا نہیں؟ اگر آپ کسی تجرباتی فلم کو دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں تو اسے ایک بار ضرور دیکھیں، آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔
Load Next Story