دہرے اور بوگس شناختی کارڈز کیخلاف مہم سست روی کا شکار
دہرے نمبر والے شناختی کارڈز بننے کی ایک وجہ نادرا طریقہ کار اور سافٹ ویئر میں موجود سقم ہیں۔
نادرا کی جانب سے مختلف نمبروں کے دہرے اور بوگس شناختی کارڈزکے خلاف جاری مہم سست روی کا شکار ہوگئی۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی تبدیلی کے بعد نادرا کی جانب سے مختلف نمبروں کے دہرے اور بوگس شناختی کارڈزکے خلاف جاری مہم سست روی کا شکار ہوئی ہے جبکہ دہرے نمبر والے شناختی کارڈز بننے کی ایک وجہ نادراکے طریقہ کار اورسافٹ ویئر میں موجود سقم ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف مقاصدکیلئے ایک ہی فرد اپنے دوشناختی کارڈ بنا لیتا ہے جب کہ نادرا پریہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ بعض کرپٹ عناصرمبینہ طور پر بھاری رقم کے عوض افغان مہاجرین کے شناختی کارڈ بنانے میں ملوث رہے ہیں اوراس حوالے سے ایجنسیوںکی اطلاع پر بعض نادرا ملازمین کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ روز ترجمان چیئرمین نادرا نے ٹی وی چینلز پرگفتگو میں کہا ہے کہ ملزم عمران علی کے پاس درحقیقت فزیکلی ایک ہی شناختی کارڈ موجود ہے جس کا نمبر 3510274598347 ہے ۔ دوسرا شناختی کارڈ نمبر 3510275660635 پر فزیکلی کوئی کارڈ آج تک ایشو نہیں ہوا ہے اور یہ نمبر بلاک ہے۔
ترجمان کے مطابق عمران علی کیلیے جاری دو شناختی کارڈ نمبرز کی وجہ یہ ہے کہ ایک شناختی کارڈ نمبر ا سے ب فارم کی بنیاد پر جاری ہوا اور دوسرا پیدائشی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر۔
''ایکسپریس'' کو مختلف ذرائع سے موصول معلومات کے مطابق گزشتہ دوپہر تک نادرا کے ڈیٹا بیس میں علی عمران کے شناختی کارڈ نمبر 3510275660635 کے آگے''بلاک'' یا'' کینسل'' کے ریمارکس موجود نہیں تھے اور یہ شناختی کارڈ نمبر عمران علی کے والدین اور بہن بھائیوں کے شناختی کارڈ نمبرز پر مشتمل فیملی ٹری میں شامل تھا تاہم اس شناختی کارڈ نمبر کے حوالے سے ایف بی آرکے ڈیٹا بیس میں بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی موبائل سمز کے حوالے سے یہ نمبر استعمال ہوا ہے اور نہ ہی یہ نمبر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں موجود ہے جب کہ دوسرے شناختی کارڈ نمبر پر ملزم کا ووٹ بھی درج ہے اور اس پر ایک ہی موبائل کمپنی کی 4 سمز بھی جاری شدہ ہیں اور وہ شناختی کارڈ نمبر ایف بی آر کی ٹیکس پیئر لسٹ میں ''نان فائلر'' کے طور پرموجود ہے۔