آزاد عدلیہ کئی جگہوں پر آئین سے بھی آزاد ہو رہی ہے اعتزاز احسن
گیلانی کی نااہلی غلط فیصلہ تھا، ارسلان کیس میں عدلیہ مروجہ اصولوں سے ہٹ کر فیصلے کر رہی ہے
معروف قانون دان اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ عدلیہ اب کچھ معاملات میں آئین سے آزاد ہو رہی ہے ۔ بی بی سی کوانٹرویو میں اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ بعض معاملات میں عدلیہ آئین سے آزاد ہورہی ہے ، سپریم کورٹ کی فعالیت یکطرفہ ہے ، سب معاملات میں برابر نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہے ، بہت زیادہ آزاد ہے بلکہ کئی جگہوں پر آئین سے بھی آزاد ہو رہی ہے،پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے اور اسے عدالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکتا۔ اعتزاز احسن نے کہا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے پرویز مشرف کے خلاف ڈٹ جانے کی وجہ سے آج ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہو رہا ہے تاہم بعد کے حالات کی وجہ سے اب عدلیہ کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینا عدالت کا غلط فیصلہ تھا جس مقدمے میں یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا وہ نااہلی کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ عدالت کے دائرہ اختیار کا تھا۔
انھوں نے کہا جب آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ سربراہِ مملکت پر مقدمہ نہیں چل سکتا تو سپریم کورٹ کس طرح کسی دوسرے ملک میں اپنے صدر پر مقدمہ چلانے کا حکم دے سکتی ہے ؟ انھوں نے کہا چیف جسٹس کی تقریر کہ ''عدلیہ پارلیمان کو آئینی ترمیم سے روک سکتی ہے'' سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں سے متصادم ہے ۔ سادہ اکثریت سے بنائے گئے قانون پر تو سپریم کورٹ یہ غور کر سکتی ہے کہ کہیں مذکورہ قانون آئین کی کسی شق سے متصادم تو نہیں مگر اگر پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرے تو اسے عدالت میں چیلینج نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ اب پاکستان میں فوج کے اقتدار میں آنے کا خطرہ نہیں کیونکہ موجودہ عدالت نے ایسے فیصلے سنائے ہیں جس سے مارشل لاء کا امکان ختم ہوگیا ہے ۔ اعتزاز نے کہا کہ چیف جسٹس کے اپنے بیٹے کے بارے میں سپریم کورٹ میں جو کارروائی ہو رہی ہے اس کی وجہ سے اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا عدلیہ کا توازن برقرار رہ سکے گا یا نہیں،اس وقت ڈاکٹر ارسلان اور ملک ریاض کے مبینہ لین دین کے معاملے میں عدلیہ تفتیش کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر فیصلے کر رہی ہے ۔
اعتزاز نے کہا انہیں چیف جسٹس کی بحالی اور عدلیہ کے لیے چلائی جانے والی تحریک پرکوئی افسوس نہیں، یہ ایک عوامی فتح کی تحریک تھی۔ انھوں نے کہا آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کامیابی بھی حاصل کرے گی اور دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ صدر آصف زرداری مخلوط حکومت بنانے کا کافی تجربہ رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہے ، بہت زیادہ آزاد ہے بلکہ کئی جگہوں پر آئین سے بھی آزاد ہو رہی ہے،پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے اور اسے عدالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکتا۔ اعتزاز احسن نے کہا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے پرویز مشرف کے خلاف ڈٹ جانے کی وجہ سے آج ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہو رہا ہے تاہم بعد کے حالات کی وجہ سے اب عدلیہ کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینا عدالت کا غلط فیصلہ تھا جس مقدمے میں یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا وہ نااہلی کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ عدالت کے دائرہ اختیار کا تھا۔
انھوں نے کہا جب آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ سربراہِ مملکت پر مقدمہ نہیں چل سکتا تو سپریم کورٹ کس طرح کسی دوسرے ملک میں اپنے صدر پر مقدمہ چلانے کا حکم دے سکتی ہے ؟ انھوں نے کہا چیف جسٹس کی تقریر کہ ''عدلیہ پارلیمان کو آئینی ترمیم سے روک سکتی ہے'' سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں سے متصادم ہے ۔ سادہ اکثریت سے بنائے گئے قانون پر تو سپریم کورٹ یہ غور کر سکتی ہے کہ کہیں مذکورہ قانون آئین کی کسی شق سے متصادم تو نہیں مگر اگر پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرے تو اسے عدالت میں چیلینج نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ اب پاکستان میں فوج کے اقتدار میں آنے کا خطرہ نہیں کیونکہ موجودہ عدالت نے ایسے فیصلے سنائے ہیں جس سے مارشل لاء کا امکان ختم ہوگیا ہے ۔ اعتزاز نے کہا کہ چیف جسٹس کے اپنے بیٹے کے بارے میں سپریم کورٹ میں جو کارروائی ہو رہی ہے اس کی وجہ سے اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا عدلیہ کا توازن برقرار رہ سکے گا یا نہیں،اس وقت ڈاکٹر ارسلان اور ملک ریاض کے مبینہ لین دین کے معاملے میں عدلیہ تفتیش کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر فیصلے کر رہی ہے ۔
اعتزاز نے کہا انہیں چیف جسٹس کی بحالی اور عدلیہ کے لیے چلائی جانے والی تحریک پرکوئی افسوس نہیں، یہ ایک عوامی فتح کی تحریک تھی۔ انھوں نے کہا آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کامیابی بھی حاصل کرے گی اور دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ صدر آصف زرداری مخلوط حکومت بنانے کا کافی تجربہ رکھتے ہیں۔