چالیس چوروں کا تعاقب

بچہ سقہ اس کے کچھ ساتھی مارے گئے لیکن گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے چور کمال ہو شیاری کے ساتھ مشرق کی طرف بھاگ گئے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq January 28, 2018
[email protected]

QUETTA: کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ عرصہ ستر سال سے مسلسل سیٹج ہو رہی ہے لیکن کہانی میں دو چار '' ڈاوٹ'' ایسے ہیں جو ہماری محققانہ طبعیت کو مہمیز کرتے ہیں۔ سب سے بڑا ڈاؤٹ تو یہ ہے کہ کیا وہ چالیس چور واقعی مٹکوں کے اندر پکوڑا ہو گئے تھے۔ اگر ایسا واقعی ہوا ہے تو پھر ان کی نسل کہاں سے آئی اور مسلسل بڑھ کیوں رہی ہے۔

مرنے یا تلنے سے پہلے کی ایسی کوئی روایت نہیں کہ وہ شادی شدہ یا اولاد والے تھے بلکہ غار میں وہ جمع اس لیے کر رہے تھے کہ شادی کے بعد اہل و عیال کے کام آئے۔ دوسرا ڈاؤٹ یہ کہ وہ غار اور اس کا جمع جتھا کہاں چلا گیا۔ کیا علی بابا کے ہاتھ لگ گیا تھا یا پھر کہیں اور چلا گیا۔

ہماری تحقیق کے مطابق ان کے مٹکوں کے اندر تلنے یا پکوڑا بننے کی یہ بات ہی بے بنیاد ہے کہ ایک تو اکٹھا چالیس مٹکے تیل مس مرجینا کہاں سے ان ہنگامی حالات میں لے آئی۔ کیا وہ کوئی ''رادھا'' تھی جو نو من تیل اس کے پاس تھا۔ ٹھیک ہے علی بابا مالدار بنا تھا لیکن آخر اتنا تیل گھر میں کیوں کہاں اور کس لیے اسٹاک کیا ہوا تھا اور پھر آخر مرجینا کے پاس کوئی ٹینکر تو نہیں تھا، اور نہ ہی گھر میں گیس بجلی تھی، لکڑی کا ایندھن ہی استعمال ہوتا تھا تو چالیس مٹکے تیل میں گرم کیسے کیا تھا۔

زیادہ سے زیادہ گھر میں کوئی کڑاہی ہوگی اگر اس میں یک مشت ایک مٹکا تیل بھی گرم ہوتا تو چالیس کڑاھیاں تیل کی ایک ایک کرکے تلنا اور پھر مٹکوں میں ڈالنا۔ اور پھر کیا وہ چور اگر گونگے بھی تھے تو گرم تیل سے کوئی چیخ کوئی پکار کوئی حرکت تو کر سکتے تھے۔ اگر گرم کھولتا ہوا تیل سر پر پڑ جائے تو پتھر بھی بول پڑے اور کہانی میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ مرجینا پہلے ان کے منہ پر ٹیپ لگاتی تھی یا منہ میں کپڑا وغیرہ ٹھونس دیتی تھی اور آخر وہ وہاں مٹکے میں سونے کے لیے تو نہیں آئے تھے کہ ساری رات کسی ایک چور نے بھی سن گن لینے کے لیے ڈھکنا نہیں اٹھایا۔

ان تمام سوالات اور ناممکنات کو مدنظر رکھ کر جو بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ وہ چور سارے پکوڑا نہیں ہو گئے تھے زیادہ سے زیادہ دو تین کو مرجینا نے تلا ہوگا باقی 38یا 37بچ کر بھاگ نکلے ہوں گے اپنے غار میں گئے ہوں گے مال حرام تقسیم کیا ہوگا اور کہیں نکل لیے ہوں گے۔ کہاں؟ یہ بعد میں تحقیق پر پتہ چلے گا۔

بلکہ ''مرجینا'' کے نام میں بھی بہت سارا ڈاوٹ چھپا ہوا ۔ مر اور جینا یعنی دونوں کا موں کی ماہر تھی اور روایت کے مطابق وہ حسین و جمیل اور شکیل و عقیل بھی بہت تھی اور ایسوں کے بارے میں مرشد نے کہاں ہے کہ

محبت میں نہیں ہے فرق ''مرنے'' اور جینے'' کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فر پہ دم نکلے

جہاں تک ہمارا اندازہ ہے جو یقین سے کم نہیں ہے کہ اگر مرجینا واقعی ان صفات کی حامل تھی جو فلموں اور کہانیوں میں دکھائی جاتی ہیں یعنی اپنے وقت کی ہیما مالنی اور زینت امان تھی اورعیار و چالاک بھی تھی تو اس نے یقینا حالات پر غور کرکے راتوں رات ''پارٹی'' بدل لی ہوگی کہ ایک مشکوک اور کمزور لڑکے کے مقابل چار ہٹے کٹے چور جو ایک مالا مال غار کے مالک بھی تھے زیادہ پر کشش لگے ہونگے اور چوروں کے ساتھ جا کر اور غار کی دولت میں حصہ ٹبا کر یہ جا وہ جا ہو گئی ہوگی۔

ممکن ہے کہ چوروں کے سردار سے اس نے دو بول بھی پڑھوالیے ہوں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گرم تیل علی بابا پر انڈیل دیا گیا ہو کیونکہ کہانی میں علی بابا کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا کچھ لوگوں نے فلموں وغیرہ میں محض مصالحہ ڈالنے کیلیے اس کا علی بابا سے ٹانکہ بھڑا ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں بہر حال کہانی کے سارے قرائن اور ہماری تحقیق سے چوروں کا ''مرنا'' ثابت نہیں البتہ جینے کے مواقع زیادہ تھے کیوکہ''مرجینا'' کے لیے انکو مارنا ہر گز ممکن نہیں تھا البتہ جینا آسان تھا اور مرنے سے جینا اس کے فائدے میں بھی تھا وہ گانا تو آپ نے سنا ہوگا کہ

آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیکھ لے

مرنے سے پہلے جینا سیکھ لے

اور مرجینا نے تو پہلے ہی بہت کچھ سیکھا ہوا تھا اس ڈاوٹ بلکہ ان سارے ڈاوٹوں کی بنیاد پر جب ہم نے اپنے ٹٹوئے تحقیق کو دوڑا یا تو سارے قرائن ان چوروں کا مشرق کی طرف آنے کا شارہ کر رہے تھے افغانستان میں ہمیں کچھ ایسی لمبی قبریں ملیں جن کو مقامی لوگ ''چہل گزی'' یعنی چالیس گز کی کہتے ہیں لیکن قبریں چالیس گز سے کم ہیں وہ تو اچھا ہوا کہ ہمیں وہاں ایک عالم ملے اور اس نے سارا مسئلہ حل کردیا۔ اس نے بتایا کہ ''چہل گزی'' غلط العام ہے بلکہ اصل لفظ ''چہل کسی'' یعنی چالیس کس یا لوگ یا چالیس کا جتھا۔

اس عالم نے ایک اور بات جو سب سے بڑی کام کی بتائی وہ تو گویا اس سارے قصے کی ''ماسٹر کی'' ثابت ہوئی اس نے بتایا کہ یہ لوگ جب یہاں آتے تو ان کی شہرت بھی ساتھ آئی تھی لوگ انھیں چوروں کے نام سے یاد کرتے تھے۔ تب انھوں نے کچھ لوگوں کو رقم دے کر ساتھ ملا لیا ۔ ان لوگوں نے مشہور کر دیا کہ ہم نے چوروں کو مار کر اس قبر میں دفن کر دیا ہے حالانکہ چور راتوں رات اپنا جمع جتھا لے کر مشرق کی طرف کوچ کر گئے تھے۔ کہاں؟ یہ تحقیق آگے آئے گی۔کیونکہ بیچ میں ایک غیر مصدقہ اور ضعیف سی روایت یہ آگئی ہے کہ کچھ لوگوں کے مطابق یہ چور وہی تھے جنھوں نے ''بچہ سقہ'' کو اپنا سردار بنایا تھا اور اپنا تعاون پیش کرکے اس کا حوصلہ اتنا بڑھایا کہ وہ ایک سقے کے بیٹے اور پشاور کے ایک چائے والے سے بادشاہ بن گیا۔

بچہ سقہ اس کے کچھ ساتھی مارے گئے لیکن گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے چور کمال ہو شیاری کے ساتھ مشرق کی طرف بھاگ گئے۔درہ خیبر تک تو کچھ نہ کچھ سراغ ملتا ہے بلکہ جمرود پار کرنے کا اندازہ بھی ہوتا ہے لیکن آگے ہمارا ''ٹٹوئے تحقیق ''زیادہ تھکان کی وجہ سے رک گیا، اس لیے مزید معلومات حاصل نہ ہوسکیں لیکن ابھی ہم اپنے ٹٹوئے تحقیق کو کھلا ہلا رہے ہیں اور اسے ''بربرہ'' وغیرہ کر رہے ہیں جب اس میں کچھ جان آجائے تب آگے بڑھنے کا قصد کریں گے۔ نہایت ہی قیمتی معلومات حاصل ہونے کی اور ان چوروں کی اولادوں کا پتہ لگنے کی امید ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔