نعت خوانی
ہمارے ایک صدر جنرل صاحب تھے جن کے گھر میں محفل میلاد بڑے اہتمام سے برپا ہوتی تھی۔
بالآخر میاں شہباز شریف کو خیال آہی گیا اور وہ اپنی حکومت کے خلاف مذہبی اتحاد کے احتجاج کی حدت سے پہلے ہی اس پر پانی ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ شہباز شریف سیال شریف پہنچے اور پیر حمید الدین سیالوی کے گھٹنوں کو چھو کر ان کو رام کرنے کی کوشش کی اور بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے سیال شریف کے اس دورے میں کامیاب رہے ہیں اور پیر صاحب کی مریدی اختیار کر لی ہے.
ہمارے معاشرے میں پیروں فقیروں اور گدی نشینوں کا ایک بہت بڑا حلقہ اثر ہے جن کے آباؤ اجدادنے اللہ کی راہ پانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے چلہ کشیاں کیں اپنے دن رات کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا ان کی اولادیں آج کے دور میں اپنے بزرگوں کے مزاروں پر نسل در نسل گدی نشین ہیں اور ہمارے مرید صفت عوام ان کے زیر اثر ہیں اور اپنے پیر صاحب کا ہر حکم بجا لانے اور ان کی تعظیم کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
سیال شریف کے پیروں کا تعلق چونکہ سرگودھا سے ہے اس لیے میرے آبائی علاقے کی ایک بڑی تعداد ان کے مریدین میں شامل ہے۔ ان کا ایک گھر میرے گاؤں سے متصل ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں پیر صاحبان گرمیوں میں اپنے اہل و عیال اور مویشیوں سمیت قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ میرے قارئین کو شائد یہ بات معلوم نہ ہو کہ میرا تعلق بھی ایک گدی نشین گھرانے سے ہے۔
اعوان قبیلہ میں جو چار سلطان گزرے ہیں ان سب کا تعلق اتفاق سے وادیٔ سون سے تھا ان میں حضرت سلطان باہو، حضرت سلطان مہدی، سلطان حاجی احمد اور حضرت میاں اطہر سلطان جو کہ میرے جد امجد تھے سلطان العارفین کہلائے اور ضلع خوشاب کے ایک مشہور قصبے مٹھہ ٹوانہ میں مدفون ہیں۔ ان کا وسیع و عریض فقیرانہ مزار ان کے مریدین کے لیے آج بھی باعث رحمت و حیرت ہے کہ دنیا کی نمود نمائش سے الگ تھلگ مٹھہ ٹوانہ کے بڑے قبرستان میں ایک وسیع قطعہ اراضی پر اطہر سلطان اور ان کے ساتھی جہاں مدفون ہیں وہ جگہ اور ان کی مزارات نمود و نمائش سے عاری نظر آتے ہیں لیکن ان کا فیض آج بھی جاری ہے اور مریدین کی ایک بڑی تعداد ہر سال جون کی اکیس تاریخ کو تھل کے تپتے صحرا میں ان کے عرس میں بھر پور عقیدت کے ساتھ شریک ہوتی ہے اور فیض پاتی ہے۔
میرے عزیز آج بھی میاں اطہر سلطان کی غریبانہ گدی نشینی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور اگر تعریف کا معاملہ نہ ہو تو شائد پہلے گدی نشین ہیں جو کہ اپنے مریدوں پر اپنے پلے سے خرچ کرتے ہیں۔ مجھے اس بات کا مکمل علم تو نہیں کہ ہمارے بزرگ باقاعدہ پیری مریدی سے منع فرما گئے تھے یا نہیں لیکن ان کے نسل در نسل مریدآج بھی فیض کے لیے مٹھہ ٹوانہ میں مدفون اعوانوں کے ایک سلطان کی درگاہ پر حاضری ضرور دیتے ہیں جن میں ہر طبقہ فکر اور ذات برادری کے لوگ شامل ہیں یوں مجھے بھی اگر شہباز شریف ایک چھوٹا موٹا پیر سمجھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں شاید میں ان کی کوئی مشکل حل کر سکوں۔
بات شروع کی تھی پیری مریدی اور اس کے ہمارے معاشرے پر بڑھتے ہوئے اثرات سے جن کا مشاہدہ ہم آج کل کر رہے ہیں۔ چند روزپہلے بھی عرض کیا تھا کہ میاں شہباز شریف جیسا صلح جو شخص بھی ناموس رسالت جیسے اس اہم ترین معاملے کو ابھی تک حل کرنے میں اپنا کردار کیوں نہیں ادا کر سکا شائد ان تک کسی ذریعے سے میری معروضات پہنچ ہی گئیں اور وہ سیدھے سیال شریف پہنچ گئے اور پیر صاحب کے گھٹنوں کو چھو لیا اور من کی مراد پالی بلکہ ایک ایسے خطرے سے معاشرے اور اپنے آپ کو بچا لیا جس میں سرا سر نقصان ہی تھا اور اس نقصان کا ازالہ کسی کے بس کی بات نہیں تھا۔
بہر حال معاملہ فہم وزیر اعلیٰ نے اس معاملے میں بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں اور صلح جو طبیعت کی بدولت آنیوالے طوفان کو نہ صرف ٹال دیا بلکہ وہ آئندہ انتخابات میں پیر صاحب کی سرپرستی سے بھی سرفراز ہونے کی امید لگائے واپس لوٹے ہیں۔
میں ایک بات عرض کر دوں کہ دنیا چاہے چاند پر پہنچ جائے مگر ہمارے عوام اور ان کے پیر خانوں کے باہمی تعلق اور روابط کو کوئی ختم نہیں کر سکتا بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ پیری مریدی میں مزید پختگی آتی جا رہی ہے اور ان پیر صاحبان کے مریدوں پر اثرات کا الیکشن کے وقت پتہ چلتا ہے جب پیر صاحب کی جانب سے اپنے مریدوں کے لیے حکم آجاتا ہے کہ فلاں امیداوار کی حمائت کریں اور یہ حکم جاری کرانے کے لیے امیداروں کو کیا کیا جتن کرتے پڑتے ہیں اس کے بارے میں پھر سہی۔
آپ کو یاد ہو گا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی ایک پیر صاحب کے پاس چھڑیاں کھانے جاتی تھیں اور بعد میں ان کے شوہر نامدار جناب آصف علی زرداری نے تو اپنے پیر صاحب کو ایوان صدر میں ہی گدی نشین کر دیا۔ میاں نواز شریف صاحب بھی راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور علماء و مشائخ کی سرپرستی کرتے ہیںان کے گھر پر بھی درود و سلام کی محفلیں معمول کی بات ہیں ان کے ہاں بھی کئی خوش الحان صاحبان مستقل مقیم رہتے ہیں جن کی خوش الحانی سے میاں نواز شریف مستفید ہوتے ہیں۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ حال میں پیری مریدی کی ایک نئی قسم بھی دریافت ہوئی ہے جس میں پیر نے ہی مرید بن کر مرید کی بیعت کر لی۔ بہر حال اپنے اپنے نصیب کی بات ہے جس کے نصیب میں جو تھا سو اس کو وہ مل گیا۔
پیری مریدی کا یہ سلسلہ ہم مسلمانوں میں عقیدت کے ساتھ جاری ہے اور جب تک پیر صاحبان میں جان ہے عوام ان کی مریدی میں ہی رہیں اور ان پر اپنی جان و مال قربان کرتے رہیں گے۔ اب مریدوں کے ساتھ ساتھ قربانی کا یہ گر سیاستدانوں تک بھی پہنچ گیا ہے اللہ خیر کرے۔ ہمارے ایک صدر جنرل صاحب تھے جن کے گھر میں محفل میلاد بڑے اہتمام سے برپا ہوتی تھی۔ نعت خوانی میں جنرل صاحب کی والدہ ماجدہ پیش پیش رہتی تھیں۔ پہلے وہ فرش پر سفید چادریں بچھاتی اور پھر ان پر دوزانو ہو کر بیٹھ جاتیں اور نعت خوانی شروع کر دیتیں۔
ہمارے معاشرے میں پیروں فقیروں اور گدی نشینوں کا ایک بہت بڑا حلقہ اثر ہے جن کے آباؤ اجدادنے اللہ کی راہ پانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے چلہ کشیاں کیں اپنے دن رات کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا ان کی اولادیں آج کے دور میں اپنے بزرگوں کے مزاروں پر نسل در نسل گدی نشین ہیں اور ہمارے مرید صفت عوام ان کے زیر اثر ہیں اور اپنے پیر صاحب کا ہر حکم بجا لانے اور ان کی تعظیم کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
سیال شریف کے پیروں کا تعلق چونکہ سرگودھا سے ہے اس لیے میرے آبائی علاقے کی ایک بڑی تعداد ان کے مریدین میں شامل ہے۔ ان کا ایک گھر میرے گاؤں سے متصل ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں پیر صاحبان گرمیوں میں اپنے اہل و عیال اور مویشیوں سمیت قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ میرے قارئین کو شائد یہ بات معلوم نہ ہو کہ میرا تعلق بھی ایک گدی نشین گھرانے سے ہے۔
اعوان قبیلہ میں جو چار سلطان گزرے ہیں ان سب کا تعلق اتفاق سے وادیٔ سون سے تھا ان میں حضرت سلطان باہو، حضرت سلطان مہدی، سلطان حاجی احمد اور حضرت میاں اطہر سلطان جو کہ میرے جد امجد تھے سلطان العارفین کہلائے اور ضلع خوشاب کے ایک مشہور قصبے مٹھہ ٹوانہ میں مدفون ہیں۔ ان کا وسیع و عریض فقیرانہ مزار ان کے مریدین کے لیے آج بھی باعث رحمت و حیرت ہے کہ دنیا کی نمود نمائش سے الگ تھلگ مٹھہ ٹوانہ کے بڑے قبرستان میں ایک وسیع قطعہ اراضی پر اطہر سلطان اور ان کے ساتھی جہاں مدفون ہیں وہ جگہ اور ان کی مزارات نمود و نمائش سے عاری نظر آتے ہیں لیکن ان کا فیض آج بھی جاری ہے اور مریدین کی ایک بڑی تعداد ہر سال جون کی اکیس تاریخ کو تھل کے تپتے صحرا میں ان کے عرس میں بھر پور عقیدت کے ساتھ شریک ہوتی ہے اور فیض پاتی ہے۔
میرے عزیز آج بھی میاں اطہر سلطان کی غریبانہ گدی نشینی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور اگر تعریف کا معاملہ نہ ہو تو شائد پہلے گدی نشین ہیں جو کہ اپنے مریدوں پر اپنے پلے سے خرچ کرتے ہیں۔ مجھے اس بات کا مکمل علم تو نہیں کہ ہمارے بزرگ باقاعدہ پیری مریدی سے منع فرما گئے تھے یا نہیں لیکن ان کے نسل در نسل مریدآج بھی فیض کے لیے مٹھہ ٹوانہ میں مدفون اعوانوں کے ایک سلطان کی درگاہ پر حاضری ضرور دیتے ہیں جن میں ہر طبقہ فکر اور ذات برادری کے لوگ شامل ہیں یوں مجھے بھی اگر شہباز شریف ایک چھوٹا موٹا پیر سمجھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں شاید میں ان کی کوئی مشکل حل کر سکوں۔
بات شروع کی تھی پیری مریدی اور اس کے ہمارے معاشرے پر بڑھتے ہوئے اثرات سے جن کا مشاہدہ ہم آج کل کر رہے ہیں۔ چند روزپہلے بھی عرض کیا تھا کہ میاں شہباز شریف جیسا صلح جو شخص بھی ناموس رسالت جیسے اس اہم ترین معاملے کو ابھی تک حل کرنے میں اپنا کردار کیوں نہیں ادا کر سکا شائد ان تک کسی ذریعے سے میری معروضات پہنچ ہی گئیں اور وہ سیدھے سیال شریف پہنچ گئے اور پیر صاحب کے گھٹنوں کو چھو لیا اور من کی مراد پالی بلکہ ایک ایسے خطرے سے معاشرے اور اپنے آپ کو بچا لیا جس میں سرا سر نقصان ہی تھا اور اس نقصان کا ازالہ کسی کے بس کی بات نہیں تھا۔
بہر حال معاملہ فہم وزیر اعلیٰ نے اس معاملے میں بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں اور صلح جو طبیعت کی بدولت آنیوالے طوفان کو نہ صرف ٹال دیا بلکہ وہ آئندہ انتخابات میں پیر صاحب کی سرپرستی سے بھی سرفراز ہونے کی امید لگائے واپس لوٹے ہیں۔
میں ایک بات عرض کر دوں کہ دنیا چاہے چاند پر پہنچ جائے مگر ہمارے عوام اور ان کے پیر خانوں کے باہمی تعلق اور روابط کو کوئی ختم نہیں کر سکتا بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ پیری مریدی میں مزید پختگی آتی جا رہی ہے اور ان پیر صاحبان کے مریدوں پر اثرات کا الیکشن کے وقت پتہ چلتا ہے جب پیر صاحب کی جانب سے اپنے مریدوں کے لیے حکم آجاتا ہے کہ فلاں امیداوار کی حمائت کریں اور یہ حکم جاری کرانے کے لیے امیداروں کو کیا کیا جتن کرتے پڑتے ہیں اس کے بارے میں پھر سہی۔
آپ کو یاد ہو گا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی ایک پیر صاحب کے پاس چھڑیاں کھانے جاتی تھیں اور بعد میں ان کے شوہر نامدار جناب آصف علی زرداری نے تو اپنے پیر صاحب کو ایوان صدر میں ہی گدی نشین کر دیا۔ میاں نواز شریف صاحب بھی راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور علماء و مشائخ کی سرپرستی کرتے ہیںان کے گھر پر بھی درود و سلام کی محفلیں معمول کی بات ہیں ان کے ہاں بھی کئی خوش الحان صاحبان مستقل مقیم رہتے ہیں جن کی خوش الحانی سے میاں نواز شریف مستفید ہوتے ہیں۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ حال میں پیری مریدی کی ایک نئی قسم بھی دریافت ہوئی ہے جس میں پیر نے ہی مرید بن کر مرید کی بیعت کر لی۔ بہر حال اپنے اپنے نصیب کی بات ہے جس کے نصیب میں جو تھا سو اس کو وہ مل گیا۔
پیری مریدی کا یہ سلسلہ ہم مسلمانوں میں عقیدت کے ساتھ جاری ہے اور جب تک پیر صاحبان میں جان ہے عوام ان کی مریدی میں ہی رہیں اور ان پر اپنی جان و مال قربان کرتے رہیں گے۔ اب مریدوں کے ساتھ ساتھ قربانی کا یہ گر سیاستدانوں تک بھی پہنچ گیا ہے اللہ خیر کرے۔ ہمارے ایک صدر جنرل صاحب تھے جن کے گھر میں محفل میلاد بڑے اہتمام سے برپا ہوتی تھی۔ نعت خوانی میں جنرل صاحب کی والدہ ماجدہ پیش پیش رہتی تھیں۔ پہلے وہ فرش پر سفید چادریں بچھاتی اور پھر ان پر دوزانو ہو کر بیٹھ جاتیں اور نعت خوانی شروع کر دیتیں۔