پائے جنوں میں زنجیر کانپتی ہے  پہلا حصہ

دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے لیے ڈاکٹر ظفر عارف اب زیادہ بڑا خطرہ بن چکے تھے۔


Zahida Hina January 28, 2018
[email protected]

اب سے ڈھائی ہزار برس پہلے یونان کے بوڑھے فلسفی کے شاگردوں کے وہم و گمان میں بھی کیوں ہوگا کہ ان کا بے مثل اور بے بدل استاد زہر کا پیالہ پی کر رخصت ہوگا ۔اسی طرح اپنے عہد کے عظیم فلسفیوں سے پڑھتے ہوئے اور اپنے شاگردوں کو فلسفہ پڑھاتے ہوئے ڈاکٹر ظفر عارف کو کیسے خیال آتا کہ ان کے بوڑھے بدن اور جوان ذہن کو ایک دن کسی کار کی پچھلی نشست پر ابدی نیند سونا پڑے گا۔

70 برس پہلے ان کے خاندان نے پاکستان کا رخ کیا تو یہ وہ لوگ تھے جن کی روایت حصول علم سے جڑی ہوئی تھی۔ ظفر عارف نے کراچی پہنچ کر 13 برس کی عمر میں میٹرک کیا اور 18 برس کے ہوئے تو آرٹس فیکلٹی سے یوں کامیاب وکامران نکلے کہ کراچی یونیورسٹی کی تمام آرٹس فیکلٹیز میں ان کے نمبر سب سے زیادہ تھے۔

ایسے نوجوان کے لیے دنیا میں اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھلے تھے۔ وہ فل اسکالر شپ پر برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی گئے جہاں سے انھوں نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ مغرب کی بہ طور خاص انگلینڈ اور امریکا کی کسی بھی یونیورسٹی میں استاد ہوسکتے تھے۔ زندگی عیش سے گزرتی لیکن انھیں تو پاکستان کے ان لوگوں کی زندگی بدلنے کا شوق تھا جو ذلت اور غربت کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔

ظفر عارف واپس آکر یونیورسٹی آف کراچی کے شعبۂ فلسفہ سے وابستہ ہوئے۔ بہت سے لوگوں کے لیے فلسفہ ہمیشہ ناپسندیدہ ترین موضوع تھا۔ ڈاکٹر ظفر عارف فلسفے کے استاد تھے، اپنے طلبہ کو روشن خیالی کی تعلیم دیتے تھے۔ انھیں یونیورسٹی میں بدترین غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران وہ ہارورڈ یونیورسٹی چلے گئے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے نامور فلسفی Willard Van Orman Quine کے ساتھ کام کیا۔

پروفیسر Quineمغربی فلسفے میں برٹرینڈ رسل کے بعد سب سے بڑا نام تھا۔ Quine Papers میں ڈاکٹر ظفر عارف کی کار گزاری کا بھی ذکر ہے۔ ان ڈگریوں اور اپنی قابلیت کے ساتھ وہ کہیں بھی احترام اور عیش کی زندگی بسرکرسکتے تھے لیکن وہ پھر لوٹ کر پاکستان آئے اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ سے وابستہ ہوئے۔

دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے لیے ڈاکٹر ظفر عارف اب زیادہ بڑا خطرہ بن چکے تھے۔ ان کے ساتھ جی بھر کر بد سلوکی ہوئی، اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انھوں نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کو یکجا کرلیا تھا۔اس کے بعد ڈاکٹر ظفر عارف کی زندگی پاکستانی آمروں کی مزاحمت سے عبارت رہی۔ اس دوران وہ جیل بھی گئے۔ آزاد ہوکر آئے تو بینظیر بھٹو کی سیاست سے وابستہ ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوانوں کو مارکسی فلسفہ پڑھاتے تھے۔

بینظیر برسر اقتدار آئیں تو وہ مفاہمت پر مبنی ان کی سیاست سے ناراض ہوئے اور ان سے علیحدگی اختیار کی۔ بہت دنوں تک ان کی کوئی خیر خبر نہیں ملی۔ ان کے بارے میں جب یہ خبر آئی کہ وہ کراچی کی ایک مغلوب جماعت کے ڈپٹی کنوینیر ہوگئے ہیں تو بے ساختہ زبان سے یا مظہر العجائب نکلا اور یہی سوچتی رہی کہ ایک شخص جس نے اپنی نوجوانی میں انگلستان کی ریڈنگ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ہو جس کا نام کوائن پیپرز میں شریکِ کارکے طور پر آیا ہو۔ جس کے سینے پر وہ تمام تعلیمی کارنامے سجے ہوں جن کی ہم ایسے لوگ تمنا کرتے رہ جاتے ہیں، وہ شخص جسے علمی میدان میں جانے کتنے معرکے سر کرنے تھے، وہ بیگانگی اور تنہائی کی کس انتہا کو پہنچا ہوگا کہ اس نے ساری زندگی کا سرمایہ حیات تہہ کرکے ایک طرف رکھ دیا اور اس ناؤ میں سوار ہوگیا جس کے انجام سے وہ کوئی بے خبر تو نہ تھا۔

ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کیا کہتی ہے، ہم ان کی بیٹی سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتے جو کہہ رہی ہیں کہ ''لوگ کہانیاں بنا رہے ہیں، ورنہ میرے بابا کی موت حرکتِ قلب بند ہونے سے ہوئی ہے۔'' شاید ایسا ہی ہوا ہو یا ایسا بالکل نہ ہوا ہو۔ ایسے میں ایک ماں یاد آتی ہے جس کا نام زہرا علمبردار حسین تھا اور جو شہید حسن ناصر کی ماں تھی، لیکن اس سے پہلے ایک اور قصہ ہندوستان سے آنے والے ایک نوجوان کا۔

ترقی پسند خیالات رکھنے والے خاندانوں میں صرف ڈاکٹر ظفر عارف ہی نہیں تھے جو اس لیے المناک انجام کو پہنچے کہ وہ عام انسانوں کے دکھوں کا مداوا چاہتے تھے۔ وہ خود اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کا دل افتادگانِ خاک کے غموں اور بہتر زندگی تک ان کی نارسائیوں کے دُکھ میں دھڑکتا تھا۔ یہ نادر روزگار افراد تھے۔

پاکستان وجود میں آیا تو ایک افراتفری اور بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پاکستان کے قیام کی حمایت کرچکی تھی ۔ وہ اسے اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتی تھی کہ پاکستان میں روشن خیالی اور ترقی پسندی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایسے نوجوانوں کو پاکستان بھیجے جو نئی مملکت میں علم و ادب اور ترقی پسند خیالات کی آبیاری کرسکیں۔

اس کے لیے قرعۂ فال سجاد ظہیر کے نام نکلا جو 1936ء سے ترقی پسند تحریک کو نہایت کامیابی سے چلا رہے تھے اور جنھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں صرف اردو ہی نہیں ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی نئے خیالات کی کاشت کی تھی جس کی گواہی ہندی کے بڑے ادیبوں نے بھی دی ہے۔ وہ صرف ایک ادیب کے طور پر ہی نہیں، ایک مستعد اور مستقل مزاج منتظم کے طور پر بھی سامنے آئے تھے۔ سجاد ظہیر لکھنؤ کے ایک امیر زادے تھے۔

باپ سر وزیر حسن تھے اور خود سجاد ظہیر انگلستان میں دس برس تک تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ ہندوستان کی مسلم اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک کامیاب اور خوشحال زندگی ان کی منتظر تھی لیکن سر وزیر حسن کے بیٹے نے فقیری اختیار کی۔ اردو کی معروف افسانہ نگار رضیہ سجاد ظہیر ان کی سچی شریک حیات ثابت ہوئیں۔

سجاد ظہیر لکھنؤ میں تھے پارٹی کے حکم پر پاکستان آئے اور یہاں انھوں نے بائیں بازو کے ادیبوں اور دانشوروں کو پاکستان کے ان لوگوں سے جوڑنے کی کوشش کی جو اپنے حقوق سے محروم تھے اور جن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسے سماج میں جہاں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اجارہ داری تھی، وہاں کسے فکر تھی کہ پسے ہوئے در ماندہ لوگوں کی فکر میں لمحہ بھر بھی صرف کرے۔

سجاد ظہیر یہاں آئے اور انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کے لیے مقدور بھر کام کیا۔ ان کی کار گزاری علم و ادب کی ترویج کے لیے تھی لیکن وہ پنڈی سازش کیس کے جھوٹے مقدمے میں دھرے گئے۔ فیضؔ صاحب اور دوسروں کی طرح ان کے سر پر بھی پھانسی کا پھندا جھولتا رہا۔ آخر کار جب انھیں رہائی ملی تو انھوں نے اپنے آبائی وطن ہندوستان کا رخ کیا۔ گھر جاکر انھوں نے تنظیمی کاموں سے کہیں زیادہ ادبی کام کیا اور الما آتا کی ایک ادبی کانفرنس میں جان سے گزر گئے۔ زنداں اور زندگی کے ساتھی فیضؔ صاحب بھی الما آتا کی اس کانفرنس میں موجود تھے۔ جیل کے دو دوستوں اور نظریاتی ساتھیوں کی یہ آخری ملاقات تھی۔ وہیں فیضؔ نے سجاد ظہیر کا مرثیہ لکھا ۔

نہ اب ہم ساتھ سیرِ گُل کریں گے
نہ اب مل کر سرِ مقتل چلیں گے

نہ اب دشتِ جنوں کی شامِ غمگیں
نہ اب گل گشتِ بُتاں کی صبح رنگیں

حدیثِ دلبراں باہم کریں گے
نہ خونِ دل سے شرحِ غم کریں گے

نہ لیلائے سخن کی دوست داری
نہ غم ہائے وطن کی اشک باری

سنیں گے نغمۂ زنجیر مل کر
نہ شب بھر مل کے چھلکائیں گے ساغر

بساطِ بادہ و مینا اٹھا لو
بڑھاؤ شمعِ محفل بزم والو

پیو اب اک جامِ الوداعی
پیو اور پی کے ساغر توڑ ڈالو

سجاد ظہیر پاکستان سے واپس گئے اور ان ہی دنوں حیدرآباد دکن سے طبقۂ اعلیٰ سے تعلق رکھنے والے بانکے اور سجیلے حسن ناصر نے پاکستان کا رخ کیا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔