انڈونیشیا سے ایل این جی سمیت 4 معاہدوں پر دستخط

صد رویدودو کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات، جے ایف 17 طیاروں میں دلچسپی۔


سردار سکندر January 28, 2018
ورلڈ بینک کی نائب صدرکی ملاقات، تعاون کی یقین دہانی۔ فوٹو: پی آئی ڈی

پاکستان اور انڈونیشیا نے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے 4 سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں۔

وزیراعظم ہاؤس میں خصوصی تقریب ہوئی جس میں سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو بھی اس موقع پر موجود تھے۔ انڈونیشیا سے ایل این جی اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے سلسلے میں مفاہمت کی یادداشت پر وزیرتوانائی سردار اویس لغاری اور انڈونیشیا کے وزیر توانائی و معدنی وسائل نے دستخط کیے۔

ترجیحی تجارت کی20 نئی ٹیرف لائنز کیلیے اضافی پروٹوکول پر بھی دستخط کیے گئے۔ وزیر تجارت پرویزملک اور ان کے انڈونیشی ہم منصب نے دستاویز پر دستخط کیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کی سہولت کو بڑھانے کیلیے بھی سمجھوتہ طے پایا۔

اس سے قبل دونوں ممالک کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی وفدکی قیادت کی جبکہ جوکو ویدودو کی سربراہی میں انڈونیشی وفد مذاکرات میں شریک ہوا۔ اس دوران مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور انڈونیشی صدر کے مابین ونٹوون ملاقات بھی ہوئی۔ انڈونیشیا نے سی پیک کے ذریعے علاقائی رابطے اور ترقی بڑھانے کیلیے پاکستان کی کوششوں کا خیرمقدم کیا جبکہ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیاہے کہ افغانستان میں استحکام اور ترقی کیلیے افغان قیادت میں امن عمل ضروری ہے۔

وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم عباسی نے صدر ویدودو کو سی پیک کے ذریعے علاقائی رابطے اور ترقی بڑھانے کی کوششوں سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انڈونیشیا کے سرمایہ کار سی پیک کے ذریعے سرمایہ کاری کے وسیع مواقع سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

صدر ویدودو نے ان کی پیشکش کا خیرمقدم کیا۔ وزیراعظم عباسی نے مہمان صدر کو افغان امن عمل اور مفاہمت کیلیے پاکستان کی کوششوں پر بھی بریفنگ دی اور افغانستان میں امن اور مفاہمت کیلیے انڈونیشیا کی جانب سے کردار ادا کرنے کی خواہش کا خیرمقدم کیا۔

فریقین نے اس بات کا عزم دہرایا کہ اسلامی دنیا کے بڑے ممالک کی حیثیت سے پاکستان اور انڈونیشیا ترقی، خوشحالی، استحکام، سلامتی اور علاقائی خودمختاری کے معاملے پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ دونوں ممالک نے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کے علاوہ انسداد دہشت گردی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی توازن کی ضرورت ہے، دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارت کے مواقع سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ ترجیحی تجارتی معاہدے کو آہستہ آہستہ آزاد تجارتی معاہدے کا درجہ دیا جائے گا۔ انڈونیشیا نے بحر ہند رم ایسوسی ایشن کیلیے پاکستان کی بھرپورحمایت کا یقین دلایا۔ وزیراعظم نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر بھی روشنی ڈالی تاہم بیان میں مہمان شخصیت کی جانب سے بھارتی مظالم کی مذمت کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں کیا گیاہے۔

گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی انڈونیشی صدر نے اپنی تقریر میں مقبوضہ کشمیر کی خراب صورتحال کا احاطہ نہیں کیا تھا حالانکہ سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھاکہ انڈونیشی صدر کو ملاقاتوں میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی ہے۔

علاوہ ازیں پاکستانی حکام توقع کررہے تھے کہ وہ انڈونیشیا میں14سال سے قید ذوالفقار علی جو کینسر میں مبتلا ہے اور اس کا مرض آخری اسٹیج پر ہے، کے حوالے سے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کوئی فوری اعلان کریں گے تاہم صدر ویدودو نے صدر ممنون حسین سے ملاقات میں بتایا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا۔

قبل ازیں انڈونیشی صدر وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے قومی ترانے بھی بجائے گئے۔ پاکستان ایئر فورس کے تین جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے ونگ کمانڈر کاشف کمال کی قیادت میں 500 فٹ تک نیچی پروازکرتے ہوئے معزز مہمان کو سلامی پیش کی اور فلائی پاسٹ کا شاندار مظاہرہ کیا۔ انڈونیشیا کے صدر نے جے ایف 17تھنڈر طیاروں میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

بعدازاں صدر ویدودو 2روزہ دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ ہوگئے۔ صدر ممنون حسین، بیگم محمودہ ممنون حسین، وفاقی وزرا اور دیگر اعلیٰ حکام نے نور خان ایئر بیس پر انھیں رخصت کیا۔ مہمان صدر کو ان کے دورہ پاکستان کی مصروفیات کے حوالے سے تصویری البم بھی پیش کیا گیا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔