نگراں وزیراعظم اور درپیش چیلنجز
اجلاس میں میر ہزار خان کھوسو کے حق میں چار اور مخالفت میں ایک ووٹ آیا۔
جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو نے نگراں وزیراعظم کا حلف اٹھا کر اپنی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔ اس طرح نگراں وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے شروع ہونے والی سیاسی کشمکش کا جس سے پورے ملک میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی' بالآخر خاتمہ ہو گیا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
مرکز میں نگراں وزیراعظم سمیت تین صوبوں میں نگراں وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی کا مرحلہ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے بخوبی طے پا گیا ہے۔ یہ جمہوریت ہی کا فیض ہے کہ نگراں حکومتوں کے مسئلے پر اختلافات کے باوجود سیاسی ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہوا اور منتخب وزیراعظم کی رخصتی کے بعد اقتدار نئے نگراں وزیراعظم کو بغیر کسی لاٹھی گولی کے پرامن طور پر منتقل ہو گیا ہے۔ نگراں وزیراعظم کے تقرر کا پیپلز پارٹی' مسلم لیگ (ن)' مسلم لیگ (ق)' جے یو آئی(ف) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے خیر مقدم کیا ہے جب کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ماضی غیر جانبدار نہیں لیکن اس کے باوجود وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوری عمل کو بلا رکاوٹ آگے بڑھانے کے نکتہ پر اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کیا اور نگراں وزیراعظم کے تقرر کا خیر مقدم کرتے ہوئے ملک میں کسی قسم کا سیاسی انتشار اور افراتفری پیدا نہیں ہونے دی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار نگراں وزیراعظم کا تقرر الیکشن کمیشن کی جانب سے ہوا ہے۔ کمیشن کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی صدارت میں ہونے والے چاروں ارکان پنجاب سے جسٹس (ر) ریاض کیانی' خیبر پختونخوا سے جسٹس (ر) شہزاد اکبر' سندھ سے جسٹس (ر) روشن عیسانی اور بلوچستان سے جسٹس (ر) فضل الرحمن شریک ہوئے۔
اجلاس میں میر ہزار خان کھوسو کے حق میں چار اور مخالفت میں ایک ووٹ آیا۔ صرف جسٹس (ر) ریاض کیانی نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کو نگراں وزیراعظم مقرر کرنے کے حق میں اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔ اس طرح یہ فیصلہ اتفاق رائے سے تو نہ ہو سکا مگر اکثریتی فیصلے کے تحت میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم مقرر کر لیا گیا۔ 16 مارچ کو قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی مگر اس کمیٹی کے کسی ایک نام پر متفق نہ ہونے کی بنا پر فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا۔
الیکشن کمیشن نے بھی طویل بحث و مباحثہ کے بعد نگراں وزیراعظم کا فیصلہ اپنے آخری مرحلے کے آخری دن کیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام ارکان ریٹائرڈ جسٹس ہیں۔ بالآخر ججوں کے ہاتھوں ہی جمہوریت کو استحکام اور تسلسل نصیب ہوا ہے اور اب اقتدار کا ہما بھی ایک ریٹائرڈ جج کے سر پر آن بیٹھا ہے۔ اس سے یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ اگر عدلیہ غیر جانبدار اور انصاف کا علم بلند رکھے تو کوئی بھی ملکی ادارہ خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا اور تمام ادارے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ نگراں وزیراعظم نامزد ہونے والے 84 سالہ جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو 1929ء میں بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے گاؤں اعظم خان میں پیدا ہوئے۔
وہ ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے 1957ء میں وکیل کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کی ابتدا کی۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے آخری دور میں 1977 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج بنے اور جون 1979ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ 1987ء میں ضیاء الحق کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر بلوچستان ہائی کورٹ کے مستقل جج بنے۔ انھیں بینظیر بھٹو کے دور میں 1989ء کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنا دیا گیا۔ انھیں نواز شریف کے دور میں اکتوبر 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت کا جج اور ستمبر1992ء میں وفاقی شرعی عدالت کا چیف جسٹس بنایا گیا۔
صدر زرداری نے انھیں مرکزی زکوٰۃ کونسل کا چیئرمین بنا دیا اور وہ اپنی نئی ذمے داری ملنے تک اسی عہدے پر کام کر رہے تھے۔ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان سے پوری قوم توقع لگائے بیٹھی ہے کہ وہ انتخابات کا عمل شفاف اور غیر جانبدار بنائیں گے۔ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو نگراں وزیراعظم کو الیکشن کمیشن' عدلیہ' فوج سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہے۔ ان کا تعلق بلوچستان سے ہے مگر اس وقت وہاں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں۔ کراچی کے حالات بھی مخدوش ہیں، وہاں ہونے والی قتل و غارت حکومت کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں بم دھماکے اور دہشت گردی کی کارروائیاں معمول بن چکی ہیں۔ اس طرح صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نگراں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گی۔ دیانتدار اور اہل کابینہ کی نامزدگی کا چیلنج بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔ اگر کابینہ میں اہل افراد کو نامزد نہ کیا گیا تو موجودہ ملکی مسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ شفاف انتخابات کے انعقاد پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ ان ہی تمام خدشات کو دور کرنے کے لیے نگراں وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ قوم کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے، اگر انتخابات بروقت نہ ہوئے تو وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے۔
وزیراعظم نے یقین دلایا کہ وہ نگراں حکومت کی مدت بڑھنے نہیں دیں گے، 11مئی کو انتخابات ضرور ہوں گے، ان کی اولین ترجیح ملک میں صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرانا ہے۔ آنے والے دن اپنے اندر بہت سے مسائل سمیٹے ہوئے ہیں۔ کمزور معاشی حالات حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ توانائی کے بحران نے سرمایہ کاری کے عمل کو کمزور کر رکھا ہے۔ نگراں حکومت کرپشن پر قابو پانے پر توجہ دے' سرکاری اخراجات میں کمی لائے اور کابینہ میں اچھی شہرت کے حامل افراد کو شامل کرتے ہوئے اس کا حجم کم از کم رکھے تو معاشی حالات میں بہتری کے آثار ہویدا ہوسکتے ہیں۔
امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ غیر جانبداری سے اپنے فرائض سر انجام دیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے نگراں وزیراعظم کی نامزدگی پر اتفاق کا اظہار کیا ہے اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انھیں اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ ان کی سیاست کا تسلسل جمہوریت کی بقا ہی میں مضمر ہے۔ امید ہے کہ نگراں وزیراعظم اور تمام آئینی ادارے اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے ہوئے امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ انتخابات کا شفاف انعقاد ممکن بنائیں گے تاکہ جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔
مرکز میں نگراں وزیراعظم سمیت تین صوبوں میں نگراں وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی کا مرحلہ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے بخوبی طے پا گیا ہے۔ یہ جمہوریت ہی کا فیض ہے کہ نگراں حکومتوں کے مسئلے پر اختلافات کے باوجود سیاسی ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہوا اور منتخب وزیراعظم کی رخصتی کے بعد اقتدار نئے نگراں وزیراعظم کو بغیر کسی لاٹھی گولی کے پرامن طور پر منتقل ہو گیا ہے۔ نگراں وزیراعظم کے تقرر کا پیپلز پارٹی' مسلم لیگ (ن)' مسلم لیگ (ق)' جے یو آئی(ف) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے خیر مقدم کیا ہے جب کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ماضی غیر جانبدار نہیں لیکن اس کے باوجود وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوری عمل کو بلا رکاوٹ آگے بڑھانے کے نکتہ پر اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کیا اور نگراں وزیراعظم کے تقرر کا خیر مقدم کرتے ہوئے ملک میں کسی قسم کا سیاسی انتشار اور افراتفری پیدا نہیں ہونے دی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار نگراں وزیراعظم کا تقرر الیکشن کمیشن کی جانب سے ہوا ہے۔ کمیشن کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی صدارت میں ہونے والے چاروں ارکان پنجاب سے جسٹس (ر) ریاض کیانی' خیبر پختونخوا سے جسٹس (ر) شہزاد اکبر' سندھ سے جسٹس (ر) روشن عیسانی اور بلوچستان سے جسٹس (ر) فضل الرحمن شریک ہوئے۔
اجلاس میں میر ہزار خان کھوسو کے حق میں چار اور مخالفت میں ایک ووٹ آیا۔ صرف جسٹس (ر) ریاض کیانی نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کو نگراں وزیراعظم مقرر کرنے کے حق میں اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔ اس طرح یہ فیصلہ اتفاق رائے سے تو نہ ہو سکا مگر اکثریتی فیصلے کے تحت میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم مقرر کر لیا گیا۔ 16 مارچ کو قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی مگر اس کمیٹی کے کسی ایک نام پر متفق نہ ہونے کی بنا پر فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا۔
الیکشن کمیشن نے بھی طویل بحث و مباحثہ کے بعد نگراں وزیراعظم کا فیصلہ اپنے آخری مرحلے کے آخری دن کیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام ارکان ریٹائرڈ جسٹس ہیں۔ بالآخر ججوں کے ہاتھوں ہی جمہوریت کو استحکام اور تسلسل نصیب ہوا ہے اور اب اقتدار کا ہما بھی ایک ریٹائرڈ جج کے سر پر آن بیٹھا ہے۔ اس سے یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ اگر عدلیہ غیر جانبدار اور انصاف کا علم بلند رکھے تو کوئی بھی ملکی ادارہ خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا اور تمام ادارے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ نگراں وزیراعظم نامزد ہونے والے 84 سالہ جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو 1929ء میں بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے گاؤں اعظم خان میں پیدا ہوئے۔
وہ ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے 1957ء میں وکیل کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کی ابتدا کی۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے آخری دور میں 1977 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج بنے اور جون 1979ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ 1987ء میں ضیاء الحق کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر بلوچستان ہائی کورٹ کے مستقل جج بنے۔ انھیں بینظیر بھٹو کے دور میں 1989ء کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنا دیا گیا۔ انھیں نواز شریف کے دور میں اکتوبر 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت کا جج اور ستمبر1992ء میں وفاقی شرعی عدالت کا چیف جسٹس بنایا گیا۔
صدر زرداری نے انھیں مرکزی زکوٰۃ کونسل کا چیئرمین بنا دیا اور وہ اپنی نئی ذمے داری ملنے تک اسی عہدے پر کام کر رہے تھے۔ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان سے پوری قوم توقع لگائے بیٹھی ہے کہ وہ انتخابات کا عمل شفاف اور غیر جانبدار بنائیں گے۔ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو نگراں وزیراعظم کو الیکشن کمیشن' عدلیہ' فوج سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہے۔ ان کا تعلق بلوچستان سے ہے مگر اس وقت وہاں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں۔ کراچی کے حالات بھی مخدوش ہیں، وہاں ہونے والی قتل و غارت حکومت کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں بم دھماکے اور دہشت گردی کی کارروائیاں معمول بن چکی ہیں۔ اس طرح صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نگراں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گی۔ دیانتدار اور اہل کابینہ کی نامزدگی کا چیلنج بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔ اگر کابینہ میں اہل افراد کو نامزد نہ کیا گیا تو موجودہ ملکی مسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ شفاف انتخابات کے انعقاد پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ ان ہی تمام خدشات کو دور کرنے کے لیے نگراں وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ قوم کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے، اگر انتخابات بروقت نہ ہوئے تو وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے۔
وزیراعظم نے یقین دلایا کہ وہ نگراں حکومت کی مدت بڑھنے نہیں دیں گے، 11مئی کو انتخابات ضرور ہوں گے، ان کی اولین ترجیح ملک میں صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرانا ہے۔ آنے والے دن اپنے اندر بہت سے مسائل سمیٹے ہوئے ہیں۔ کمزور معاشی حالات حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ توانائی کے بحران نے سرمایہ کاری کے عمل کو کمزور کر رکھا ہے۔ نگراں حکومت کرپشن پر قابو پانے پر توجہ دے' سرکاری اخراجات میں کمی لائے اور کابینہ میں اچھی شہرت کے حامل افراد کو شامل کرتے ہوئے اس کا حجم کم از کم رکھے تو معاشی حالات میں بہتری کے آثار ہویدا ہوسکتے ہیں۔
امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ غیر جانبداری سے اپنے فرائض سر انجام دیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے نگراں وزیراعظم کی نامزدگی پر اتفاق کا اظہار کیا ہے اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انھیں اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ ان کی سیاست کا تسلسل جمہوریت کی بقا ہی میں مضمر ہے۔ امید ہے کہ نگراں وزیراعظم اور تمام آئینی ادارے اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے ہوئے امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ انتخابات کا شفاف انعقاد ممکن بنائیں گے تاکہ جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔