پاسپورٹ کا اجراء
دسمبر سے آج تک چار ماہ گزرنے کے باوجود ان کے ارجنٹ پاسپورٹ بھی جاری نہیں کیے گئے
محکمہ پاسپورٹ میں نئے پاسپورٹوں کے اجراء اور پرانے پاسپورٹوں کی تجدید کا کام گزشتہ سال 30 ستمبر سے تعطل کا شکار ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ انھیں وزارت خزانہ سے فنڈ نہیں ملے، انھیں افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے، محکمے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ مسئلہ طول پکڑا تو سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی محکمے کو فوری طور پر فنڈ جاری کرنے کی سفارش کردی ہے۔ پاسپورٹ کے حصول کے خواہشمند شہری ان دفاتر کے چکر لگا لگا کر تنگ آچکے ہیں۔
دسمبر سے آج تک چار ماہ گزرنے کے باوجود ان کے ارجنٹ پاسپورٹ بھی جاری نہیں کیے گئے جب کہ شیڈول کے مطابق عمومی پاسپورٹ کا اجراء 15 دنوں کے اندر جب کہ ارجنٹ پاسپورٹ کا اجراء ایک ہفتے کے اندر کرنا محکمے کی ذمے داری ہے۔ لیکن محکمے کا یہ حال ہے کہ شہریوں کو نہ کوئی تسلی بخش جواب ملتا ہے، نہ انھیں مطمئن کیا جاتا ہے کہ فلاں وقت تک انھیں پاسپورٹ جاری کردیے جائیں گے۔ پاسپورٹ کے دفاتر میں عوام کا جم غفیر رہتا ہے سارا سارا دن ضایع کرنے کے بعد یہ شہری مایوسی اور غیر یقینی کی صورت حال میں ناکام واپس لوٹ جاتے ہیں۔
آج کل حج وعمرہ کا سیزن ہے جس کی وجہ سے زائرین کی بڑی تعداد بھی پریشانی و اضطراب کا شکار ہے۔ طالبعلموں، ملازمت پیشہ افراد اور کاروباری اور پروفیشنلز لوگوں کو بہت سے نقصانات اور مصائب جھیلنا پڑ رہے ہیں۔ ٹریول ایجنسیاںاپنے کاروبار کے متاثر ہونے کا رونا رو رہی ہیں۔ جن طالب علموں کو بیرون ملک اپنے تعلیمی ادارے جوائن کرنا ہیں، وہ ملازمین جنھیں اپنے اداروں میں رپورٹ کرنی ہے، ایسے مریض اور ان کے اٹینڈنٹ جن کا بیرون ملک میڈیکل اپائنمنٹ یا آپریشن ہے ان کی تکالیف کا متعلقہ ارباب اختیار کو قطعی احساس نہیں ہے۔
محکمے میں سائلین کو جواب دینے یا مطمئن کرنے والا کوئی ذمے دار موجود نہیں ہے۔ عملہ ٹال مٹول اور ڈھٹائی کرکے تنگ آچکا تو اس نے سیٹوں سے غائب ہوجانے اور اپنے ٹیلی فون بند کردینے میں ہی عافیت سمجھی۔ عوام کی پریشانی اور اضطراب نے جب اشتعال کا رخ اختیار کیا تو انھوں نے پاسپورٹ آفس پر ہلہ بول دیا اور تلخ کلامی، مارپیٹ، توڑپھوڑ کرکے اپنے جذبات کا اظہار کر ڈالا۔ محکمہ پاسپورٹ کی بے حسی و ناکامی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نہ کوئی جوابدہ ہے نہ ہی اس پر کوئی کنٹرولنگ اتھارٹی ہے جو شہریوں کو درپیش مصائب و مسائل اور مشکلات کا ازالہ کرسکے یا پھر وہ خود بھی اس کھیل میں شریک یا ان سے زیادہ نااہل ہے۔
جب متاثرہ شہریوں کا احتجاج بڑھا، میڈیا میں خبریں آنا شروع ہوئیں تو حکومت نے دستی مہر کے ذریعے پرانے پاسپورٹوں کو ایک سال کے لیے کارآمد بنانے کا عمل شروع کروایا۔ بین الاقوامی طور پر اس عالمی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر کئی ممالک جن میں دبئی، سنگاپور اور آسٹریلیا وغیرہ شامل ہیں ایسے پاسپورٹ قبول کرنے سے انکار کردیا جس پر محکمہ خارجہ نے کچھ ممالک سے رابطہ کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش بھی کی جس میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
پاکستانیوں کی پریشانی و تکلیف تو ایک طرف اس قسم کے اقدامات سے دنیا بھر میں پاکستان کا کیا تاثر قائم ہورہا ہے۔ جن ممالک میں ہمارے شاہ خرچ حکمراں جہاز بھر بھر کر سرکاری وفد لے جاتے ہیں، شاپنگ کر کرکے جہاز اور ہوٹلوں کے کمرے بھر دیتے ہیں جن ممالک میں ان کی لاکھوں روپے مالیت کی ٹائیاں، جوتے اور پرس کے چرچے ہوتے ہیں کہ وہاں کے حکمراں اور عوام ششدر رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ میزبان ملک نے جہازی سائز کے وفد کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف 5 یا 7 افراد کی میزبانی قبول کی، باقیوں کی رہائش و ضروریات کے لیے وہاں کے سفارتخانوں کو ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کرنا پڑے مگر مجال ہے ہمارے حکمرانوں کو شرم آجائے۔
شرم تو دستی مہر شدہ پاسپورٹ پیش کرنے والے پاکستانیوں کے حصے میں آئے گی۔ حکمرانوں اور وی وی آئی پی اور مخصوص افراد کے لیے تو آج بھی روزانہ درجنوں پاسپورٹ جاری کیے جارہے ہیں محکمے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ محکمہ سالانہ 14 بلین کا ریونیو حکومت کو دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر شہریوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔ شہری روزانہ 10 سے 15 ہزار پاسپورٹوں کے عوض دنیا کے دیگر ممالک کی بہ نسبت خطیر رقم حکومت کو ادا کرتے ہیں تو ان کا سرکاری استحصال کیوں کیا جاتا ہے۔ اس وقت جو سات لاکھ درخواستیںزیرالتوا ہیں ایک مد میں کروڑوں کی رقم حکومت کے خزانے میں پیشگی جمع ہے۔
پاکستانیوں اور خصوصاً اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کی بات اور ڈھنڈورا تو تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما خوب پیٹتے ہیں حال ہی میں دوہری شہریت، الیکشن میں حصہ اور ووٹ کے حق سے متعلق سیاسی رہنما میڈیا، جلسوں اور ایوانوں میں اوورسیز پاکستانیوں کا مقدمہ لڑنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے اور پوائنٹ اسکورنگ کے لیے زمین آسمانوں کی قلابیں ملا دیں کہ یہ ہم سے زیادہ اچھے پاکستانی ہیں ان سے ملک چل رہا ہے، ساری رقوم یہ بھیجتے ہیں، انھیں اقتدار کے ایوانوں میں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن انھیں اتنی بھی توفیق نہیں کہ پاکستانیوں کو اقتدار کی لائنوں میں لگانے سے پہلے کم ازکم پاسپورٹ دفاتر کی لائنوں سے تو آزاد کرا دیں، پاسپورٹ آفس کے اجراء کا موجودہ بحران لیمینیشن پیپر کی بروقت خریداری نہ کرنے کے سبب برپا ہوا جس میں 9 ماہ کی غیر ضروری تاخیر کی گئی۔ یہ تاخیر کیوں کی گئی؟ فنڈ کا اجراء بروقت کیوں نہیں کیا گیا؟ پھر بحران کو جواز بنا کر اوپن ٹینڈر کی بجائے پیپر رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور نظر کو اس کا ٹھیکہ کیوں دیا گیا؟ کیا حکام اس بات سے لاعلم تھے کہ انھیں کتنی تعداد میں پاسپورٹ درکار ہوں گے۔
ان کی ضروریات کیا ہیں؟ پیپر ٹینڈر میں کتنا وقت اور رقم درکار ہوگی؟ اگر وزارت نے بروقت جاری نہیں کیے تو کیوں اور اس کے مضمرات کیا ہوں گے؟اگر فنڈ نہیں ملا تھا تو ٹینڈر کی کارروائی تو جاری رکھی جاسکتی تھی، جس میں کوئی خرچہ نہیں آتا تاکہ وقت بچایا جاسکے؟اب سوال تشنہ طلب رہ جاتا ہے کہ نااہلیت یا بدعنوانی و بددیانتی کی بنا پر رولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من پسند کو ٹینڈر سے نواز کر قومی خزانے کو نقصان اور شہریوں کو اذیت، پریشانی، مالی و جانی ایذا پہنچانے اور ملکی وقار کو خراب کرنے کے مرتکب افراد اپنے عہدوں پر متمکن رہنے کے اہل ہیں؟ مسئلے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے چیف جسٹس آف پاکستان کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ ایک درخواست ارسال کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹینڈر من پسند کمپنی کو دینے کی خاطر خود ساختہ بحران پیدا کیا گیا ہے جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ دستی اندراج سے عالمی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی اور ملک کا وقار خراب ہوا ہے کئی ممالک نے انھیں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جب کہ V.V.I.Pاور مخصوص افراد کے لیے اب بھی روزانہ درجنوں پاسپورٹ جاری کیے جارہے ہیں۔
دیگر سرکاری محکموں کی طرح پاسپورٹ ڈپارٹمنٹ بھی سر تا پا کرپشن و بدعنوانی میں پوری طرح ڈوبا ہوا ہے یہاں شہریوں کی درگت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ چپڑاسی سے لے کر چلتے پھرتے اور فٹ پاتھ ایجنٹ تک لوگوں کو دھوکہ دینے، رقم اینٹھنے، جائزو ناجائز اور ہر طرح کے غیرقانونی کام کر کرکے نوٹ کمانے کے عمل میں اعلیٰ حکام کے دست و پا بنے ہوئے ہیں۔
لڑائی بھڑائی، گالم گلوچ، دھوکہ دہی اور فراڈ یہاں کا معمول ہے۔ غریب اور غیر تعلیم یافتہ افراد تو ان کا مرغوب لقمہ ہوتے ہیں جو اپنے جائز کاموں کے لیے بھی رشوتیں دیتے ہیں اور کام نہ ہونے کی صورت میں خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، پاسپورٹ اور نادرا والوں کے ہاتھوں اورنگی ٹاؤن کے مکینوں کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہیں جو اورنگی کا ایڈریس یا یہاں کا شناختی کوڈ نمبر دیکھ کر ہی تعلیمی اسناد، پیدائشی سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات ہونے کے باوجود بھی باپ، دادا اور ری پارٹیشن سرٹیفکیٹ اور تصدیق کے اعتراضات لگا کر منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک پٹھان شخص کھڑکی پر چیخ رہا تھا کہ ''اورنگی ٹاؤن سے تو بہتر ہوتا کہ ہم افغانستان یا اسرائیل میں پیدا ہوتا پھر تم ہم کو سلام بھی کرتا اور پاسپورٹ بھی دیتا۔''
اگر ارباب اختیار نے ہم وطنوں میں بے وطنی کے پیدا ہونے والے احساسات کا ازالہ نہ کیا تو یہ ملک وقوم کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ کاش! ہمارے حکمران اس طرف بھی توجہ دیں۔