پورے 44 روپے
ڈگری ہاتھ میں آنے کے بعد تم جب نوکری کے لیے نکلتے ہو تو تم سے تجربہ پوچھا جاتا ہے
ایک مالشیایومیہ سات آٹھ سو روپے کمالیتا ہے، پھل فروش کی یومیہ آمدنی پندرہ سو روپے تک ہے،بس کاکنڈیکٹر روز کے ہزار روپے کھرے کرلیتا ہے،کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں بوجھ ڈھونے والا بھی گھر میں ہزاربارہ سو روپے لے کرجاتا ہے، رمضان میں پکوڑے بیچنے والا صرف چٹنی کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے عید قرباں کا جانورلے آتا ہے، اب ماہانہ تیس ہزارسے زائد کمانے والے ان غریب لوگوں کا موازنہ آپ خود سے کریں ، میری مانوتو ڈگریاں رکھ کر پکوڑے بیچنا شروع کردو،بابوصیب !یہ سفید کالرکی نوکری بے کارکی عزت دے کر بھوک دیتی ہے، اس میں آرام نہیں ہے۔
ملک میں ایک عام آدمی کی کم ازکم تنخواہ سات ہزارروپے ہے، کیا سات ہزارروپے میں گھر چلاسکتے ہو، بولو، جواب دو، چپ کیوں ہو، بڑے آئے بابوصیب، ہونہہ وہ جیسے آج پھٹ پڑا تھا، اس کی آنکھوں میں تحقیرتھی، اس کے لبوں پر مضحکہ اڑاتی ایک ہنسی تھی، وہ جیسے چیلنج کررہا تھا، اس کے ہاتھوں میں چائے کی چینک لرز رہی تھی، وہ اپنے کاندھے پر پڑے میلے رومال کا کونا مسل رہا تھا، وہ شکل سے تو چائے والا لگتا تھا مگر زبان میں چائے کی چاشنی نہیں تھی،وہ ایک مغرور محنت کش تھا بلکہ کچھ کچھ بدتمیز...نیاز سے یہ کوئی پہلا مباحثہ نہیں تھا، وہ اکثرالٹی سیدھی ہانکتا رہتاتھا، اس دفعہ ایک دوست نے اس کو ابے اوئے بار والے کہہ کرکیا مخاطب کرلیا، بس شامت آگئی، نیاز اب سارے آداب سے بے نیاز ہوچکا تھا۔
بابوصیب تم لوگ سولہ سال پڑھائی کرتے ہو، ڈگری ہاتھ میں آنے کے بعد تم جب نوکری کے لیے نکلتے ہو تو تم سے تجربہ پوچھا جاتا ہے، ہر طالب علم اعزازی نمبروں سے پاس نہیں ہوتا، اکثریت اوسط درجے کے نمبر لے کر پاس ہوتی ہے، ایسے لوگ دردرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں ، ان کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ کوئی ان کو نوکری دیگا، ان کے سولہ سال ایک آسیب کی طرح ان کا پیچھا کرتے ہیں اور یہ میری طرح کاندھے پر رومال رکھ کر چائے اس لیے نہیں بیچ سکتے کہ ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔
سولہ سال تک ان کے ذہنوں میں بابوبننے کے سپنے بٹھائے گئے ہوتے ہیں،ان کو ڈگریاں تھما کر یہ تو بتادیاجاتا ہے کہ اب تمھیں پیسہ کمانا ہے مگر کیسے کمانا ہے ، یہ کوئی نہیں بتاتا، یہ ہرن کی طرح کلکاریاں مارکر گریجویشن کا کیپ اچھالتے ہیں، شیروں کی طرح کالج کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں اور پھر بکریوں کی طرح اس سفاک معاشرے کے قصائیوں کا شکارہو کر تتر بتر ہوجاتے ہیں، کوئی چور بنتا ہے تو کوئی ڈاکواور جن میں ہمت نہ ہو وہ وائٹ کالریئے بن جاتے ہیں اورساری زندگی قربانی دیتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔
نیازکے لہجے میں سلاست تھی، روانی تھی، وہ بے تکا ن بول رہاتھا بلکہ شاید برس رہاتھا، ہم سب سن رہے تھے، ایسا نہیں تھا کہ ہم جواب نہیں دے سکتے تھے مگر شاید ماحول پر اس کی گفتگونے ایک کیفیت طاری کردی تھی، اس کی باری تھی اور وہ بول رہاتھا، چینک سے چائے چھلک کر اس کی میلی آستین میں جذب ہورہی تھی۔پرانے زمانے میں غلام ہوتے تھے، اب غلامی کا نام ملازمت رکھ دیاگیاہے، جس طرح دومنٹ میں غلام کو رسوا کردیا جاتا تھا، اسی طرح تمہارے ان خوب صورت دڑبے نما دفاتر میں تمہاری عزت ہے۔
تم سب اپنے سے بڑوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہے ہو، تم اپنا فرسٹریشن ایک دوسرے پر نکالتے ہو، جن سولہ برسوں کو تم تعلیمی سال کہتے ہو، ان میں جو سیکھا ہوتا ہے، وہ کچھ بھی تمہاری پریکٹیکل لائف میں کام نہیں آتا، تم الجبرا پڑھ کر فیثاغورث بننے کی کوشش میں کلرک بن جاتے ہو اور ایک فائل سے دوسری فائل میں تمہاری زندگی گزرجاتی ہے، محمد بن قاسم کے سبق کا رٹالگاکرتم کراچی کے باغِ ابن قاسم کی انتظامیہ میں نوکری کے اہل نہیں ہوجاتے، اس کے لیے تجربہ مانگا جاتا ہے، قائداعظم پر لیکچرسن کر تم قائداعظم اکیڈمی کے ملازم نہیں بن سکتے ، تمھیں سفارش چاہیے، مجھے دیکھو،آج میراسیٹھ نوکری سے نکال دے، کہیں بھی جاکر بیٹھ جاؤں گا، میں باروالا ضرور ہوں مگر روز کے بارہ سوروپے کھرے کرکے گھرجاتاہوں، تمہاری طرح مہینے کے آخر میں میرے پیسے ختم نہیں ہوتے ، وہ لال بھبوکا ہو رہاتھا، اس نے چائے کی چینک میز پر پٹخ دی ، شاید اس کو احساس ہوگیاتھا کہ چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔
میں نام نہیں لوں گا، وہ ٹھہرکرگویا ہوا، تمہارے دفترمیں سے زیادہ تر لوگ مجھ سے ادھارکرتے ہیں، ان کے پاس بائیس روپے والی چینک کے پیسے نہیں ہوتے، اکثر مہینے کے آخر میں پیسے دینے کا وعدہ کرنے والے آخر میں بچوں کی فیسوں اور بیوی کی بیماری کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ تم لوگ عیاشیوں کے عادی ہو، تم کو سہولتیں چاہیں، تمہاری تعلیم تم کو نام نہاد اسٹیٹس کا درس دیتی ہے، چارہزاررروپے والے موبائل سے بھی کام چلایا جاسکتاہے، تم کو بلیک بیری چاہیے، آئی فون چاہیے، تمہاری خواہشیں بڑی ہیں۔ اسٹائل لاجواب ہیں مگر جس دن سی این جی بند ہوتمہاری گاڑیاں کھڑی ہوجاتی ہیں،ہزارروپے کی شرٹ پہننے کے لیے تم کو برنس روڈ کی ربڑی کی قربانی دینی پڑتی ہے، تم حقیقی لذتوں سے محروم ہو، کمپلیکس کا شکارہو، تم معاشرے کا محروم طبقہ ہو اور ہنستے ہم پر ہو۔۔۔ہاہاہا۔
نیازبے تحاشاہنس رہاتھا،وہ تھوڑا اوور کانفیڈنٹ ہوگیا تھا، پیلے دانتوں کے ساتھ ہنستے ہوئے وہ عجیب سا لگ رہاتھا،وہ کھل کر ہمارا تمسخر اڑا رہا تھا،اس کے لہجے میں شوخی تھی،وہ طنز کے تیربرسا رہا تھا، جواب تو ملنا تھا، ہم ایک چائے والے کے سامنے کیسے شرمندہ ہوسکتے تھے۔نیاز،تم چائے والے ہو، معمولی انسان ، پوری دنیا میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے زیادہ کماتے ہیں، اس کایہ مطلب نہیں کہ ڈگریاں رکھ کر ہر کوئی پکوڑے بیچنا شروع کردے،تمہاری طرح میلا بن جائے، پیر میں ٹوٹی چپل ، بدن پر میلے کچیلے کپڑے ، سرکے کیچڑجیسے بال اور یہ پیلے دانت۔
کہاں ہیں تمہارے بارہ سو روپے، کدھر اڑاتے ہو انھیں، ارے ہم جو تھوڑا بہت کماتے ہیں،وہ نظرتو آتاہے۔نیاز بدستورہنس رہاتھا،اس کی ہنسی کو بریک نہیں لگ رہاتھا، اس نے اپنی میلی آستین سے ناک صاف کی، گلے کوکھنکھارا۔میں بارہ سوروپے میں زنگر برگر نہیں کھاتا، یہ سچ ہے کہ میرے کپڑے میلے ہیں، میں مہنگے ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف نہیں کرتا، منجن سے دانت تھوڑے پیلے رہ جاتے ہیں، میرے بال ضرور الجھے ہوئے ہیں مگر میرے معاملات بہت سلجھے ہوئے ہیں، میں مہینے کے آخر میں کسی سے ادھار نہیں لیتا، میری بیوی مجھ سے خوش ہے، میں اپنے بچوں کی ہرخواہش کو پورا کرتا ہوں، ان کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں، ان کی خوشی کے لیے اگرٹوٹی چپل میں گزاراکرلیا تو کیا ہوا، مجھے اپنی ساس کا گھر آنا برا نہیں لگتا، میں روزانہ مہمانوں کی خاطرداری کرتاہوں، مجھے کھلونے کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے کوئی دھڑکا نہیں ہوتا کہ بچے نے ضدکرلی تو کیا ہوگا، تھوڑاسا میلا ہی تو ہوں، گھر جاکر جب نہاتاہوں، بیوی صاف کپڑے دیتی ہے۔
بچہ گود میں لپکتا ہے اور میں دوستوں کی سنگت میں بیٹھ جاتاہوں تو میلاپن اجلے پن میں بدل جاتا ہے، اس وقت میں بھی تمہاری طرح کا وائٹ کالرانسان بن جاتاہوں، تمہیں پتہ ہے کہ تم پرکون راج کرتا ہے؟نیاز کا اچانک سوال ایسا ہی تھا کہ بات پچھم کی ہورہی ہو اور ذکر پورب کا نکل آئے، اس سوال کے جواب میں نیاز نے ہی پھنسنا تھا۔ہم پر سوائے ہم جیسوں کے کون راج کرسکتا ہے، ہم پڑھے لکھے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہی ہمارے اوپر ہوتے ہیں، تم جیسے تو ہم پر راج کرنے سے رہے،یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔
جس جگہ تم آج فخر سے برگرکھاتے ہو وہ ماضی کا بن کبابیہ تھا، جس دکان میں تم اپنی جیبیں ہلکی کرتے ہو، اس کا مالک ایک امریکی شہرمیں ٹھیلہ لگا کر برگربیچتا تھا، جاؤ کراچی کے سٹی فوڈ، زاہد نہاری والے سے پوچھو کہ وہ کون تھے،اسی شہر کے تھڑے پرایک حلیم بیچنے والاآج پوری دنیامیں حلیم ایکسپورٹ کرتا ہے، زینب مارکیٹ پر جوتے اور کپڑوں کی بڑی بڑی دکانوں کو تم حسرت سے دیکھتے ہو، جانتے ہوکہ ماضی میں ان کے مالکوں میں کوئی درزی تھا تو کوئی جوتے گانٹھتا تھا،جن فلیٹوں کی قیمتیں سن کر تمہارے ہوش اڑجاتے ہیں، ان بلڈنگ پراجیکٹس کے مالک ماضی میں معمولی پراپرٹی ڈیلرتھے، تم وائٹ کالریئے صرف ہم جیسوں کے لیے پیسہ نکال سکتے ہو، تم بنے ہی اسی لیے ہو، تمہاری تربیت ہی ایسے کی گئی ہے کہ تم مجھ جیسے چائے والے کو ہوٹل کا مالک بناؤ، لاؤچائے کی دوچینک کے چوالیس روپے، اس نے اپنی ہتھیلی کھول کرسامنے کردی۔