کیا پولیس مقابلے رک جائیں گے
ہزاروں جعلی مقابلوں کے باوجود آج تک کسی بھی پولیس افسر یا اہلکار کو سزا نہیں ہوئی۔
نوے کی دہائی میں شروع کیا جانے والا آپریشن کلین اپ جب اپنے عروج پر پہنچا تو پہلی بار ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں سمیت انتہائی انسانیت سوز تشدد کے بارے میں لوگوں نے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ماورائے عدالت قتل کا آغاز پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیرداخلہ نصیراللہ بابرکے دور میں ہوا جنھوں نے کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے یہ پالیسی بنائی کہ عسکریت پسندوں اور سیاسی مخالفین کو عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے پولیس مقابلے میں مار دیا جائے۔
نصیراللہ بابر کا موقف تھا کہ جب دہشت گرد بے گناہ لوگوں کا قتل کرتے ہیں تو انھیں بھی قتل کردینا چاہیے۔ نصیراللہ بابرکی سربراہی میں چند پولیس افسران کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جنھیں قانون اور عدالتوں سے بالا ہی بالا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، لامحدود اختیارات اور ریاستی طاقت ملنے کے بعد پولیس افسران شہریوں کو گرفتار کرتے۔
یہ حکومت وقت کے منظور چند پولیس افسران اور اہلکاروں کی ٹیم تھی جوکسی کو جواب دہ نہ تھی۔ ہر پولیس آفیسر جعلی مقابلہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی کرسکتا ہے، کیونکہ مجرموں کو مارنا آسان ہے لیکن بے گناہ لوگوں کی بددعاؤں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ہر دور میں چند ایک پولیس آفیسر ہی اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں اور سیاست دانوں کے اشارے پر بے گناہ لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرتے ہیں۔ کراچی آپریشن کے دوران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے دور حکومت میں ان پولیس افسران کو ترقیوں، انعامات اور نوازشات سے نوازتی رہی۔
ان میں ایک نمایاں اور بڑا نام راؤ انوار کا بھی ہے، جس کے دوران آپریشن آصف علی زرداری سے تعلقات استوار ہوئے، جو آج بھی قائم ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کہہ تو رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی راؤ انوار کو بچانے کی کوشش نہیں کررہی مگر اب تک کی کارروائی سے لگ یہ ہی رہا ہے کہ پیپلز پارٹی راؤ انوار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
بات صرف نقیب محسود کے قتل کی نہیں ہے بلکہ ان سرپرستوں کی ہے جن کے کہنے پر جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ لوگوںکو مارا جا رہا تھا، بلکہ ضلع ملیر سے غیر قانونی طریقے سے اربوں روپے کا کالا دھن بنایا جارہا تھا۔ بہت سے ''بڑوں'' کے راز راؤ انوار کے پاس موجود ہیں، لہٰذا کوشش ہوگی کہ راؤ انوار کو ملک سے فرار کرادیا جائے۔
محکمہ پولیس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ راؤ انوار کے پیچھے موجود طاقتیں ایک بار پھر ان کو بچا لیں گی، کیونکہ مارے گئے افراد انھی طاقتور لوگوں نے راؤ انوار کے حوالے کیے تھے یا ان کی نشاندہی پر لوگوں کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا تھا۔
نقیب محسود کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی، ارکان ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان اور ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نقیب محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ نقیب محسود کے والد کی مدعیت میں ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی ہے، جس میں راؤ انوار اور اس کی ٹیم کو ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ راؤ انوار کے ہاتھوں پہلا پولیس مقابلہ ہے اور نہ ہی پولیس کے ہاتھوں کوئی بے گناہ پہلی بار مارا گیا ہے۔ کراچی میں اس سے قبل بھی ماورائے عدالت قتل کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال 146 افراد مبینہ طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں، ان میں سے 140 ہلاکتیں پولیس مقابلوں میں ہوئی ہیں۔ پولیس کی جانب سے کیے جانے والے بیشتر مقابلوں میں انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔
اس حوالے سے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گزشتہ برس 68 پولیس مقابلوں کی تحقیقات کا حکم بھی دیا تھا۔ اس پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ میں نقیب محسود کے بعد ڈیفنس میں نوجوان انتظار حسین اور شاہراہ فیصل پر چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی مقصود بھی پولیس کے ہاتھوںقتل ہوا ہے۔
پولیس کے ہاتھوں نوجوانوں کا قتل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پولیس جعلی پولیس مقابوں میں بے گناہ لوگوں کو مارنے سے اس لیے نہیں ڈرتی کہ آج تک کوئی ایسی مثال موجود نہیں جس میں ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا ملی ہو۔ جن قوموں میں انصاف ختم ہوجاتا ہے وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ نقیب محسود، انتظار حسین اور مقصود کا قتل پاکستان میں انصاف کے حصول پر سوالیہ نشان ہے۔
آئین، قانون، انصاف کو روندتے ہوئے محافظ جب خود قاتل بن جائیں تو پھر ریاست کے اداروں کی طرف سے اپنے شہریوں کا قتل عام نہ صرف انتہائی زیادتی بلکہ ریاستی اقدار کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے واقعات سے پرامن شہریوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور قانون شکنی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ پولیس کے انسانیت سوز رویے سے عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس نے نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ ہماری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہو گی کہ ماروائے عدالت قتل میں ملوث پولیس افسران کو سخت سے سخت سزا دیں تاکہ یہ سلسلہ رک سکے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان ہاتھوں کو بھی بے نقاب کیا جائے جو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے پولیس کو استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پولیس کا ڈھانچہ، اہلکاروں کو دی جانے والی تربیت اور ان کی نفسیات، کالونیل (سامراجی) دور سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہم نے آزادی کے ان 70 سال میں پولیس نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش نہیں کی۔ انگریزوں کا بنایا ہوا کالا قانون آج بھی اس لیے نافذ العمل ہے کہ یہ قانون ہمارے جاگیردارانہ نظام سیاست میں جاگیرداروں اور طاقتور سیاست دانوں کے مفاد میں ہے، جو پولیس کی مدد سے اپنے مخالفین کو ڈرانے، دبانے، دھمکانے، اغوا کرنے اور جھوٹے مقدمات بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ہزاروں جعلی مقابلوں کے باوجود آج تک کسی بھی پولیس افسر یا اہلکار کو سزا نہیں ہوئی بلکہ تعجب اور حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ جعلی پولیس مقابلے زبان زد عام ہونے کے باوجود بعض پولیس افسران کو پولیس مقابلوں کی وجہ سے حلقہ ارباب اختیارو اقتدار میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پولیس کا کام مجرم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنا ہے اور عدالت کا کام انصاف فراہم کرنا ہے، مگر جب تک معاشرے میں انصاف کے راستے میں قانون کی پیچیدگیاں حائل رہیں گی، مبینہ اور جعلی پولیس مقابلے جاری رہیں گے۔
پولیس مقابلے میں کسی انسان کا قتل یقیناً سماج، معاشرے، قانون اور انصاف کے قتل سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معاشرتی اقدار کے قتل پر ہم اجتماعی طور پر خاموشی اختیارکرچکے ہیں۔ جب ریاست کے محافظ ہی لوگوں کو حراست میں لے کر قتل کرنا شروع کردیں اور عام شہری ایسے اقدامات سے خوفزدہ ہو کر ریاست میں خود کو ہر لمحے غیر محفوظ تصورکرنے لگیں تو پھر ریاست کے پاس خود کو ریاست کہلوانے کا کوئی حق باقی رہ جاتا ہے؟
ریاست میں پائی جانے والی اس سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون اور عدالتوں سے بالا ہی بالا فیصلہ کرنے کا اختیار نہ پولیس کے پاس ہونا چاہیے اور نہ کسی ادارے کے پاس۔ ریاست کے تمام ادارے اور افراد جب تک آئین پاکستان اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے اور سزا وجزا کا قانون بلاتفریق ہر فرد پر نافذ عمل نہیں ہوگا اس وقت تک جعلی پولیس مقابلے جاری رہیں گے۔ ایک راؤ انوار کو سزا دینے سے کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو بھی تلاش کرے جوجعلی پولیس مقابلوں میں انسانوں کے مارنے والے ایسے پولیس آفیسر تراشتے ہیں جن کے جسموں سے دل اور روح نکال دی جاتی ہے، وہ بے حس، بے رحم، سفاک اور پتھر دل روبوٹ بن جاتے ہیں۔
نصیراللہ بابر کا موقف تھا کہ جب دہشت گرد بے گناہ لوگوں کا قتل کرتے ہیں تو انھیں بھی قتل کردینا چاہیے۔ نصیراللہ بابرکی سربراہی میں چند پولیس افسران کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جنھیں قانون اور عدالتوں سے بالا ہی بالا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، لامحدود اختیارات اور ریاستی طاقت ملنے کے بعد پولیس افسران شہریوں کو گرفتار کرتے۔
یہ حکومت وقت کے منظور چند پولیس افسران اور اہلکاروں کی ٹیم تھی جوکسی کو جواب دہ نہ تھی۔ ہر پولیس آفیسر جعلی مقابلہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی کرسکتا ہے، کیونکہ مجرموں کو مارنا آسان ہے لیکن بے گناہ لوگوں کی بددعاؤں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ہر دور میں چند ایک پولیس آفیسر ہی اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں اور سیاست دانوں کے اشارے پر بے گناہ لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرتے ہیں۔ کراچی آپریشن کے دوران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے دور حکومت میں ان پولیس افسران کو ترقیوں، انعامات اور نوازشات سے نوازتی رہی۔
ان میں ایک نمایاں اور بڑا نام راؤ انوار کا بھی ہے، جس کے دوران آپریشن آصف علی زرداری سے تعلقات استوار ہوئے، جو آج بھی قائم ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کہہ تو رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی راؤ انوار کو بچانے کی کوشش نہیں کررہی مگر اب تک کی کارروائی سے لگ یہ ہی رہا ہے کہ پیپلز پارٹی راؤ انوار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
بات صرف نقیب محسود کے قتل کی نہیں ہے بلکہ ان سرپرستوں کی ہے جن کے کہنے پر جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ لوگوںکو مارا جا رہا تھا، بلکہ ضلع ملیر سے غیر قانونی طریقے سے اربوں روپے کا کالا دھن بنایا جارہا تھا۔ بہت سے ''بڑوں'' کے راز راؤ انوار کے پاس موجود ہیں، لہٰذا کوشش ہوگی کہ راؤ انوار کو ملک سے فرار کرادیا جائے۔
محکمہ پولیس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ راؤ انوار کے پیچھے موجود طاقتیں ایک بار پھر ان کو بچا لیں گی، کیونکہ مارے گئے افراد انھی طاقتور لوگوں نے راؤ انوار کے حوالے کیے تھے یا ان کی نشاندہی پر لوگوں کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا تھا۔
نقیب محسود کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی، ارکان ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان اور ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نقیب محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ نقیب محسود کے والد کی مدعیت میں ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی ہے، جس میں راؤ انوار اور اس کی ٹیم کو ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ راؤ انوار کے ہاتھوں پہلا پولیس مقابلہ ہے اور نہ ہی پولیس کے ہاتھوں کوئی بے گناہ پہلی بار مارا گیا ہے۔ کراچی میں اس سے قبل بھی ماورائے عدالت قتل کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال 146 افراد مبینہ طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں، ان میں سے 140 ہلاکتیں پولیس مقابلوں میں ہوئی ہیں۔ پولیس کی جانب سے کیے جانے والے بیشتر مقابلوں میں انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔
اس حوالے سے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گزشتہ برس 68 پولیس مقابلوں کی تحقیقات کا حکم بھی دیا تھا۔ اس پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ میں نقیب محسود کے بعد ڈیفنس میں نوجوان انتظار حسین اور شاہراہ فیصل پر چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی مقصود بھی پولیس کے ہاتھوںقتل ہوا ہے۔
پولیس کے ہاتھوں نوجوانوں کا قتل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پولیس جعلی پولیس مقابوں میں بے گناہ لوگوں کو مارنے سے اس لیے نہیں ڈرتی کہ آج تک کوئی ایسی مثال موجود نہیں جس میں ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا ملی ہو۔ جن قوموں میں انصاف ختم ہوجاتا ہے وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ نقیب محسود، انتظار حسین اور مقصود کا قتل پاکستان میں انصاف کے حصول پر سوالیہ نشان ہے۔
آئین، قانون، انصاف کو روندتے ہوئے محافظ جب خود قاتل بن جائیں تو پھر ریاست کے اداروں کی طرف سے اپنے شہریوں کا قتل عام نہ صرف انتہائی زیادتی بلکہ ریاستی اقدار کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے واقعات سے پرامن شہریوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور قانون شکنی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ پولیس کے انسانیت سوز رویے سے عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس نے نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ ہماری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہو گی کہ ماروائے عدالت قتل میں ملوث پولیس افسران کو سخت سے سخت سزا دیں تاکہ یہ سلسلہ رک سکے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان ہاتھوں کو بھی بے نقاب کیا جائے جو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے پولیس کو استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پولیس کا ڈھانچہ، اہلکاروں کو دی جانے والی تربیت اور ان کی نفسیات، کالونیل (سامراجی) دور سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہم نے آزادی کے ان 70 سال میں پولیس نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش نہیں کی۔ انگریزوں کا بنایا ہوا کالا قانون آج بھی اس لیے نافذ العمل ہے کہ یہ قانون ہمارے جاگیردارانہ نظام سیاست میں جاگیرداروں اور طاقتور سیاست دانوں کے مفاد میں ہے، جو پولیس کی مدد سے اپنے مخالفین کو ڈرانے، دبانے، دھمکانے، اغوا کرنے اور جھوٹے مقدمات بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ہزاروں جعلی مقابلوں کے باوجود آج تک کسی بھی پولیس افسر یا اہلکار کو سزا نہیں ہوئی بلکہ تعجب اور حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ جعلی پولیس مقابلے زبان زد عام ہونے کے باوجود بعض پولیس افسران کو پولیس مقابلوں کی وجہ سے حلقہ ارباب اختیارو اقتدار میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پولیس کا کام مجرم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنا ہے اور عدالت کا کام انصاف فراہم کرنا ہے، مگر جب تک معاشرے میں انصاف کے راستے میں قانون کی پیچیدگیاں حائل رہیں گی، مبینہ اور جعلی پولیس مقابلے جاری رہیں گے۔
پولیس مقابلے میں کسی انسان کا قتل یقیناً سماج، معاشرے، قانون اور انصاف کے قتل سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معاشرتی اقدار کے قتل پر ہم اجتماعی طور پر خاموشی اختیارکرچکے ہیں۔ جب ریاست کے محافظ ہی لوگوں کو حراست میں لے کر قتل کرنا شروع کردیں اور عام شہری ایسے اقدامات سے خوفزدہ ہو کر ریاست میں خود کو ہر لمحے غیر محفوظ تصورکرنے لگیں تو پھر ریاست کے پاس خود کو ریاست کہلوانے کا کوئی حق باقی رہ جاتا ہے؟
ریاست میں پائی جانے والی اس سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون اور عدالتوں سے بالا ہی بالا فیصلہ کرنے کا اختیار نہ پولیس کے پاس ہونا چاہیے اور نہ کسی ادارے کے پاس۔ ریاست کے تمام ادارے اور افراد جب تک آئین پاکستان اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے اور سزا وجزا کا قانون بلاتفریق ہر فرد پر نافذ عمل نہیں ہوگا اس وقت تک جعلی پولیس مقابلے جاری رہیں گے۔ ایک راؤ انوار کو سزا دینے سے کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو بھی تلاش کرے جوجعلی پولیس مقابلوں میں انسانوں کے مارنے والے ایسے پولیس آفیسر تراشتے ہیں جن کے جسموں سے دل اور روح نکال دی جاتی ہے، وہ بے حس، بے رحم، سفاک اور پتھر دل روبوٹ بن جاتے ہیں۔