ستار پیرزادہ کی جستجو

پیرزادہ کو شاعری کے ساتھ بے حد لگاؤ ہے اور اسے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز نے بہت متاثر کیا ہے۔

اس دنیا میں کسی کو دولت کی، کسی کو اقتدارکی اور کسی کو علم و ادب کی پیاس ہوتی ہے، کچھ خاندانی موروثی علم و ادب کو پالیتے ہیں اور کچھ دنیا کے دھکے کھاکر، مشاہدہ اور تجربہ لے کر غربت، بھوک و افلاس کی آگ سے گزر کر بعد میں کندن بن جاتے ہیں، مگر ان کی مالی حالت وہی خستہ ہوتی ہے۔

اس عمل سے زیادہ تر لوگ وہی گزرے ہیں جو ابتدائی سے ہی نامحرومیوں، مایوسیوں اور ناکامیوں سے بھاگ کر گاؤں سے بڑے شہروں کی طرف اپنے آپ کو معاشی طور پر اتنا کرلیتے ہیں کہ انھیں بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن وہ ساری عمر اپنے آپ کو کئی ضرورتوں کو تلاش کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

لاڑکانہ ضلع کے ڈوکری تعلقہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جسے بلھڑیجی کہتے ہیں جس کا اصلی نام لال بخش شیخ تھا، اس گاؤں والوں نے خاص طور پر پیرزادہ قوم کے لوگوں نے تعلیم، ادب، ہنر اور سیاسی اور سماجی کاموں میں بڑا نام کمایا، جس کی وجہ تھی تعلیم۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں اپنی مقبولیت کمیونزم اور سوشلزم سے بھی پیدا کی اور صحافت میں بھی اچھا نام کمایا، کئی افراد شاعر و ادیب بن کر ابھرے، کچھ سماجی اور سیاسی ہلچل میں رچ گئے، جس کی وجہ سے اس گاؤں کا نام ٹبل ماسکو رکھا گیا جہاں پر کمیونزم کا پرچار کامریڈ سوبھوگیان چندانی کی وجہ سے ہوتا ہوا انور پیرزادہ تک پہنچ گیا، کیونکہ کامریڈ سوبھو کچھ ہی کلومیٹر دور رہتا تھا۔ اس گاؤں میں ایک غریب گھرانے میں عبدالستار پیرزادہ نے جنم لیا، جو زندگی کے کٹھن مراحل سے ہوتا ہوا ادب اور صحافت کی دنیا میں پہنچ گیا۔

کئی کتابیں لکھیں، کتابوں کا ترجمہ کیا اور کئی ادیبوں اور شاعر کے کیے ہوئے کاموں کو Compile کرکے کتابوں کی صورت دی ہے۔ ویسے ستار پیرزادہ ہے تو لاڑکانہ ضلع کا، مگر اس سے میری شناسائی اور قربت کو چند برس ہوئے ہیں، جن میں ہماری ذہنی، ادبی اور علمی ہم آہنگی دن بہ دن بڑھتی ہی رہی ہے اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، جس میں خاص طور پر شاعری اور ادب کی گہری اور پیچیدہ اصناف شامل ہیں۔

پیرزادہ کو شاعری کے ساتھ بے حد لگاؤ ہے اور اسے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز نے بہت متاثر کیا ہے، اس کے علاوہ وہ صوفی ازم اور شارٹ اسٹوریز کو بھی زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کی زندگی نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ امیر نہ ہونے کی وجہ سے غریب شاعر اور ادیبوں کو نہ صرف ان کی برادری بلکہ عام آدمی بھی ہر کسی کو دولت کے ترازو میں تولنے لگا ہے۔

ایک دن میں نے اس کی زندگی کی تفصیل نوٹ کرلی تاکہ پڑھنے والے یہ سوچ سکیں کہ ایماندار، انصاف پسند اور محنتی غریب شاعر اور ادیب اپنی زندگی کیسے گزارتا ہے۔ 29 جنوری 1950 کو عبدالستار پیرزادہ گوٹھ بلھڑیجی میں دوست علی کے گھر میں پیدا ہوئے اور اپنی ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔ سات کلاس تک لاڑکانہ کے ایک شہر نصیر آباد میں اور آٹھویں جماعت گوٹھ مٹھیانی سے پاس کی، جب کہ میٹرک کا امتحان انھوں نے ڈوکری سے پاس کیا، جس کے لیے انھیں امتحان دینے کے لیے لاڑکانہ شہر جانا پڑتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں ڈوکری شہر میں کوئی امتحانی مرکز قائم نہیں تھا۔


ان کے والد بہت ہی غریب تھے اور ستار کی پڑھائی کا خرچہ اٹھانا بے حد مشکل ہوتا تھا، مگر بچے کی خوشی اور شوق کی وجہ سے انھیں کسی دوست کے پاس ڈوکری شہر میں اس کے گھر ٹھہرایا، کیونکہ بلھڑیجی گاؤں سے ڈوکری بڑا دور تھا اور اس کے پاس سائیکل بھی نہیں تھی، لاڑکانہ کی گرمی اور سردیاں دونوں کو پیدل چل کر برداشت کرنا مشکل تھا۔ گھر میں پڑھائی مشکل ہوتی تھی اس لیے پیرزادہ نے ہیڈ ماسٹر کو درخواست دی کہ انھیں ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دی جائے لیکن ہاسٹل کی فیس معاف کردیں کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، ہیڈ ماسٹر نے ترس کھاکر انھیں اجازت دے دی۔ وہ اپنے والد کے دوستوں کے پاس کھانا کھانے جاتے تھے جو انھیں دشوار ہوتا ہے۔

اب انھیں گھر والوں نے Stove مٹی کے تیل سے بھرکر بھجوایا جس پر وہ آلو اور روٹی پکاتے تھے جس میں اس کا بڑا وقت ضایع ہوتا تھا۔ اسے ایک ہفتہ ایک روپیہ ملتا تھا جسے وہ بڑے احتیاط کے ساتھ خرچ کرتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی والدہ کھانا پکا کر ان کے ساتھ پڑھنے والے گاؤں کے لڑکوں کو دیتی تھی جو سائیکل پر اسکول جاتے تھے۔ ستار 1968 میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے ٹنڈو جام ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسٹنٹ لیبارٹری بن گئے، جہاں پر ان کے کزن میر محمد پیرزادہ پہلے ہی سے کام کرتے تھے، جس کے ساتھ وہ رہنے بھی لگے۔

ابتدا میں پیرزادہ کو 125 روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی، جہاں وہ اپنے دوست کے ساتھ انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل میں رہتے تھے۔ وہ کتابیں پڑھتے گئے اور ادب سے شوق بڑھتا گیا، 1970 میں حیدرآباد شہر چلے گئے جہاں ادبی دنیا کے بڑے نامور ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات ہوئی تو وہ مکمل طور پر ادبی سانچے میں ڈھل گئے۔ ستار نے 1971 میں پہلا آرٹیکل شیخ ایاز کی شاعری پر لکھا، کیونکہ وہ انھیں بے حد پسند کرتے تھے۔ پیرزادہ اپنی تنخواہ کو بڑا حصہ کتابیں خریدنے پر خرچ کرتے تھے، جس میں ماہانہ میگزین، مہران، نئی زندگی اور سوہنی بھی شامل تھے، جس میں شیخ ایاز کی شاعری ضرور چھپتی تھی اور وہ اس کے مداح تھے۔

ان کی شاعری کا مجموعہ ''سورن سانجھا یو'' 2010 میں شایع ہوا، جس میں زیادہ تر شاعری سیاست کے بارے میں ہے۔ اب تک پیرزادہ کی 20 کتابیں چھپ چکی ہیں، ایک شارٹ اسٹوری کی کتاب ''سی ٹی جوبھن ڈیھں'' قابل تعریف ہے۔ اس کے علاوہ سندھو کنارے سنگت ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے اپنے گاؤں سے تعلق رکھنے والے سنگیت کاروں کا ذکر ہے، جب کہ شیخ ایاز کی لکھی ہوئی شارٹ اسٹوریز کی کتاب کو اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ امرتا پریتم کے ناولٹ کو سندھی میں ترجمہ کرکے سندھی میں پڑھنے والوں کو اچھا تحفہ دیا ہے۔ سرسید شہید کی سوانح عمری کو بھی سندھی میں ترجمہ کیا ہے۔

انھوں نے کتابوں کے چھاپنے کے شوق کی خاطر ایک سندھی ادبی اکیڈمی قائم کی، جس کی طرف سے 45 سے زیادہ کتابیں شایع کروائیں، جس میں ان کے ساتھی ڈاکٹر آنند کمار پنجوانی کی بہت ساری کوششیں شامل ہیں مگر مالی مسائل کی وجہ سے یہ سلسلہ اب بند ہوگیا ہے۔ پیرزادہ نے ایک اچھی کتاب Compile کی ہے جس کا نام ہے ''وڈاون ونکارجا'' اس کے علاوہ خلیل جبران کی دو کتابیں بھی انھوں نے ترجمہ کی ہیں۔ ناول نگار جمیلہ اور نوشان کے دو ناولٹ بھی ترجمہ کرکے سندھی پڑھنے والوں کو تحفہ دیا ہے۔

ان کی پسند کے مطابق ''سندھی وائی کی اوشر'' ان کی ایک شاندار کتاب ہے جب کہ ''شاہ لطیف جی وائی'' جسے کسی باہر کے رائٹر نے لکھا ہے، اسے سندھی میں ترجمہ کیا ہے جو ایک بڑا کارنامہ ہے۔ستار کا علم سے عشق اسے بے چین کرتا رہتا تھا، اس لیے جب وہ مالی طور پر کچھ اچھا ہوا تو اس نے پرائیویٹ طور پر 1978 میں BAکا امتحان پاس کرلیا۔ ان کی خدمات سندھی ادبی سنگ کے لیے قابل تعریف ہیں۔ وہ آج بھی اپنے علاقے سے منسلک یادوں کو ایک سندھی اخبار میں کالم لکھ کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

کئی علمی، ادبی اہمیت والی چیزیں ترجمہ کرکے اردو اور سندھی پڑھنے والوں کو پیش کررہے ہیں، مگر افسوس ہے کہ انھیں اس کی مزدوری اتنی نہیں ملتی۔ ان کی خواہش ہے کہ سندھی زبان کے لفظوں کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ادارے خاص طور پر سندھی زبان کا بااختیار ادارہ اپنا کردار ادا کریں اور پرنٹ اور میڈیا کے مالکان صحیح لوگوں کو لائیں، جس سے سندھی زبان کو بچایا جاسکتا ہے۔
Load Next Story