بالشویک انقلاب کے سو سال

تاریخ میں محنت کش طبقے کا کامیاب انقلاب ستر سال جاری رہا، جب کہ پہلا انقلاب پیرس کمیون ستر دن قائم رہا۔


Zuber Rehman January 29, 2018
[email protected]

''بالشویک انقلاب کے سو سال'' کے نام سے ایک کتاب مشتاق علی شان نے مرتب کی ہے۔ یہ کتاب آٹھ دانشوروں کے مقالوں پر مشتمل ہے۔ اپنے ایک مقالے میں ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کہتی ہیں کہ بالشویک انقلاب کو سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے، جو طبقاتی نظام کے خلاف سیاست اور اشتراکی نظام کی جڑیں مضبوط کرنے میں انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے سے مزدور، کسان اور عوام کی آسودہ زندگی کے لیے لازم اشتراکی نظام کو شدید دھچکا پہنچا۔ 1940 کی دہائی سے ہی اشتراکیت کے خلاف کھلے لفظوں میں جنگ کا اعلان کرتے ہوئے چین اور روس کے اردگرد امریکی فوجی اڈوں کا ایک جال سا بن دیا گیا تھا۔ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ صدی کے اوائل میں عوام میں موجود پژمردگی اور ناامیدی کے اثرات اب مٹتے جارہے ہیں۔

زہرا خان نے بڑی دلجوئی اور محنت سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں خواتین کا کردار اور انقلاب کے بعد خواتین کے حالات پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انقلاب کی شروعات ہی محنت کش خواتین نے کی تھی۔ بڑی تبدیلی اس وقت آئی، جب 1914 کی عالمی جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر عورتوں نے خاص طور پر ٹیکسٹائل اور دھات کی فیکٹریوں کا رخ کیا، جس کی وجہ سے عورت کی ورک فورس میں مزید تیزی سے اضافہ ہوا۔

مشتاق علی شان نے روسی ادب پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے تو کمال ہی کر دیا ہے، ایسے ایسے کرداروں کو سامنے لائے ہیں جو ان کی فکر سے ہم آہنگ بھی نہیں ہیں، ان کا بھی بحیثیت ادیب تذکرہ کرنے میں تنگ نظری نہیں کی ہے۔ انھوں نے پوشکن، چرنی شینسکی، میخائیل الیگزینڈر باکونن، کروپوتکن، چیخوف، لیوٹالسٹائی اور پیلیخنوف کا بھی بڑی کشادہ دلی کے ساتھ تذکرہ کیا ہے اور ان کی بہادری، قربانیوں اور جدوجہد کو عوام کے سامنے آشکار کیا ہے۔ ہاں مگر ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ مارکس نے پہلی انٹرنیشنل سے باکونن کو نکال دیا تھا، جب کہ ایسا نہیں تھا۔

باکونن 1872 کی ہیگ کانفرنس میں شرکت نہیں کر پائے اور چند ماہ بعد سوئٹزرلینڈ کے شہر ایمر میں انٹرنیشنل کی دوسری بڑی کانفرنس کی۔ جب کسی تنظیم میں اسپلٹ ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو نکال ہی دیتے ہیں۔ مشتاق علی شان بڑی مضبوط دلیل دیتے ہوئے سرمایہ دارانہ دانشوروں کو للکارتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج سرمایہ داروں کا قازقستان کیوں کوئی جمبول جابر، ازبکستان میں حمزہ حکیم زادہ، آذربائیجان میں صمد درگون، تاجکستان میں صدر الدین عینی پیدا نہیں کرسکا؟

ناصر منصور اپنے مقالے ''عظیم اکتوبر انقلاب'' میں لکھتے ہیں کہ معلوم انسانی تاریخ کی ستم ظریفی یہ نہیں ہے کہ اس میں بہت کچھ جھوٹ لکھا اور بولا گیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندہ سچ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی مسلسل کوشش جاری ہے۔ یہ بھی ہوا ہے کہ تاریخ کی طاقت سے نفرت رکھنے والوں نے ایسے سچ کو موقع ملتے ہی عوام الناس کے ذہنوں سے محو کردیا جو کرہ ارض پر جست سے ترقی کا عقدہ ٹھہرے اور آج بھی کروڑوں انسانوں کو متحرک کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔

وہ آگے چل کر کہتے ہیں کہ مارکس پر تو اشتراکی بلکہ کمیونسٹ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، اس لیے مارکس کو نہ سوشلزم کا بانی کہا جاسکتا ہے اور نہ کمیونزم کا، البتہ وہ سوشلزم کو سائنسی بنیاد عطا کرنے والے ضرور ہیں۔ جدید عہد پر اشتراکیت نے بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے تعین کے بارے میں غیر اشتراکی ملکوں میں جو اقدامات کیے گئے ہیں یا کیے جارہے ہیں وہ اشتراکی پارٹیوں کی سرگرمیوں کا بلاواسطہ نتیجہ ہیں۔

نوجوان مقالہ نگار ایاز ملک ''اینتونیوگرامچی اور انقلاب روس'' سے جوڑتے ہوئے ایک شاندار مقالہ تحریر کیا ہے، اس میں انھوں نے گرامچی کی کمیونسٹ نظریات میں نئی جدت اور یورپی انقلاب کا روس سے موازنہ کیا ہے۔ وا ضح رہے کہ گرامچی یورپ کے کمیونسٹوں کے درخشاں ستارہ ہیں، جو کمیونسٹ پارٹی کی ٹکٹ سے اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔

ایاز ملک نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ گرامچی کو اکثر مغربی ریاستوں اور ان کی سول سوسائٹی کا دانشور سمجھا گیا ہے اور ان کے ''غلبہ'' جیسے تصورات کو صرف ''مغرب'' اور سرمایہ دارانہ طور پر ترقی یافتہ ممالک تک محدود کردیا گیا ہے۔ درحقیقت کامریڈ گرامچی کی مقبولیت کو مغربی دانشوروں نے اپنے موقع پرستانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، جس طرح پاکستان میں ستار ایدھی، فیض احمد اور منو بھائی کے ساتھ کیا گیا۔ اٹلی میں سب سے زیادہ صنعت کاری کے لحاظ سے ترقی یافتہ شہر ٹیورن تھا۔

ادھر آٹو موبائل انڈسٹریز کی نمایاں کمپنیوں کے بڑے کارخانے موجود تھے۔ صنعتی پرولتاریہ کی بھاری تعداد ہونے کے ناتے اشتراکی اور انارکسٹ نظریات کا بول بالا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ابھار ہڑتالوں سے بڑھ کر فیکٹریوں میں مزدوروں نے اپنی فیکٹریوں کی حد تک پیداواری فصلوں کو اپنے ساتھ کرلیا۔ عمار علی جان نوجوان دانشور اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جو لوگ بڑی ڈھٹائی سے یہ کہتے ہیں کہ سوشلزم ناکام ہوگیا، اس کو چھوڑو یعنی اس کا مطلب ہوا کہ سرمایہ داری بہتر ہے۔ جب کہ اس وقت دنیا کے چار ارب افراد بنیادی ضرورتوں کی تگ و دو میں ہیں۔

جہاں دنیا بھر میں جنگیں، نسل پرستی، مذہبی جنونیت اور فاشزم سماجوں پر حاوی ہورہی ہے۔ کیا انسان کو بربریت اور وحشت کے تاریک غاروں میں دھکیلنے والا یہ نظام ناکام نہیں ہے؟ ایک اور نوجوان لکھاری شاداب مرتضیٰ نے ''بالشویک انقلاب'' کے نام سے لکھے جانے والے مقالے میں قدیم کمیونسٹ یا امداد باہمی یا اسٹیٹ لیس سوسائٹی سے بات شروع کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بارہ ہزار سال قبل ہجری عہد کے آخری اور کانسی کے عہد کے ابتدائی دور میں انسانی معاشرے میں نجی ملکیت کے وجود میں آنے سے انسان طبقوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہم اسی غیر طبقاتی اور بے ریاستی، امداد باہمی کے سماج کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ معاشرے کو طبقوں میں تقسیم اور ان طبقوں کے درمیان جاری طبقاتی کشمکش کارل مارکس سے پہلے ہی دریافت کی جا چکی تھی۔ وہ بڑے یقین سے کہتے ہیں کہ اس سرمایہ داری نظام کو صرف مزدور طبقہ ہی اپنے انقلاب سے تبدیل کرسکتا ہے۔ مسرور شاہ ترجمہ شبیر آزاد کا مقالہ ''محنت کش سیاسی صورت کی تشکیل'' ہے۔

تاریخ میں محنت کش طبقے کا کامیاب انقلاب ستر سال جاری رہا، جب کہ پہلا انقلاب پیرس کمیون ستر دن قائم رہا۔ عظیم اکتوبر انقلاب بنیادی طور پر اپنے ساتھ ایک خاص سیاسی صورت لے کر نمودار ہوا، جس نے مزدر طبقے کے لیے یہ ممکن بنایا کہ وہ سرمایہ داری کے خلاف جزوی معاشی اور سماجی جدوجہد سے آگے بڑھ کر سماج کا رہنما طبقہ بن سکے، کیونکہ یہ سیاسی صورت ہی ہوتی ہے جو کسی بھی معاشی طبقے کو سماج کی دیگر پرتوں کے ساتھ جوڑ کر ہر اول طبقہ بناتی ہے۔

منو بھائی کے انتقال کی خبر سنتے ہی قلم رک گیا، منو بھائی کے بارے میں میڈیا نے بہت کچھ بتایا اور لکھا بھی، مگر ان کی بنیادی نظریاتی وابستگی اور فکر کے بارے میں خاموش نظر آئے، منو بھائی دل کی گہرائیوں سے ایک سچے کمیونسٹ تھے، انھوں نے ساری زندگی طبقاتی نابرابری کے خلاف نہ صرف قلم سے جنگ کی بلکہ انھیں مزدوروں کے مظاہروں میں بھی دیکھا گیا۔ میری ان سے بائیس سال سے زیادہ عرصے کی ملاقات ہے۔ ان کے انتقال سے مزدور طبقہ اور کمیونسٹ کارکنان اپنے سچے کامریڈ سے محروم ہوگئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں