اپوزیشن کے تضادات

17 جنوری کے اپوزیشن انتشار کا حکومت بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے حالانکہ ہر روز اسے کسی نہ کسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

17 جنوری کو اعلان کے مطابق اے پی سی کے زیراہتمام ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کے حوالے سے جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے کی کامیابی کے حوالے سے جو شکوک و شبہات پائے جاتے تھے، وہ عمران خان کی بچگانہ ضد کی وجہ سے سچ ثابت ہوئے اور جلسے میں عوام کی شرکت توقع سے کم رہی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ 17 جنوری سے دو دن پہلے ہی سے عمران زرداری اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور لاہور کے عوام بد دلی کا شکار ہوکر رہ گئے، اس فضا کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں تحریک انصاف کے زیر اہتمام ہونے والے جلسوں کے مقابلے میں میں اے پی سی کا یہ جلسہ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوسکا۔

اس حوالے سے طاہر القادری کی کوششوں کو سراہا تو جاسکتا ہے لیکن طاہر القادری کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ جلسے سے قبل عمران خان کو سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ کرتے، کیونکہ جلسے سے قبل عمران کی طرف سے زرداری کے ساتھ نہ بیٹھنے کی جو خبریں میڈیا میں آتی رہیں اس کا نتیجہ عوام میں بد دلی کی شکل میں سامنے آیا۔

عمران خان کا موقف اصولی طور پر تو درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک عرصے سے نواز شریف کے ساتھ ساتھ زرداری کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے آرہے تھے لیکن عمران اب تک غالباً یہ سمجھ نہیں پارہے کہ وہ کوئی نظریاتی لڑائی یا نظریاتی سیاست نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ ایک بدترین بورژوا سیاست کے میدان میں کھیل رہے ہیں، جہاںاصول اور نظریات سیاسی ضرورتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ کہا گیا کہ 17 جنوری کی تیاری کے حوالے سے جو اے پی سی بلوائی گئی تھی اس میں 40 سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ کیا یہ سیاسی جماعتیں عمران کی سیاست سے متفق اور اصولی سیاست کرنے والی جماعتیں تھیں؟

اس حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیں تو نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ اس اختلاف کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوا، آج تک عمران خان کے جلسوں کے حوالے سے عوام میں جو تاثر تھا وہ مجروح ہوا اور مجموعی تاثر یہ پیدا ہوا کہ یہ جلسہ توقع کے مطابق کامیاب نہ ہوا اور اس کی وجہ عمران خان کی ضد ثابت ہوئی۔

زرداری نہ نظریاتی سیاست دان ہیں نہ انھوں نے کبھی نظریاتی سیاست دان ہونے کا دعویٰ کیا، اس کے برخلاف ان کا تعلق بورژوا سیاست سے ہے اور وہ خرابیاں جو بورژوا سیاست میں پائی جاتی ہیں وہ زرداری میں موجود ہیں، اس حوالے سے ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کو جن بدنامیوں کا سامنا کرنا پڑا اس کا نتیجہ 2013ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی شدید ناکامی کی شکل میں سامنے آیا اور عوام پیپلزپارٹی ''ہر چند کہ ہیں، نہیں ہیں'' والی کیفیت میں آگئی۔


زرداری پیپلزپارٹی کو دوبارہ سیاست میں زندہ کرنے کی جو کوششیں کرتے رہے ان کوششوں سے انھیں وہ فائدہ نہ ہوا جتنا فائدہ انھیں 17 جنوری کے جلسے میں شرکت اور برد باری پیپلزپارٹی کو دوبارہ ''سیاسی رنگ'' میں لے آئی۔ عمران خان نے زرداری کے ساتھ نہ بیٹھنے کا جو اعلان کیا اگر کوئی عام سیاست دان ہوتا تو عمران خان کے خلاف جوابی ضد اور جذباتیت کا مظاہرہ کرتا لیکن زرداری نے عمران کے رویے کا جس صبر و استقلال سے جواب دیا اس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوا اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں احساس ندامت کے ساتھ کامیابی کا تاثر بھی پیدا ہوا۔

مسلم لیگ (ن) آج کل جس سیاسی ابتلا سے گزر رہی ہے اگر اس کی قیادت میں حوصلہ اور مزاحمت کی طاقت نہ ہوتی تو وہ کبھی کہ بکھرچکی ہوتی لیکن مسلم لیگ ن جس طاقت سے اس صورتحال کا مقابلہ کررہی ہے'اس کا کسی کو یقین نہیں تھا۔سیاسی اپوزیشن اور بالادست طاقتوں کی سختی کے باوجود وہ جس استقامت کا مظاہرہ کررہی ہے اس میں حکومتی طاقت اور دولت کے بے بہا استعمال کا بڑا دخل ہے لیکن بدنامی اور ذلت کے جو پہاڑ اس کے سر پر آگئے ہیں اگر کوئی اور گروہ ہوتا تو مزاحمت ترک کردیتا لیکن حکومت جس کامیابی پروپیگنڈے کے ساتھ طاقتور اپوزیشن کا مقابلہ کررہی ہے اسے آپ کوئی نام دیں لیکن وہ اب تک داخلی انتشار سے بچتے ہوئے پروپیگنڈا محاذ پر ماہرٹیموں کے ساتھ ڈتی ہوئی ہے ۔

17 جنوری کے اپوزیشن انتشار کا حکومت بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے حالانکہ ہر روز اسے کسی نہ کسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عوام میں اس کی ناپسندی اپن انتہا کو پہنچ گئی ہے لیکن وہ ہار ماننے کو بہ ظاہر تیار نظر نہیں آتی۔ میدان سیاست میں اس کی سب سے بڑی حریف طاقت تحریک انصاف ہے اور عمران خان پنجاب کے مختلف علاقوں میں کامیاب جلسے کرکے حکومت کی طاقت میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب بھی ہورہے ہیں لیکن پنجابی نیشنلزم اور سرمائے کے حد سے زیادہ استعمال اور بے معنی ترقی کے بھرپور پروپیگنڈے کی وجہ سے اس کی گرفت پنجاب پر اب بھی مضبوط دکھائی دیتی ہے اس حوالے سے حکومت جن پروپیگنڈا گروہوں کو استعمال کررہی ہے وہ عوام کو کنفیوژ کرنے میں کامیابی حاصل کررہے ہیں۔

اس حوالے سے حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن یعنی تحریک انصاف پروپیگنڈا محاذ پر اس قدر کمزور ہے کہ وہ حقائق کو بھی عوام تک موثر انداز میں پیش نہیں کر پارہی ہے حکومت کی بے شمار ماہر پروپیگنڈا ٹیموں کے مقابلے میں لے دے کر ایک بندہ پھس پھسے انداز میں حکومت کے طوفانی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرتا نظر آتا ہے۔

اے پی سی کے قیام کے بعد بھی اپوزیشن پروپیگنڈا محاذ پر شدید کمزوری کا شکار نظر آتی ہے۔ غالباً اس کی بڑی وجہ اپوزیشن کے داخلی تضادات اور مفاد پرستی ہے جس کا مظاہرہ عوام نے 17 جنوری کے جلسے میں کیا۔ اس میں ذرا برابر ابہام نہیں کہ حکومت بدنامیوں کے پاتال میں کھڑی ہے اور عوام حکومت سے سخت بدظن ہیں لیکن رائے عامہ کا مثبت استعمال کرنے والی کوئی طاقت نظر نہیں آتی۔

اے پی سے نے جو تحریک شروع کی وہ اپنے ابتدائی مرحلے ہی میں تضادات کا شکار ہوکر اپنی اہمیت کھورہی ہے۔ تحریک بنیادی طور پر ماڈل ٹاؤن کے قصاص کے حوالے سے چلائی جارہی ہے جس کے بنیادی مطالبے شہباز اور رانا ثنا اﷲ استعفے ہیں، بلاشبہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا سے عوام کی ہمدردی ایک فطری بات ہے لیکن عوام اس نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں جو آئے دن ماڈل ٹاؤنوں کو جنم دیتا ہے، بد قسمتی سے ہماری اپوزیشن اس نظام جمہوری کی اس قدر شیدائی ہے کہ یہ عوام دشمن بد ترین اشرافیائی جمہوریت اہل سیاست کا قبلہ و کعبہ بنی ہوئی ہے کیونکہ اسے اس حقیقت کا علم ہے کہ یہی اشرافیائی جمہوریت دودھ دینے والی وہ بھینس ہے جس کے تھنوں پر ہر جمہوری سیاست کی نظر ہے۔ عمران خان بلاشبہ اس 17 سالہ استحصالی نظام میں شگاف ڈال سکتا ہے لیکن اس کے لیے بچگانہ نہیں مدبرانہ سیاست کی ضرورت ہے۔
Load Next Story