تنہائی
ہمارے ملک میں اس مہلک بیماری یعنی تنہائی کے متعلق کسی قسم کی سنجیدہ تحقیق یاسوچ موجودنہیں ہے۔
تنہائی موجودہ صدی کی مہلک ترین بیماری بن کر سامنے آئی ہے۔برطانیہ میںJo Cox Commission رپورٹ قابل غورہے۔2017ء میں پورے ایک سال کی تحقیق اورتجزیہ کے بعد یہ دستاویزشایع کی گئی۔اسے مرتب کرنے والے کوئی اورنہیں،بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کی خاتون ممبران تھیں۔راچیل ریویز،سیماکینڈی اورجوکولکس اس رپورٹ سے موجودہ زمانے کی سب سے بڑی بیماری کو سامنے لائے ہیں۔
تنہائی(Loneliness)برطانیہ کی اکثریت کونگل چکی ہے۔تقریباًایک کروڑبرطانوی شہری اسکاشکارہیں۔یہ کل آبادی کادس فیصدسے زیادہ حصہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق موبائل فون اورکمپیوٹر،انسانی تعلقات پر بری طرح اثراندازہوئے ہیں۔اکثرلوگ سیل فون کواپنا بہترین دوست سمجھتے ہیں۔اس رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ تنہائی کے بدن پرمنفی اثرات ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص پندرہ سگریٹ بلاناغہ پیئے۔صرف برطانیہ میں اس بیماری کی بدولت بتیس بلین یوروکانقصان ہوچکاہے۔
اس رپورٹ کے مندرجات نے پوری دنیامیں تہلکہ مچادیاہے۔برطانیہ کی تاریخ یاشائددنیاکی موجودہ تاریخ میں پہلی بار ''وزیر برائے تنہائی''مقررکیاگیاہے۔جنوری2018ء میں تریس کروچ اس عہدے پرمقررہوئی ہیں۔لندن میں بے شمارسائنسدان،این جی اوزکے سربراہ،ڈاکٹر صاحبان اورحکومتی عمائدین سرجوڑکربیٹھے ہیں کہ اس مہلک بیماری کو کیسے کنٹرول کیاجائے۔تنہالوگوں کوکس طرح زندگی کے دھارے میں واپس لایاجائے۔یہ اس صدی کاسب سے بڑاچیلنج ثابت ہورہاہے۔
ہمارے ملک میں اس مہلک بیماری یعنی تنہائی کے متعلق کسی قسم کی سنجیدہ تحقیق یاسوچ موجودنہیں ہے۔ اکثریت تسلیم ہی نہیں کریگی کہ یہ بھی کوئی بیماری ہے۔یہاں توتمام لوگ خوش وخرم اوربھرپورزندگی گزاررہے ہیں۔ اگر نہیں بھی توکہنے میں کیاحرج ہے۔مگرتسلیم نہ کرنے سے معاملات تبدیل نہیں ہوسکتے نہ حقائق بدل سکتے ہیں۔ایک غیرملکی سیاح خاتون نے پاکستان کے طول وعرض کا سفرکیا۔ سارے صوبوں میں گئی۔واپسی پر پوچھاگیاکہ ملک کیسا لگا۔
جواب تھاکہ میں ملک کے شہروں سے لے کردیہاتوں تک گئی ہوں۔سڑکوں پرلاکھوں مرد،خواتین اوربچے دیکھے ہیں۔ سیکڑوں لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے۔پورے ملک یعنی پاکستان میں ایک بھی فردایسانظرنہیں آسیا،جس کے چہرے پرفطری مسکراہٹ ہو۔جو خوش نظرآئے۔یہ خوفناک بات ہے۔اسے رَدکرنا مشکل ہے۔اردگرددیکھیے۔آپ کو ہر طرف لوگ غصے میں نظرآئینگے۔ اسپاٹ سے چہرے،رونق سے عاری آنکھیں، نظرآئینگی۔یہ تنہائی کی غارمیں گرنے کی پہلی منزل ہے۔
معاشرہ کی ساخت کودیکھیے۔اکثریت ہر وقت موبائل پر مصروف ہوگی۔ کسی تقریب میں بھی لوگ ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے اپنے فون پر مصروف ہوںگے۔چنددن پہلے ڈنر پرجانے کااتفاق ہوا۔ وہاں چھ افراد تھے۔ایسالگاکہ یہ تمام لوگ دوست نہیں اجنبی ہیں۔تھوڑی سی بات چیت کے بعد تمام اپنے موبائل فون پکڑکربیٹھ گئے۔ یہ رویہ اب غیرمعمولی نہیں رہا۔ ہر طرف ایک جیسے حالات ہیں۔اکثرلوگ کمپیوٹر اور فون کے بغیرایک منٹ نہیں رہ سکتے۔
تبدیلی ہرمعاشرہ کابنیادی جزو ہے۔سماج بنیادی طور پرتغیرمیں رہتاہے۔آج کے دورکوسوبرس پہلے کے اصولوں کے حوالے سے دیکھناناممکن ہے۔سوسال کوتورہنے دیجیے۔ پندرہ سے بیس برس میں ٹیکنالوجی کاجوانقلاب آیاہے،اس نے دنیاکے ہرانسان کی زندگی تبدیل کردی ہے۔فیس بُک، ٹویٹراورسوشل میڈیاکے دیگرمعاملات نے رہن سہن بدل دیے ہیں۔ سیل فون اب اس اہمیت کاحامل ہوچکاہے جیسے انسانی جسم کاکوئی اہم ترین حصہ ہو۔
غیرمتعصب طریقے سے دیکھاجائے تواب اس پورے مرحلے کوختم یاتبدیل کرنا ناممکن نظرآتاہے۔ہمارے پورے ملک میں کسی قسم کاکوئی تجزیہ نہیں ہورہاکہ ان تمام عوامل کے سماجی زندگی پرکتنے منفی اثرات پڑ رہے ہیں اورلوگ کس تیزی سے تنہائی جیسی مہلک بیماری کاشکارہورہے ہیں۔ عام آدمی کی حیثیت سے آنکھیں کھول کرچاروں طرف غورسے دیکھیے توچندحقائق یکسر عجیب سے نظرآئینگے۔اس میں تنہائی کاالمیہ سرِفہرست ہوگا۔
ترقی کے قطعاًخلاف نہیں ہوں۔مگرترقی انسان کواگر کسی منفی گھاٹی میں لے جائے،تواس کے متعلق سوبار سوچنا چاہیے۔چارسے پانچ دہائیاں پہلے پاکستان کسی اورطرح کا ملک تھا۔سیاسی طورپرعرض نہیں کررہابلکہ سماجی نقطہِ نظرسے گزارش کررہاہوں۔خاندان کایونٹ یابنیادبہت مضبوط تھی۔مسائل اس وقت بھی تھے۔مگرایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کارویہ قطعاًموجودنہیں تھا۔گھرمیں والد، والدہ، دادا، دادی،دیگربزرگ خاندان میں اجتماعی زندگی گزارتے نظر آتے تھے۔یہ ایک معمول تھا۔کوئی کسی پربوجھ نہیں تھا۔
ہر گھرمیں بزرگوں کوعزت اوراحترام حاصل تھا،بزرگ مرد اورخواتین گھرکاوہ سرمایہ تھے ۔ افسانوی بات نہیں کر رہا۔ کھانے کاایک وقت متعین تھا۔کھیل کوداوردوستوں سے ملکر واپسی کے اوقات بھی مقررتھے۔اگردیر ہوجائے توگھرکے بزرگ گیٹ کے باہرکھڑے ہوکرانتظارکرتے نظرآتے تھے۔یہ تقریباًہرگھرکی کہانی تھی۔اس کے علاوہ محلوں قصبوں میں بزرگ بھی سانجھے ہوتے تھے۔
بچے اوربچیوں پرصرف گھرکے افراد ہی کڑی نظرنہیں رکھتے تھے بلکہ محلوں کے سنجیدہ افراد،بچوں کوکسی برائی میں ملوث ہونے پربڑی اپنائیت سے ٹوکتے تھے۔اگرکوئی لڑکا،شوخی میں آکرسگریٹ پینے کی کوشش کرتاتھا،تواس کی کوشش ہوتی تھی کہ محلے یاخاندان کا کوئی بزرگ اسے دیکھ نہ لے۔کسی قسم کی مبالغہ آرائی کے بغیر عرض کرونگاکہ سماجی طورپرخاندان ایک اکائی کی حیثیت رکھتا تھا۔محلہ یاقصبہ بڑی اکائی کی شکل لے لیتاتھا۔اس توازن کو تبدیل ہوناہی تھا۔یہ تبدیلی ناگزیرتوتھی مگرضروری نہیں تھی۔
آہستہ آہستہ یہ ہواکہ خاندان کی ساخت تبدیل ہوگئی۔جیسے ہی شادی ہوئی۔الگ گھریاپرانے گھرسے ہجرت معمول بن گئی۔اپنے ہی بزرگوں سے دوری کانتیجہ یہ نکلاکہ نوجوان اوربزرگ دونوں اکیلے ہوگئے۔تنہائی نے سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔بڑے شہروں میں معاملات مزیدتبدیل یاخراب ہوگئے۔کسی کودوسرے کے متعلق علم نہیں رہا۔لاہورشہرکی عرض کرتاہوں۔میرے ایک دوست لاہورمیں''اولڈہوم''کھولنے کے متعلق سوچ رہے تھے۔ خیال تھاکہ لوگ بزرگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی روش کوتبدیل کررہے ہیں۔
میرا، دوست سے بہت اختلاف تھاکہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ بیٹااپنے ہی باپ کوکسی دوسرے کے رحم وکرم پرچھوڑدے۔مگرششدررہ گیا،جب دوست نے بتایا کہ یہاں چنداولڈہوم کام کررہے ہیں۔پھربھی یقین نہ آیا۔دیکھنے پراصرارکیا۔دوست،مجھے شادمان لے گیا۔ وہاں ایک گھرکی پہلی منزل پرتین کمروں پرمشتمل ایک اولڈ ہوم موجودتھا۔ایک کمرے میں ایک انتہائی ضعیف خاتون، اسپتال والے بیڈپرلیٹی ہوئی تھی۔ایک نرس انھیں کھانا کھلارہی تھی۔جسے خاتون بڑی مشکل سے نگل پارہی تھی۔ ساتھ ہی ایک فلپائنی نرس موجودتھی۔
اس بزرگ خاتون کی دوائیوں کاچارٹ ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی،کہ کھاناختم ہوتو خاتون کودوائیاں کھلائے۔کمرے میں ایک کیمرہ لگاہوا تھا۔ اس کی بدولت بزرگ خاتون اپنے خاندان سے منسلک تھی۔ سارے بچے اوربچیاں امریکا میں تھے۔ماں کوبذریعہ کیمرہ،اپنے لیپ ٹاپ یاموبائل فون پردیکھ سکتے تھے۔ سال میں دوبارتمام بچے ماں کودیکھنے کے لیے آتے بھی تھے۔یہ سب کچھ دیکھ کربہت دکھ ہوا۔عمررسیدہ ماں کوکئی بیماریاں تھیں۔مگرایک بیماری تنہائی بھی تھی۔جس کاعلاج نہ کوئی دوائی کرسکتی تھی اورنہ ہی کوئی نرس یاتیمادارکی مصنوعی سی ہمدردی۔
جیسے جیسے وقت گزرے گا،امریکا اوریورپ کی طرح ہمارے ملک میں بھی بزرگوں کے لیے اولڈہوم بنتے جائینگے۔ان کے لیے فائیوسٹارلیول کے"اولڈہوم"بھی بنادیے جائیں۔مگرجس خاندانی اورسماجی نظام میں ایک دوسرے سے منسلک تھے،شائداس کی غیرموجودگی میں ہم ان کی تنہائی کے المیہ کااندازہ ہی نہ لگاسکیں۔
یہ سب کچھ صرف بزرگوں تک ہی محدودنہیں ہے۔ نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کی ایک بھرپور تعداد اس بیماری کا شکاربن چکے ہیں۔ان کی قربت اپنے بھائی یابہن سے اس سطح کی نہیں ہے جس طرح کی سوشل میڈیااورفیس بک کے دوستوں سے ہے۔ ادھیڑ عمر کے انسان،خاص طورپراس تنہائی کے سیلاب میں خاموشی سے غرق ہورہے ہیں۔یعنی اب ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں،جوانفرادی زندگی کے قائل نہیں ہیں۔ یورپ اورامریکا میں اب جس''سماجی تنہائی'' کو مہلک ترین بیماری بتایاجارہاہے۔
ہم اس میں مبتلا ہونے کے باوجود کبھی اسے تسلیم نہیں کریںگے۔ہم اس پرقابو پانے کے لیے کبھی پالیسی ترتیب نہیں دینگے۔ ہم انکار کرتے کرتے جان گنوادینگے مگراس کے علاج کی طرف غور نہیں کرینگے۔برطانیہ اگر وزیر برائے تنہائی مقررکرنے پر مجبور ہو چکاہے،توہمیں بھی اس المیے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مگر شائدکبھی ایساکرنے کی جرات نہیں کرینگے۔ اسلیے کہ ہم ہرمسئلہ کوٹالتے رہتے ہیں۔ جب وہ عفریب بنکرسامنے کھڑا ہوجاتا ہے، تو ہم ایک دوسرے سے بڑی معصومیت سے پوچھتے ہیںکہ سب کچھ بربادکیسے ہوگیا!
تنہائی(Loneliness)برطانیہ کی اکثریت کونگل چکی ہے۔تقریباًایک کروڑبرطانوی شہری اسکاشکارہیں۔یہ کل آبادی کادس فیصدسے زیادہ حصہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق موبائل فون اورکمپیوٹر،انسانی تعلقات پر بری طرح اثراندازہوئے ہیں۔اکثرلوگ سیل فون کواپنا بہترین دوست سمجھتے ہیں۔اس رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ تنہائی کے بدن پرمنفی اثرات ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص پندرہ سگریٹ بلاناغہ پیئے۔صرف برطانیہ میں اس بیماری کی بدولت بتیس بلین یوروکانقصان ہوچکاہے۔
اس رپورٹ کے مندرجات نے پوری دنیامیں تہلکہ مچادیاہے۔برطانیہ کی تاریخ یاشائددنیاکی موجودہ تاریخ میں پہلی بار ''وزیر برائے تنہائی''مقررکیاگیاہے۔جنوری2018ء میں تریس کروچ اس عہدے پرمقررہوئی ہیں۔لندن میں بے شمارسائنسدان،این جی اوزکے سربراہ،ڈاکٹر صاحبان اورحکومتی عمائدین سرجوڑکربیٹھے ہیں کہ اس مہلک بیماری کو کیسے کنٹرول کیاجائے۔تنہالوگوں کوکس طرح زندگی کے دھارے میں واپس لایاجائے۔یہ اس صدی کاسب سے بڑاچیلنج ثابت ہورہاہے۔
ہمارے ملک میں اس مہلک بیماری یعنی تنہائی کے متعلق کسی قسم کی سنجیدہ تحقیق یاسوچ موجودنہیں ہے۔ اکثریت تسلیم ہی نہیں کریگی کہ یہ بھی کوئی بیماری ہے۔یہاں توتمام لوگ خوش وخرم اوربھرپورزندگی گزاررہے ہیں۔ اگر نہیں بھی توکہنے میں کیاحرج ہے۔مگرتسلیم نہ کرنے سے معاملات تبدیل نہیں ہوسکتے نہ حقائق بدل سکتے ہیں۔ایک غیرملکی سیاح خاتون نے پاکستان کے طول وعرض کا سفرکیا۔ سارے صوبوں میں گئی۔واپسی پر پوچھاگیاکہ ملک کیسا لگا۔
جواب تھاکہ میں ملک کے شہروں سے لے کردیہاتوں تک گئی ہوں۔سڑکوں پرلاکھوں مرد،خواتین اوربچے دیکھے ہیں۔ سیکڑوں لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے۔پورے ملک یعنی پاکستان میں ایک بھی فردایسانظرنہیں آسیا،جس کے چہرے پرفطری مسکراہٹ ہو۔جو خوش نظرآئے۔یہ خوفناک بات ہے۔اسے رَدکرنا مشکل ہے۔اردگرددیکھیے۔آپ کو ہر طرف لوگ غصے میں نظرآئینگے۔ اسپاٹ سے چہرے،رونق سے عاری آنکھیں، نظرآئینگی۔یہ تنہائی کی غارمیں گرنے کی پہلی منزل ہے۔
معاشرہ کی ساخت کودیکھیے۔اکثریت ہر وقت موبائل پر مصروف ہوگی۔ کسی تقریب میں بھی لوگ ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے اپنے فون پر مصروف ہوںگے۔چنددن پہلے ڈنر پرجانے کااتفاق ہوا۔ وہاں چھ افراد تھے۔ایسالگاکہ یہ تمام لوگ دوست نہیں اجنبی ہیں۔تھوڑی سی بات چیت کے بعد تمام اپنے موبائل فون پکڑکربیٹھ گئے۔ یہ رویہ اب غیرمعمولی نہیں رہا۔ ہر طرف ایک جیسے حالات ہیں۔اکثرلوگ کمپیوٹر اور فون کے بغیرایک منٹ نہیں رہ سکتے۔
تبدیلی ہرمعاشرہ کابنیادی جزو ہے۔سماج بنیادی طور پرتغیرمیں رہتاہے۔آج کے دورکوسوبرس پہلے کے اصولوں کے حوالے سے دیکھناناممکن ہے۔سوسال کوتورہنے دیجیے۔ پندرہ سے بیس برس میں ٹیکنالوجی کاجوانقلاب آیاہے،اس نے دنیاکے ہرانسان کی زندگی تبدیل کردی ہے۔فیس بُک، ٹویٹراورسوشل میڈیاکے دیگرمعاملات نے رہن سہن بدل دیے ہیں۔ سیل فون اب اس اہمیت کاحامل ہوچکاہے جیسے انسانی جسم کاکوئی اہم ترین حصہ ہو۔
غیرمتعصب طریقے سے دیکھاجائے تواب اس پورے مرحلے کوختم یاتبدیل کرنا ناممکن نظرآتاہے۔ہمارے پورے ملک میں کسی قسم کاکوئی تجزیہ نہیں ہورہاکہ ان تمام عوامل کے سماجی زندگی پرکتنے منفی اثرات پڑ رہے ہیں اورلوگ کس تیزی سے تنہائی جیسی مہلک بیماری کاشکارہورہے ہیں۔ عام آدمی کی حیثیت سے آنکھیں کھول کرچاروں طرف غورسے دیکھیے توچندحقائق یکسر عجیب سے نظرآئینگے۔اس میں تنہائی کاالمیہ سرِفہرست ہوگا۔
ترقی کے قطعاًخلاف نہیں ہوں۔مگرترقی انسان کواگر کسی منفی گھاٹی میں لے جائے،تواس کے متعلق سوبار سوچنا چاہیے۔چارسے پانچ دہائیاں پہلے پاکستان کسی اورطرح کا ملک تھا۔سیاسی طورپرعرض نہیں کررہابلکہ سماجی نقطہِ نظرسے گزارش کررہاہوں۔خاندان کایونٹ یابنیادبہت مضبوط تھی۔مسائل اس وقت بھی تھے۔مگرایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کارویہ قطعاًموجودنہیں تھا۔گھرمیں والد، والدہ، دادا، دادی،دیگربزرگ خاندان میں اجتماعی زندگی گزارتے نظر آتے تھے۔یہ ایک معمول تھا۔کوئی کسی پربوجھ نہیں تھا۔
ہر گھرمیں بزرگوں کوعزت اوراحترام حاصل تھا،بزرگ مرد اورخواتین گھرکاوہ سرمایہ تھے ۔ افسانوی بات نہیں کر رہا۔ کھانے کاایک وقت متعین تھا۔کھیل کوداوردوستوں سے ملکر واپسی کے اوقات بھی مقررتھے۔اگردیر ہوجائے توگھرکے بزرگ گیٹ کے باہرکھڑے ہوکرانتظارکرتے نظرآتے تھے۔یہ تقریباًہرگھرکی کہانی تھی۔اس کے علاوہ محلوں قصبوں میں بزرگ بھی سانجھے ہوتے تھے۔
بچے اوربچیوں پرصرف گھرکے افراد ہی کڑی نظرنہیں رکھتے تھے بلکہ محلوں کے سنجیدہ افراد،بچوں کوکسی برائی میں ملوث ہونے پربڑی اپنائیت سے ٹوکتے تھے۔اگرکوئی لڑکا،شوخی میں آکرسگریٹ پینے کی کوشش کرتاتھا،تواس کی کوشش ہوتی تھی کہ محلے یاخاندان کا کوئی بزرگ اسے دیکھ نہ لے۔کسی قسم کی مبالغہ آرائی کے بغیر عرض کرونگاکہ سماجی طورپرخاندان ایک اکائی کی حیثیت رکھتا تھا۔محلہ یاقصبہ بڑی اکائی کی شکل لے لیتاتھا۔اس توازن کو تبدیل ہوناہی تھا۔یہ تبدیلی ناگزیرتوتھی مگرضروری نہیں تھی۔
آہستہ آہستہ یہ ہواکہ خاندان کی ساخت تبدیل ہوگئی۔جیسے ہی شادی ہوئی۔الگ گھریاپرانے گھرسے ہجرت معمول بن گئی۔اپنے ہی بزرگوں سے دوری کانتیجہ یہ نکلاکہ نوجوان اوربزرگ دونوں اکیلے ہوگئے۔تنہائی نے سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔بڑے شہروں میں معاملات مزیدتبدیل یاخراب ہوگئے۔کسی کودوسرے کے متعلق علم نہیں رہا۔لاہورشہرکی عرض کرتاہوں۔میرے ایک دوست لاہورمیں''اولڈہوم''کھولنے کے متعلق سوچ رہے تھے۔ خیال تھاکہ لوگ بزرگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی روش کوتبدیل کررہے ہیں۔
میرا، دوست سے بہت اختلاف تھاکہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ بیٹااپنے ہی باپ کوکسی دوسرے کے رحم وکرم پرچھوڑدے۔مگرششدررہ گیا،جب دوست نے بتایا کہ یہاں چنداولڈہوم کام کررہے ہیں۔پھربھی یقین نہ آیا۔دیکھنے پراصرارکیا۔دوست،مجھے شادمان لے گیا۔ وہاں ایک گھرکی پہلی منزل پرتین کمروں پرمشتمل ایک اولڈ ہوم موجودتھا۔ایک کمرے میں ایک انتہائی ضعیف خاتون، اسپتال والے بیڈپرلیٹی ہوئی تھی۔ایک نرس انھیں کھانا کھلارہی تھی۔جسے خاتون بڑی مشکل سے نگل پارہی تھی۔ ساتھ ہی ایک فلپائنی نرس موجودتھی۔
اس بزرگ خاتون کی دوائیوں کاچارٹ ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی،کہ کھاناختم ہوتو خاتون کودوائیاں کھلائے۔کمرے میں ایک کیمرہ لگاہوا تھا۔ اس کی بدولت بزرگ خاتون اپنے خاندان سے منسلک تھی۔ سارے بچے اوربچیاں امریکا میں تھے۔ماں کوبذریعہ کیمرہ،اپنے لیپ ٹاپ یاموبائل فون پردیکھ سکتے تھے۔ سال میں دوبارتمام بچے ماں کودیکھنے کے لیے آتے بھی تھے۔یہ سب کچھ دیکھ کربہت دکھ ہوا۔عمررسیدہ ماں کوکئی بیماریاں تھیں۔مگرایک بیماری تنہائی بھی تھی۔جس کاعلاج نہ کوئی دوائی کرسکتی تھی اورنہ ہی کوئی نرس یاتیمادارکی مصنوعی سی ہمدردی۔
جیسے جیسے وقت گزرے گا،امریکا اوریورپ کی طرح ہمارے ملک میں بھی بزرگوں کے لیے اولڈہوم بنتے جائینگے۔ان کے لیے فائیوسٹارلیول کے"اولڈہوم"بھی بنادیے جائیں۔مگرجس خاندانی اورسماجی نظام میں ایک دوسرے سے منسلک تھے،شائداس کی غیرموجودگی میں ہم ان کی تنہائی کے المیہ کااندازہ ہی نہ لگاسکیں۔
یہ سب کچھ صرف بزرگوں تک ہی محدودنہیں ہے۔ نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کی ایک بھرپور تعداد اس بیماری کا شکاربن چکے ہیں۔ان کی قربت اپنے بھائی یابہن سے اس سطح کی نہیں ہے جس طرح کی سوشل میڈیااورفیس بک کے دوستوں سے ہے۔ ادھیڑ عمر کے انسان،خاص طورپراس تنہائی کے سیلاب میں خاموشی سے غرق ہورہے ہیں۔یعنی اب ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں،جوانفرادی زندگی کے قائل نہیں ہیں۔ یورپ اورامریکا میں اب جس''سماجی تنہائی'' کو مہلک ترین بیماری بتایاجارہاہے۔
ہم اس میں مبتلا ہونے کے باوجود کبھی اسے تسلیم نہیں کریںگے۔ہم اس پرقابو پانے کے لیے کبھی پالیسی ترتیب نہیں دینگے۔ ہم انکار کرتے کرتے جان گنوادینگے مگراس کے علاج کی طرف غور نہیں کرینگے۔برطانیہ اگر وزیر برائے تنہائی مقررکرنے پر مجبور ہو چکاہے،توہمیں بھی اس المیے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مگر شائدکبھی ایساکرنے کی جرات نہیں کرینگے۔ اسلیے کہ ہم ہرمسئلہ کوٹالتے رہتے ہیں۔ جب وہ عفریب بنکرسامنے کھڑا ہوجاتا ہے، تو ہم ایک دوسرے سے بڑی معصومیت سے پوچھتے ہیںکہ سب کچھ بربادکیسے ہوگیا!