یوم جمہوریہ پر انعامات اور میڈلز کی تقسیم

اس پر ہم سب کو بہت شرمندگی ہوئی کہ یہ ایک غلط شخصیت کو انعام دیا جا رہا ہے لیکن اب ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

PESHAWAR:
بھارت کے پہلے یوم جمہوریہ پر لوگوں کا جوش و خروش میں نے دیکھا تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے کہ یوم جمہوریہ کے دن ہم صبح سویرے اٹھتے اور قطار بنا کر راج پاٹھ جاتے وہاں سے انڈیا گیٹ کا رخ کرتے، جہاں آرمی، نیوی اور ایئرفورس کی مختلف بٹالین پریڈ کی تیاری کر رہی ہوتیں۔ مسلح پولیس کے چاک و چوبند دستے بھی کھڑے ہوتے جو اپنی مارشل پاور کا مظاہرہ کرتے۔

ماضی میں وزیراعظم کو سلامی دی جاتی تھی۔ اس مرتبہ صدر مملکت نے سلامی لی۔ اس سارے منظر میں ایک بناوٹ کا رنگ بھی ہوتا، صدر مملکت گھوڑوں کی ایک بگھی میں تشریف لاتے۔ وہ راشٹر پتی بھون (صدارتی محل) سے بگھی پر سلامی کے مقام پر آتے۔ اب جو بھی ہو رہا تھا اس میں خاصی شفافیت تھی۔ عمومی طور پر بھارت اس موقع پر غیر ملکی مہمان خصوصی کو دعوت دیتا تھا جس کا بڑی شان و شوکت سے استقبال کیا جاتا تھا۔ لیکن اس سال یوم جمہوریہ پر بہت سارے مہمانان خصوصی ہوں گے۔ زیادہ تر آسیان ممالک سے ہوں گے۔

تمام خصوصی مہمانوں کے لیے ڈائس جو پہلے 35 فٹ طویل ہوتا تھا اب اس کی لمبائی 90 فٹ تک بڑھا دی گئی ہے کہ تمام خصوصی مہمانوں کو اس پر جگہ مل سکے۔ بھارت آسیان ملکوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے لیے مزید اقدامات بھی کر رہا ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر مختلف میدانوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔

خاص طور پر مسلح افواج کے افسروں کو سرحدوں پر جرأت و شجاعت کے کارنامے دکھانے حتیٰ کہ وطن کے لیے جان کی قربانی دینے والوں کو خاص انعامات اور میڈل وغیرہ دیے جاتے ہیں تاہم پچھلے چند سال سے زیادہ انعامات حکمران جماعت کے کارکنوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں جو کہ آج کل بی جے پی کے اراکین وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ آئین کی تشکیل کرنیوالوں کے خیالات کے منافی ہے کہ انھوں نے انعامات دینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جب جنتا پارٹی عوامی تحریک کے نتیجے میں کامیاب ہوئی جس کی سربراہی گاندھی کے پیروکار جے پرکاش نرائن کر رہے تھے تو انھوں نے اسی سیاست بازی کی وجہ سے انعاموں کا اعلان کرنے پر پابندی لگا دی۔ ان انعامات کا آغاز بھارت کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جو لوگ اپنے اپنے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کریں ان کو حکومتی طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے ادب، اقتصادیات اور سائنٹفک میدانوں میں نام پیدا کرنیوالوں میں سے انعام کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔

اس حوالے سے انھیں کوئی رقم نہیں دی جاتی تھی کیونکہ انعام کی اپنی حیثیت اس قدر بلند تھی جس کو مال و دولت سے ماپا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ نہرو یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ان انعامات کا سیاست سے کوئی تعلق واسطہ ہو۔ انھیں اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ ایک وقت میں یہ تمام انعامات خالصتاً سیاسی ہو جائیں گے۔ حکومت اپنے چمچوں کو اکٹھا کر کے انعامات بانٹ دے گی جن کے بارے میں وہ سمجھیں گے کہ انھوں نے حکمران پارٹی کی خدمت کی ہے۔

وہ یاد آتا ہے کہ سب سے پہلے یوم جمہوریہ کے انعامات کا آغاز تقریباً 50 سال پہلے ہوا۔ تب یہ وزارت خارجہ کے تحت دیے جاتے تھے جو کہ نہرو کی سربراہی میں کام کرتی تھی۔ تاہم بعدازاں یہ ذمے داری وزارت داخلہ کو سونپ دی گئی اور انعامات کا فیصلہ ڈپٹی سیکریٹری کے ذمے پڑ گیا۔ اس بے چارے سیکریٹری کو بے شمار دیگر سرکاری فرائض بھی ادا کرنے ہوتے تھے۔ لہٰذا اس نے یہ کام اس انفارمیشن آفیسر کے سپرد کر دیا جو اس وزارت سے منسلک ہوتا اور یوں یہ کام میرے ذمے آ گیا کیونکہ میں وزارت داخلہ کا انفارمیشن آفیسر تھا۔


یہ فیصلہ یکطرفہ طور پر ہی ہوتا تھا، وزیراعظم اور دوسرے وزراء بعض ناموں کی تجویز مجھے دیتے جن کو میں ایک فائل میں لکھ لیتا۔ یوم جمہوریہ سے تقریباً ایک مہینہ پہلے میں ان ناموں کی ''شارٹ لسٹ'' بناتا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ناموں کے بارے میں کسی اصول یا ضابطے کو مدنظر نہیں رکھتا تھا اور یہ لسٹ ڈپٹی سیکریٹری انچارج کو دے دیتا تھا جو اسے سیکریٹری داخلہ کو بھیجتے اور جو بالآخر وہ وزیرداخلہ کی میز پر پہنچ جاتی۔ عمومی طور پر میری بنائی ہوئی لسٹ میں کوئی خاص تبدیلیاں نہیں ہوتی تھیں۔

اس حوالے سے سب سے مشکل کام مذکورہ ناموں کے لیے تعارفی یا ستائشی جملے لکھنے کا ہوتا تھا۔ اس مقصد کے لیے میں ڈکشنری اور تھیسورس کی مدد لیتا۔ بعض مواقع پر میں مذکورہ شخص کا بائیوڈیٹا کھول کر اپنے سامنے رکھ لیتا تا کہ اس سے کچھ رہنمائی مل سکے۔

عمومی طور پر کسی شخص کے لیے روایتی جملے لکھے جاتے وہ خواہ سائنسدان یا ماہر نفسیات یا ماہر اقتصادیات ہوتا لیکن میں پھر بھی یہ کہوں گا کہ انعام پانیوالوں کے تعارفی جملے لکھنا بہت کٹھن کام تھا۔ یہ سارا عمل اس قدر بے ترتیب ہوتا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس میں مداخلت کرتے ہوئے حکومت سے کہا گیا کہ اس مقصد کی خاطر باقاعدہ ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں اپوزیشن لیڈر بھی ایک رکن ہو۔ چنانچہ کمیٹی قائم کر دی گئی لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ سب سے مشکل کام تعارفی یا توصیفی جملے لکھنے کا تھا وہ ابھی تک میرے ہی ذمے تھا۔

ان ناموں کا گزٹ نوٹیفکیشن راشٹر پتی بھون سے جاری ہوتا، مجھے یاد آتا ہے کہ ایک دفعہ صدر مملکت نے مس لازارس کے نام کی تجویز دی تو ہم لوگ جو وزارت داخلہ سے متعلق تھے یہ سمجھے کہ یہ نام ایک مشہور ماہر تعلیم خاتون کا ہے اور صاحب صدر اس کو انعام سے سرفراز کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا گزٹ نوٹیفکیشن میں یہ نام شایع کردیا گیا لیکن جب صدر راجندر پرشاد نے گزٹ نوٹیفکیشن دیکھا تو انھوں نے بتایا کہ جس نام کی انھوں نے سفارش کی وہ ان کی نرس کا نام ہے۔ جس نے صدر مملکت کی اس وقت تیمار داری کی جب وہ آندھرا پردیش میں حیدر آباد سے کارنول جاتے ہوئے سانس کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔

اس پر ہم سب کو بہت شرمندگی ہوئی کہ یہ ایک غلط شخصیت کو انعام دیا جا رہا ہے لیکن اب ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سرکاری گزٹ میں یہ نام شایع ہوگیا تھا۔ اس سال لازارس نام کی دو خواتین کو یہ انعام دیا گیا جن میں سے ایک ماہر تعلیم ہی تھی۔ ماضی میں جب کانگریس کی حکومت تھی تو یہ پدما بھوشن نام کا ایوارڈ ایک امریکی ہوٹل والے سنت سنگھ چھنوال کو دیا گیا حالانکہ اس کے خلاف بعض فوجداری کے مقامات بھی قائم تھے۔ جس پر ملک بھر میں شور و غوغا مچ گیا لیکن وزارت داخلہ نے وضاحت کی کہ وہ ایک ایسا بھارتی شہری ہے جس نے امریکا میں بھارت کی خدمت کی ہے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو انعام لینے سے اس بنا پر انکار کر دیتے تھے کہ انعام کے لیے لوگوں کا انتخاب کرنیوالی کمیٹی میں کوئی ایسا شخص شامل نہیں جو ان کے کام اور ان کی حیثیت کو پہچان سکے۔

اس ساری بات چیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کیا انعامات دینے ضروری ہیں؟ کیونکہ حکمران جماعت ان لوگوں کو چنتی ہے جو پارٹی کے ورکرز ہوں یا جو حکمران پارٹی کے بہت قریب ہوں۔ گویا انعامات کی تقسیم کا اصل مقصد یہیں فوت ہو جاتا ہے کیونکہ پارٹی صرف انھی کو تسلیم کرتی ہے جنہوں نے پارٹی کے لیے نمایاں کام کیا ہو۔ جب آئین نے انعامات کی اس طرح کی تقسیم ممنوع قرار دیدی ہے تو پھر انعامات کا جاری رکھنا آئین کی روح کے منافی ہے۔ حتیٰ کہ انعام پانیوالوں کے بارے میں جو تعارفی اور توصیفی جملے لکھے جاتے ہیں وہ بھی غلط یا مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔ وزیراعظم مودی کو چاہیے کہ وہ ملک میں اس بات پر بحث کرائیں کہ کیا یہ انعامات دیے جانے چاہئیں یا نہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story